کیا قرآن اور بائبل کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا واقعہ قدیم ثقافتوں سے نقل کیا گیا ہے؟ ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب تحریر: ڈاکٹر احید حسن
کیا قرآن اور بائبل کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا واقعہ قدیم ثقافتوں سے نقل کیا گیا ہے؟ ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیکولر اور ملحد مورخین و ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق قدیم عراق کے بادشاہ سرگون، حضرت موسیٰ علیہ السلام، ہندو ادب میں کرنا اور یونانی ادب میں اوڈیپس ( Oedipus) کی اوڈیپس کی پیدائش کی کہانیوں میں مشابہت ہے اور قرآن اور بائبل کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا بیان نعوذ باللہ ایشیا، افریقہ اور یورپ کی اس طرح کی دیگر کہانیوں سے اخذ اور نقل کیا گیا ہے۔
اس اعتراض کے جواب کے لئے ہم اس حوالے سے سب سے قدیم کہانی یعنی قدیم عراق کے بادشاہ عکاد کے سرگون( Sargon of Akkad) کی پیدائش کی کہانی کا جائزہ لیتے ہیں۔ سرگون کے دور بادشاہت کی تاریخ میں اگرچہ کافی اختلاف ہے لیکن اکثر مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ جو اس کا دور بتاتے ہیں وہ 2334-2279 قبل مسیح یعنی تقریباً تقریباً حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کا ہے۔
لیکن جب ہم سرگون کی پیدائش کی کہانی کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کا تعلق ہمیں ساتویں صدی قبل مسیح کی ایک آشوری( Neo Assyrian) تحریر یعنی سرگون کی وفات کے 15 سو سال بعد ملتا ہے جس کا مطلب ہے کہ سرگون کی پیدائش کی وہ کہانی جس میں اسے ایک پجارن کا ناجائز بیٹا قرار دیا گیا ہے جس نے اسے پیدائش کے بعد ایک صندوق میں رکھ کر پانی میں بہا دیا اور بعد ازاں ایک شخص نے پانی سے نکال کر مجھے اپنا بیٹا بنا لیا اور بعد ازاں میں بادشاہت کے مرتبے پہ فائز ہوا۔1
، سرگون کی وفات کے پندرہ سو سال بعد مرتب کی گئی اور یہ سرگون کے اپنے دور یعنی 2279-2234 قبل مسیح سے تعلق نہیں رکھتی۔ جب کہ اس کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو زمانہ ماہرین آثار قدیمہ بتاتے ہیں تیرہویں صدی قبل مسیح کا ہے.2
اس پہ کچھ ملحد ماہرین آثار قدیمہ یا آرکیالوجی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک حقیقی کی جگہ فرضی شخصیت قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آکسفورڈ بائبل سٹڈیز کہتی ہیں کہ ایسے مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ بھی بہت ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت اور پیغمبری کو بنی اسرائیل یا یہود کی یادداشت میں اتنا پختہ سمجھتے ہیں کہ انہیں فرضی شخصیت قرار دینا ناممکن ہے( حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وجود کے حقیقی ہونے پہ ان شاء اللہ اگلے مضمون میں تفصیلی گفتگو کی جائے گی)۔3
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر مبارک توریت کی کتاب یرمیاہ( Book of Jeremiah and the Book of Isaiah) میں ہے۔4
جب ہم توریت کی کتاب یرمیاہ کی تاریخ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ حضرت یرمیاہ علیہ السلام کے زمانے میں مرتب ہوئی جن کا تعلق آٹھویں صدی قبل مسیح کے اواخر سے تھا۔5٫6
جب کہ Book of Isaiah کی ابتدائی شکل ساتویں صدی قبل مسیح کے اواخر میں سامنے آتی ہے۔7
اس کا مطلب ہے کہ تورات کے وہ باب جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر مبارک ہے ان کی معلوم تاریخ اور آثار قدیمہ سرگون کی پیدائش کی تاریخ بیان کرنے والے آثار سے ایک صدی قدیم ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ سرگون کی کہانی سے نقل نہیں کئے گئے بلکہ یہ ممکن ہے کہ سرگون کی پیدائش کی کہانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی کہانی سے نقل کی گئی۔
اب ہم قدیم ہندو ادب کے کردار کرنا( Karna) پہ بات کرتے ہیں۔ کرنا کی کہانی سنسکرت کی قدیم سرگزشتوں میں سے ایک یعنی مہابھارتا میں نقل کی گئی ہے جس کے قدیم ترین حصوں کا تعلق چوتھی صدی قبل مسیح سے ہے اور کچھ حصوں کا تعلق تیسری صدی قبل مسیح سے ہے۔8,9
