طیب سے کیا مراد ہے؟
میرا سوال لفظ "طیب” پر ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟۔ قران بار بار جگہ جگہ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ نے جو طیب چیزیں تمہیں دیں ہیں ان میں سے کھاو لیکن اس کی کوئ فہرست ہمیں نہیں دیتا۔ پھر مجھے کیسے معلوم ہو کہ ظیب کیا ہے اور خبیث کیا ہے؟
میں کچھ آیات قران سے نقل کرتا ہوں ۔
جیسے سورہ البقرہ کی آیت 168 میں ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿١٦٨﴾
پھر اس ہی سورہ کی آیت 172 میں ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّـهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ﴿١٧٢﴾
اس کے علاوہ یہ لفظ قران میں 46 آیات میں استعمال ہوا ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ انسان کو طیب کا پتہ کیسے چلے گا؟
جیسے غامدی صاحب کا یہ استدلال ہے کہ اللہ نے انسان کی فطرت پر یہ چھوڑ دیا ہے کہ انسان کو کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں ۔ اس کا فیصلہ ہمیشہ انسان نے درست کیا ہے۔ لیکن ایک مکتبہ فکر کے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سوائے سور کے جس کا قران میں ممانعت ہے اس کے علاوہ ہر شے کھائ جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ انسان کے لیے مضر صحت نہ ہو۔ اس اعتبار سے کتا ، بلی ، چوہا ، شیر وغیرہ اس وقت تک کھائے جا سکتے ہیں جب تک کہ سائنسی طور پر یہ ثابت نہیں ہوجاتا کہ کوئ شے انسان کے لئے مضر صحت ہے اور اس ہی کا مطلب قران میں طیب کا ہے۔
اس اعنبار سے دیکھا جائے تو سورہ المائدہ کی آیت 1 میں اللہ نے بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ جیسے جانور حلال قرار دیے ہیں لیکن پھر اس ہی سورہ کی آیت 4 میں پھر یہ سوال لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال ہے؟ جس کے جواب میں آیت بیان کرتی ہے کہ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ۔ اب اس سے دور نبوی کے زمانے میں لوگوں نے کیا مطلب لیا ہوگا؟۔ جبکہ کیا حلال ہے یہ بات تو سورہ المائدہ کی آیت 1 میں پہلے ہی بیان ہوچکی ہے۔ پھر یہ عجیب سی بات نہیں کہ لوگ پھر سے وہی سوال دوبارہ پوچھیں ۔
جواب: محمد حنیف
فہم القرآن کے ضمن میں دیگر چیزوں کے ساتھ ایک بہت ہی اہم شئے ، اس کا اسلوب بیان ہے ۔ قرآن کا طالب علم جب مسلسل اس کتاب عظیم پر تفکر وتدبر کرتا رہتا ہے تو پھر وہ ان باریکیوں کو سمجھنے پر قادر ہو جاتا ہے ۔
یادرہے کہ بہت سارا علم ، ہم نا دانستہ طور پر سیکھ رہے ہوتے ہیں ۔
بہت ساری باتیں تحریر و تقریر کے ذریعے سمجھائی ہی نہیں جا سکتیں تآنکہ ہم خود ان مراحل سے گزر کر اس کا تجربہ حاصل کریں۔
اصولی طور پر تو قرآن کریم انسانوں کی ہدایت کی کتاب ہے ۔ ظاہر ہے کہ انسانوں کو اس ہدایت کی ضرورت تھی تب ہی اللہ کریم نے اس کا اہتمام کیا ۔
چنانچہ اس ہدایت کے ضمن میں کہیں بات مثالیں دے کر سمجھایا گیا کہ کیا کرنا چاہیے۔ کہیں کچھ چیزیں حکماً طے کر دیں کہ ایسا کرو۔ کہیں کچھ چیزوں سے حکماً روک دیا کہ یہ نہ کرنا ۔ اس ہی طرح کہیں محض متنبہ کر کے چھوڑ دیا کہ خود فیصلہ کرو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان باریکیوں کو سمجھیں کہ کون سی بات حکم ہے !!
کون سی بات محض ایک مشورہ ہے !!
