تقدیر۔ تفسیر معالم العرفان از مولانا صوفی عبدالحمید سواتی
محدثین کرام تقدیر کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں۔ پہلی تقدیر کتابی ہے جو کہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔ گویا لوح محفوظ علم الٰہی کا ایک مظہر ہے امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ لوح سے مراد ایسی تختی نہیں جو ہمارے تصور میں ہے بلکہ یہ ایک ایسی لوح ہے جس کی حقیقت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جاننا مگر ہے ضرور اور اس میں ہر چیز محفوظ ہے۔ آپ مثال کے ذریعے سمجھاتے ہیں کہ ایک حافظ قرآن آدمی کے دماغ میں قرآن پاک اوّل تا آخر محفوظ ہوتا ہے لیکن اگر اس کے دماغ کا آپریشن کیا جائے تو وہاں گوشت ، خون اور رگوں کے سوا قرآن کا ایک حرف بھی نظر نہیں آئے گا۔ اسی طرح لوح محفوظ میں ہر چیز درج ہے جو اللہ کے علم تفصیلی کا ایک نمونہ ہے اللہ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے ہی ہر چیز لوح محفوظ میں درج کردی تھی۔
تقدیر کی دوسری قسم تقدیر ارادی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں اوّل سے آخر تک جو بھی چیز ظاہر ہورہی ہے یا جو آئند ہ ہوگی وہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادے سے واقع ہوتی ہے۔
اور تیسری قسم تقدیر علمی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کو ازل میں جانتا تھا آج بھی جانتا ہے اور آئندہ بھی جانتا رہے گا۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو فلاں چیز کا علم نہیں تو وہ کافر سمجھاجائیگا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب کوئی چیز ظاہر ہوتی ہے تو اس وقت اللہ کو علم ہوتا ہے۔ اس سے پہلے نہیں۔ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے علم تفصیلی کے منکر ہیں اور قطعی کافر ہیں۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کتابی اور تقدیر ارادی کے منکر ہیں ، اگر ان کا انکار کسی تاویل کی بناء پر ہے تو گمراہ ہیں اور اگر وہ سرے سے ہی انکار کرتے ہیں تو پھر کافر ہیں۔ کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ توحید رسالت ، بعثت بعد الموت اور تقدیر پر ایمان نہیں لاتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے والذی قدر فھدی (الاعلیٰ ۔ ٣) خدا تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے کائنات کی ہر چیز کا اندازہ ٹھہرایا۔ اور پھر اس کے لیے ہدایت کا انتظام بھی فرمایا۔ خدا تعالیٰ کی صفاتِ کاملہ میں سے ایک صفت تقدیر بھی ہے۔ تقدیر کے جو منکرین یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ہم تمام اعمال اپنی مرضی سے انجام دیتے ہیں ، وہ قدریہ فرقہ کہلاتا ہے۔ یہ فرقہ دوسری صدی میں پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے برخلاف جو لوگ انسان کو پتھر کی طرح مجبورمحض سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان کو کچھ اختیار نہیں ، وہ جبریہ فرقہ کہلاتا ہے ، یعنی انسان ہر کام مجبوراً کرتا ہے ، اس کو نہ کوئی اختیار ہے اور نہ یہ اپنے ارادے سے کرتا ہے۔ یہ بھی گمراہ فرقہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک احد تک اختیار دے کر اسے مکلف بنادیا ہے ، جس کی بناء پر اسے قانون کا پابند کردیا گیا ہے۔ اگر یہ اختیار نہ ہوتا تو انسان پتھر کی طرح جامد ہوتا اور اس سے کوئی باز پرس بھی نہ ہوتی۔ لیکن انسان مختار مطلق بھی نہیں ہے کہ جو چاہے کرتا پھرے اور اس سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ نہیں بلکہ انسان کا اختیار محدود ہے جس سے آگے وہ نہیں جاسکتا۔ جہاں قانون کی پابندی کی ضرورت ہے وہاں تو اللہ نے اختیار دے دیا ہے تاکہ انسان اپنی مرضی اور ارادے سے قانون کی پابندی کرے یا اس کا انکار کردے۔ اسی بناء پر انسان مکلف ہے اور قانون کی پابندی یا عدم پابندی کرکے ہی وہ جزا یا سزا کا مستحق بنتا ہے۔ البتہ اگر کسی جگہ اضطرار کی حالت پیدا ہوجائے تو وہاں مواخذہ نہیں ہوگا۔ مثلاً کوئی شخص رعشہ کا مریض ہے اور اسے اپنے ہاتھوں پر کنٹرول حاصل نہیں۔ اگر ایسی حالت میں اگر اس کے ہاتھ سے کوئی برتن وغیرہ گر کر ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا مواخذہ نہیں ہوگا یا اسکا ہاتھ کسی دوسرے کو لگ جاتا ہے تو اس کی مجبوری کی بناء پراس سے انتقام نہیں لیاجائیگا۔ اور اگر کوئی شخص ارادۃً برتن توڑتا ہے یا کسی دوسرے شخص پر ہاتھ اٹھاتا ہے ظاہر ہے کہ وہ قابل مواخذہ سمجھاجائے گا۔ بہر حال انسان نہ تو مختار مطلق ہے اور نہ ہی مجبور محض۔ اللہ نے اسے ایک خاص حد تک اختیار دیا ہے جسے وہ اپنی مرضی اور ارادے سے استعمال کرتا ہے اور اسی پر اس کی جزا یا سزا کا دارومدار ہے۔(تفسیر معالم العرفان از مولانا صوفی عبدالحمید سواتی)