آدم اور ابلیس کے قصے میں ابلیس جن تھا یا ملائکہ میں سے تھا؟ تحریر: محمد نعیم خان
آدم و ابلیس کے قصے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ابلیس کیا ملائکہ میں سے تھا؟ اگر سورہ البقرہ کی آیت 34 کا مطالعہ کریں تو اللہ نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم ملائکہ کو دیا تھا ۔ جب حکم ملائکہ کو دیا گیا تھا تو یہ بات تو بلکل سادہ سی ہے کہ پھر اس حکم کی خلاف ورزی بھی ملائکہ نے ہی کی تھی کیونکہ سجدے کا حکم کسی اور ہستی کو دیا ہی نہیں دیا گیا تھا۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیں ۔
فرض کریں ایک کلاس میں کچھ لڑکے اور لڑکیاں ہیں ۔ استاد تمام لڑکوں کو کلاس سے نکل جانے کا حکم دیتا ہے اور لڑکیوں کو کلاس سے باہر نہ نکلنے کی وجہ سے ان کو سزا دیتا ہے۔ کیا یہ اقدام کسی بھی لحاظ سے قاہل قبول ہوگا؟۔ میرے خیال سے ہر وہ انسان جو تھوڑا بہت شعور رکھتا ہے اس اقدام کو غلط قرار دے گا۔ پھر ہم اس بات کی توقع اللہ سے کیسے کر سکتے ہیں؟ ۔ بہت سادہ سی آیت ہے ۔ حکم ملائکہ کو دیا گیا۔ سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ اب یہ بات اتنی سادہ ہے کہ جب حکم ملائکہ کو دیا گیا تو نافرمانی بھی ملائکہ نے ہی کی۔ جس کو حکم ہی نہیں دیا گیا اس سے نافرمانی کی توقع رکھنا میرے نزدیک نہایت ہی فضول عمل ہے ۔ اب جس نے اس دلیل کو رد کرنا ہے اس نے کہنا ہے کہ نہیں جناب حکم صرف ملائکہ کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ جنات کو بھی دیا گیا تھا اور اس کے حق میں قران سے آیت لگانی ہے۔
اب کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ سورہ الکہف کی آیت 50 میں اللہ نے اس کو جن کہا ہے تو یہ بات یاد رکھیے کہ قرآن نے لفظ جن کا اطلاق ملائکہ پر بھی کیا ہے۔
وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ۚ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ﴿١٥٨﴾
اِنہوں نے اللہ اور ملائکہ کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے، حالانکہ ملائکہ خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ مجرم کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں (158)
سورہ الصافات آیت 158
ترجمہ مولانا مودودی
اس ٰآیت میں لفظ "نسب” اس بات کو کھولتا ہے کہ اس آیت میں لفظ الْجِنَّةِ ملائکہ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ نسب کے معنی قرابتداری جو خصوصیت کے ساتھ آباو اجداد میں ہو۔ باپ یا ماں کی طرف سے قرابتداری۔ یہ اس کے اصل معنی ہیں ۔ اس کو سمجھنے کے لئے سورہ الفرقان کی آیت 54 پر غور کریں ۔
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا ﴿٥٤﴾
اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے (54)
ترجمہ مولانا مودودی
پھر دوسری اہم بات یہ کہ اس آیت میں "ھم” کی ضمیر اس سیاق و سباق کے مطابق ان لوگوں کی طرف جاتی ہے جو اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے تھے۔ آخری بات کہ پورے قرآن میں جنوں کے متعلق ایک آیت بھی نہیں جہاں مشرکین، عیسائیوں یا یہودیوں نے ان کو اللہ کے بیٹیاں قرار دیا ہو۔
اب اگر سورہ النحل کا مطالعہ کریں تو اس کی آیات 49 اور 50 میں ملائکہ کے کردار کے بارے میں کچھ خبر ہمیں ملتی ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے:
وَلِلَّـهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِن دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ﴿٤٩﴾ يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩ ﴿٥٠﴾
زمین اور آسمانوں میں جس قدر جان دار مخلوقات ہیں اور جتنے ملائکہ ہیں سب اللہ کے آگے سر بسجود ہیں وہ ہرگز سرکشی نہیں کرتے (49) اپنے رب سے جو اُن کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں (50)
ترجمہ مولانا مودودی
اِس آیت پتہ چلا کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کے آگے سربسجود ہے ۔ اُن کو کوئ اختیار ہی نہیں اور ملائکہ کو جو حکم ملتا ہے اُس کی پیروی کرتے ہیں۔ پھر یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس ”ملک“ نے کیسے نافرمانی کی جبکہ سورہ النحل کی آیت کے مطابق وہ نافرمانی نہیں کرسکتے۔