کون سی بات رُخصت ہے !!
کون سی بات اجازت ہے !!
جب تک ہم اس بُنیادی اسلوب بیان کو نہیں سمجھیں گے تب تک درست فہم القرآن تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔
جاری ہے
چند مثالیں پیش کرتا ہوں ۔
رمضان المبارک میں ایک مخصوص ٹائم پریڈ میں کھانے ، پینے اور اپنی عورتوں کے پاس جانے سے منع فرمایا گیا ہے ۔ یہ حکم ہے ۔ اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی ۔
البتہ بیماری ، سفر اور زیادہ مشقت کی صورت میں ، دیگر ایام میں روزوں کی گنتی پوری کرنا ، کسی مسکین کو کھانا کھلانا ، یہ رُخصت کہلائے گی ۔
روزے کے مخصوص پریڈ کے بعد کے اوقات میں کھانا ، پینا ، اپنی عورتوں کے پاس جانا ، یہ اجازت ہے ۔
اس نقطہ کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے ۔
طلوع آفتاب سے غروب آفتاب کے دوران نہ کھانا ، نہ پینا، حکم ہے ۔ سوائے استثنائی صورتحال کے اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی ۔
لیکن غروب آفتاب سے لے کر ، طلوع آفتاب کے اوقات میں کھانا پینا ، اپنی عورتوں کے پاس جانا ، یہ اجازت ہے ۔
یعنی ان اوقات میں آپ کو اجازت ہے کہ آپ کھا ئیں پئیں ،لیکن یہ لازم نہیں ہے ۔ اگر آپ کا دل نہ چاہے تو آپ نہ کھائیں ، نہ پئیں ۔
ہمارے یہاں جو سحری ، افطاری وغیرہ کااہتمام ہوتا ہے وہ ایک ” ٹریڈیشن” ہے ۔ اللہ کا حکم نہیں ہے ۔
اس ہی طرح ، یہ تصور کہ غروب آفتاب کے فوراً بعد لازماًکچھ کھانا چاہیے ورنہ روزہ مکروہ ہو جائے گا ، غیر قرآنی تصور ہے ۔
کھانے پینے کے حوالے سے عمومی حکم ہے کہ ۔۔۔۔۔
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا [٧:٣١]
آیت بالا میں کھانا ، پینا حکم نہیں بلکہ اجازت ہے ۔
لیکن اسراف نہ کرو ، یہ حکم ہے ۔
جاری ہے
آپ کے سوال میں بھی اس ہی اسلوب بیان کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
کسی شئے کی حلت اور حرمت ، حکم خداوندی ہے ۔ جس میں نہ تو ترمیم کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کا انکار۔
البتہ وہ اشیاء جنہیں حلال بتا دیا گیا ہے ، اس کے حوالے سے اس بات کی اجازت ہے کہ چاہوتو اسے استعمال کرو نہ چاہو تو نہ کرو یعنی ایسا نہیں ہے کہ جن اشیاء کو اللہ کریم نے حلال قرار دیا ہے وہ لازمی استعمال کرنی چاہیے ۔ا
گر ایسا ہوتا تو یہ قرآن کریم کے ایک دوسرے قانون ” لااکراہ فی الدین” سے متصادم ہوتا ۔
عربی زبان کے لفظ ” طیب” کے معنی ، خوشگواری کے ہیں ۔ ایسا کام جسے کرنے سے خوشی محسوس ہو ، اچھا لگے ۔ کراہییت نہ ہو ، اسے ” طیب” کہتے ہیں ۔
جب اللہ کریم نے کھانے پینے اور عورتوں شادی کے ضمن میں حلت و حرمت کو تفصیلاً بیان کر دیا تو اس کے ساتھ کہا کہ یہ جو حلال ہے اس کے ساتھ اسے تمہارے لئے ” طیب” بھی ہونا چاہیے ۔ یعنی تم اس سے راضی بھی ہو، یہ کرنے سے تمہیں کراہیت محسوس نہ ہو ۔