جس کا مطلب ہے کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے آٹھ یا نو سو سال بعد اور کتاب یرمیاہ کے چار سو سال بعد لکھے گئے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی کہانی ہندو ادب کی کرنا کی کہانی سے نقل نہیں کی گئی بلکہ الٹا یہ ممکن ہے کہ کرنا کہانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی کہانی سے نقل کی گئی۔
اب ہم یونانی ادب کے کردار اوڈیپس( Oedipus) پہ بات کرتے ہیں جو کہ قدیم یونان کا افسانوی بادشاہ تھا۔ اس کردار کا علم مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ کو قدیم یونان کے پانچویں صدی قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگاروں ایسکیلس( Aeschylus)، آکائیس( Achaeus of Eretria)، نکومیکس( Nichomachus) اور زینوکلس( Xenocles) سے ہوتا ہے۔10,11,12
اگرچہ اوڈیپس کے افسانوں کی کچھ شکلیں آٹھویں صدی قبل مسیح کے یونانی افسانہ نگاروں جیسا کہ ہومر( Homer) اور ہیسیاڈ ( Hesiod) 650-750 قبل مسیح سے بھی ملتی ہیں لیکن اسی زمانے میں یعنی آٹھویں صدی قبل مسیح میں کتاب یرمیاہ مرتب ہوئی اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد کتاب یسعیاہ مرتب ہوئی، جب کہ تورات کی پانچ کتابیں یا پانچ باب اس سے پانچ سو سال قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں مرتب ہو چکے تھے، لہٰذا یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی کہانی اوڈیپس کی کہانی سے نقل کی گئی۔
مزید برآں اوڈیپس کی کہانی جو ہومر نے بیان کی ہے اس میں اوڈیپس کی اپنی ماں سے شادی کا ذکر تو ہے لیکن اوڈیپس کی پیدائش کی اس کہانی کا نہیں جو بعد کے یونانی ادیبوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ملتی جلتی کہانی بنائی۔13
مزید برآں کئی ایسے بیانات اور واقعات ہیں جن کی نسبت ہیسیاڈ کی طرف کی گئی ہے لیکن ان کا ہیسیاڈ کی طرف منسوب ہونا مشکوک ہے۔ مزید برآں اس کا اصل زمانہ بھی مشکوک ہے۔ اس کے کام کے صرف دو مجموعے Theogony اور Works and days مکمل حالت میں محفوظ ہیں اور ان میں بھی اوڈیپس کی پیدائش کا ایسا واقعہ مذکور نہیں جس کی مشابہت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے واقعے سے ہو سکتی ہو۔
اس ساری تفصیل کی بنیاد پہ یہ ثابت ہے کہ قرآن و بائبل پہ یہ الزام عائد کرنا کہ ان کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی کہانی قدیم ثقافتوں اور تاریخوں سے نقل کی گئی ہے بالکل جھوٹ ہے۔
ھذا ما عندی، واللہ اعلم باالصواب
حوالہ جات:
1:Joan Goodnick Westenholz, Legends of the Kings of Akkade: The Texts (1997), 33–49.
2:Dever, William G. (1993). "What Remains of the House That Albright Built?”. The Biblical Archaeologist. University of Chicago Press. 56 (1): 25–35. doi:10.2307/3210358. ISSN 0006-0895. JSTOR 3210358. S2CID 166003641
3:”Moses – Oxford Biblical Studies Online”. www.oxfordbiblicalstudies.com. Retrieved 2021-04-20.
4:Hays, Christopher B. 2014. Hidden Riches: A Sourcebook for the Comparative Study of the Hebrew Bible and Ancient Near East. Presbyterian Publishing Corp. p. 116.
5:Brettler, Marc Zvi (2010). How to read the Bible. Jewish Publication Society. ISBN 978-0-8276-0775-0.p.2
6:Brettler, Marc Zvi (2010). How to read the Bible. Jewish Publication Society. ISBN 978-0-8276-0775-0.p. 161-162
7:Goldingay, John (2001). Isaiah. Hendrickson Publishers. ISBN 0-85364-734-8. p.4
8:Brockington, J. L. (1998). The Sanskrit Epics. Brill Academic. ISBN 90-04-10260-4. Retrieved 25 November 2013. p. 26
9:Austin, Christopher R. (2019). Pradyumna: Lover, Magician, and Son of the Avatara. Oxford University Press. p. 21. ISBN 978-0-19-005411-3.
10:Freeman, Charles (1999). The Greek Achievement: The Foundation of the Western World. New York City: Viking Press. ISBN 978-0-670-88515-2. P. 243
11:Schlegel, August Wilhelm von (December 2004). Lectures on Dramatic Art and Literature. p. 121.
12:Burian, P. (2009). "Inconclusive Conclusion: the Ending(s) of Oedipus Tyrannus”. In Goldhill, S.; Hall, E. (eds.). Sophocles and the Greek Tragic Tradition. Cambridge University Press. p. 100. ISBN 978-0-521-88785-4