یہ کُتب چوری کیوں نہیں ھوتیں ؟.. تحریر: امتیاز احمد

میرے ذہن میں آنے والا پہلا خیال یہ تھا کہ یہ کتابیں چوری ھو جانی ھیں ، یہ سن دوہزارپانچ کی بات ھے، میرے لینگوئج اسکول کے راستے پر ایک دن ایک لکڑی کی الماری رکھی ھوئی تھی اور اس میں پانچ سات کُتب پڑی ھوئی تھیں ، الماری پر چسپاں ایک کاغذ پر لکھا تھا کہ "آپ اپنی مرضی کی کتاب لے جا سکتے ھیں اور پڑھ کر دوبارہ اِدھر ہی رکھ دیں ، اگر آپ کے پاس کوئی کتاب اضافی ھے تو وہ بھی آپ اِدھر رکھ سکتے ھیں”..
میں نے دیکھتے ہی کہا یہاں چند روز بعد ایک کتاب نہیں رہنی ، میرے ساتھ سانولی رنگت والی لاطینی امریکا کی اسٹوڈنٹ پریسیلا بھی اسکول جا رھی تھی اُس نے بھی میری ہاں میں ہاں مِلا دی ، شاید ہم دونوں کا تعلق ایک جیسے ھی معاشرے سے تھا جہاں لوگ لائبریری کی کُتب میں سے صفحات تک پھاڑ کر گھر لے جاتے ھیں..
پاکستان میں ہم دوستوں کے درمیان یہ فِقرہ مشہور تھا کہ "جو شخص کسی کو کوئی کتاب مستعار دیتا ھے تو وہ بیوقوف ھے اور جو واپس کر دیتا ھے وہ اُس سے بڑا بیوقوف ھے”..
پھر وقت کے ساتھ ساتھ میرا خیال بِالکل غلط ثابت ھوا ، دیکھتے ہی دیکھتے چار کتابوں کی تعداد چھ ھوئی ، چھ سے بارہ ، بارہ سے چوبیس اور ایک دن یہ الماری مکمل بھر چکی تھی..
چند روز پہلے کئی برس بعد میرا دوبارہ اِسی پرانے راستے سے گُزر ھوا تو وہ لکڑی کی الماری لوہے کے فریم میں تبدیل ھو چُکی تھی اور وہاں کھڑا ایک لڑکا اپنے لیے کوئی کِتاب ڈھونڈ رہا تھا..
یہ دیکھ کر میرے دِل میں پھر ایک مرتبہ شدید خواہش پیدا ھوئی کہ ایسا پاکستان میں کیوں نہیں ھو سکتا ، وہاں ہم لوگ ایسے ھی رویے کا مُظاہرہ کیوں نہیں کر سکتے؟..
جس مقام پر یہ الماری رکھی ھوئی ھے اِس کے ساتھ ھی جاگنگ ٹریک ھے لوگ واک کرتے ھوئے تھک جاتے ھیں تو کوئی کِتاب اِسی الماری سے اُٹھاتے ھیں اور تھوڑی دیر کے لیے پڑھنا شروع کر دیتے ھیں..
بون میں اس وقت ایسی ھی پندرہ الماریاں قائم ھو چُکی ھیں اور ہر کوئی اِن سے بِلامعاوضہ کُتب لے سکتا ھے ، اب تو جرمنی بھر میں یہ روایت زور پکڑتی جا رھی ھے ، موبائل فون کے انقلاب کے بعد بےکار ھونے والے ٹیلی فون بوتھز کو بھی ایسی کُتب الماریوں میں تبدیل کر دِیا گیا ھے..
میں نے چند برس پہلے اپنے علاقے کے مشہور پنجابی شاعر سلطان کھاروی صاحب اور اپنے اُستاد اِمتیازمنصور صاحب کو سنایا وہ بھی اِس بات پر حیران ھوئے..
پاکستان میں کھاروی صاحب جب بھی مجھ سے مِلتے ھیں تو یہ سوال ضرور پوچھتے ھیں کہ وہاں ابھی تک وہ کتابوں والی الماری ھے؟..
اور میں ہاں میں سر ہِلا دیتا ھوں..

 

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.