تو قانون یہ ٹہرا کہ اگر کوئی شئے آپ کو اچھی لگتی ہے ۔ پسند ہے ۔ مرغوب ہے ۔ آپ کو دلی خوشی ملتی ہے تو اس میں صرف اس امر کا خیال رکھنا ہوگا کہ وہ شئے اللہ کریم نے ” حرام” تو قرار نہیں دی۔
اگر کوئی شئے اللہ کریم نے ” حرام ” قرار دے دی ہے تو اب وہ شئے آپ کو خواہ کتنی ہی مرغوب کیوں نہ ہو، اس سے آپ کو کتنی ہی خوشی کیوں نہ ملتی ہو، آپ اسے اختیار نہیں کر سکتے ۔
البتہ اگر کوئی شئے آپ کو اچھی لگتی ہو ، مرغوب ہو ، پسند ہو ، اور اللہ کریم نے اسے ” حلال” قرار دیا ہے تو آپ پوری آزادی کے ساتھ اس شئے کا استعمال کر سکتے ہیں ۔
لیکن ، اگر اللہ کریم نے کسی شئے کو ” حلال” قرار دیا ہے ۔ اور اس شئے کے استعمال سے آپ کو تکلیف ہوتی ہو ، وہ شئے آپ کو ناگوار محسوس ہوتی ہے ، وہ شئے آپ کو پسند نہ ہو ، اس شئے کے استعمال سے آپ کو خوشی محسوس نہ ہوتی ہو ، تو آپ کو اجازت ہے کہ آپ اس شئے کو استعمال نہ کریں ۔ کوئی جبر نہیں ، یہ ہے ” طیب” کا مفہوم ۔۔
۔البتہ آپ کو اس شئے کے حوالے سے یہ ایمان رکھنا ہوگا کہ وہ شئے ” حلال” ہے ۔ آپ کی پسند و نا پسند کی بُنیاد پر وہ شئے جسے اللہ نے ” حلال ” قرار دیا ہے وہ حرام نہیں ہو جائے گی ۔
جاری ہے
آپ نے مثال دی کہ اگر کسی کو سانپ یا بلی وغیرہ کے کھانے سے خوشی ملتی ہے ، خوشگواری محسوس ہوتی ہےتو کیا ہو ۔
اس کا آسان جواب ہے کہ کیا اللہ کریم نے سانپ یا بلی ” حلال ” قراردئیے ہیں ؟؟؟
کیونکہ "حلت ” اور ” حرمت” حکم خداوندی ہیں جن سے معصیت نہیں کی جاسکتی ۔
اب اگر سانپ رب کریم کے حکم کے مطابق ” حرام” قرار پاتا ہے تو اب وہ کسی کو کتنا ہی مرغوب کیوں نہ ہو، نہیں کھایا جا سکتا ۔
شادی بیاہ کے ضمن میں بھی اللہ کریم نے "حرمت” والے رشتوں کو بیان کر کے باقی تمام عورتوں سے نکاح کو ” حلال” قرار دیا ہے ۔
اب ظاہر ہے کہ آپ دُنیا کی ہر عورت سے شادی تو نہیں کر سکتے ۔
اس جگہ بھی اللہ کریم نے اجازت عطا فرمائی ہے کہ اُن عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں ” ما طاب” کے الفاظ ہیں ۔ یعنی وہ تمام عورتیں جو اللہ کریم کی ” حرمت ” والی لسٹ کے علاوہ ہیں ، ان میں سے جو آپ کو اچھی لگے ، جس سے آپ خوش ہوں جس کے ساتھ شادی کر کے آپ خوشگواری محسوس کریں اس سے نکاح کر لیں ۔
اب اگر کسی شخص کو اپنی بہن بہت پسند ہے ، اس سے مل کر بہت خوشی محسوس کرتا ہے ،بہت خوشگواری محسوس کرتا ہے ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کریم نے بہن سے نکاح کو ” حرام ” قرار دیا ہے ۔ چنانچہ باوجود تما م تر خوشگواری کے ، تمام تر پسندیدگی کے ، بہن سے نکاح نہیں کیا جا سکتا ۔
اللہ کریم ہم سب کو دین خالص کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
سلامت رہیں