اِس پوری کائنات میں انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو ارادہ واختیار رکھتی ہے۔ جس کے پاس بھی ارادہ و اختیار ہو گا اُس کے پاس ہمیشہ دو راستے ہونگے ۔ زندگی کے ہر موڑ پر آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اللہ کی حکم کے مطابق چلیں یا اس کی نافرمانی کریں ۔
سورہ الشمس میں اللہ ہمیں خبر دیتا ہے کہ:
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ﴿٧﴾ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ﴿٨﴾
اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا (7) پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی (8)
ترجمہ مولانا مودودی
اس کی اگلی آیت میں یہ بھی بتا دیا کہ انسان کی کامیابی کس عمل میں ہے:
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩﴾وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ﴿١٠﴾
یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا (9) اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا (10)
ترجمہ مولانا مودودی
اس ہی بات کو قرآن نے سورہ الفرقان کی آیت 43 میں یوں بیان کیا ہے:
أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا ﴿٤٣﴾
کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ (43)
اب سوال یہ ہے کہ کیا نفس کی حالتیں ہوتی ہیں؟ کیا وہ برائ پر اکساتا ہے؟ بغاوت کرتا ہے؟؟؟؟؟؟
اب اگر آپ نفس پر غور کریں تو ایک نفس تو وہ ہے جس کا زکر سورہ یوسف کی آیت 53 میں ہے:
وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٥٣﴾
اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ (انسان کو) برائی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے گا۔ بےشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے (53)
ترجمہ جالندری
پھر ایک حصہ نفس کا یوں ہے جس کا زکر ہمیں سورہ القیامہ کی آیت 2 میں ملتا ہے:
وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ﴿٢﴾
ور نہیں، میں قسم کھاتا ہوں نفس ملامت گر کی!
ترجمہ مولانا اصلاحی
جب ان میں توازن پیدا ہوجاتا ہے تو ایسے نفس کو کیا کہتے ہیں ؟ اس کا زکر ہمیں سورہ الفجر کی آیات 27 اور 28 میں ملتا ہے۔
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ﴿٢٧﴾ ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ﴿٢٨﴾
(ارشاد ہوگا) اے نفسِ مطمئن۔ (27) تو اس حالت میں اپنے پروردگار کی طرف چل کہ تواس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے۔ (28)
ترجمہ محمد حسین نجفی
یہی وہ نفس امارہ تھا جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور اس کی رحمت سے دور ہوا۔ باقی سارے ملائکہ نے تو آدم کے سامنے سر جھکا دیا لیکن اس نے انکار کیا۔ یہ ملائکہ کیسے ہے؟ اس کی خبر ہمیں سورہ الفصلت کی آیت 30 میں ملتی ہے :
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٣٠﴾
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ "نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے (30)
ظاہر ہے کہ ایک تو خارجی ملائکہ ہوتے ہیں جو اللہ کے حکم کے مطابق امور انجام دیتے ہیں اور پیغام رسانی کا کام انجام دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر بھی جو قوتیں کار فرما ہیں ان کو بھی ملائکہ کہا جاتا ہے۔ اب کیوں کہ انسان کو ارادہ و اختیار حاصل ہے اس لئے وہ اللہ کے احکام کو اپنے ارادہ و اختیار سے قبقل اور رد کرتا ہے۔
یہاں اس مضموں کو ختم کرنے سے پہلے ایک اعتراض کا جواب دینا منساب ہے۔ احباب کہتے ہیں کہ سورہ اعراف کی آیت 12 میں ابلیس نے اپنی تخلیق نار سے بتائ ہے اور اس کی تردید اللہ نے نہیں کی اس کا مطلب ہے کہ ابلیس کا بیان درست تھا۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس ہی سورہ اعراف کی آیت 16 اس بات کو رد کردیتی ہے۔ وہاں بھی اللہ نے اس کی بات کی تردید نہیں کی۔ یہاں ایک بات کی وضاحت اور کردوں کہ جس مخلوق کی تخلیق اللہ نے آگ سے کی تھی وہ الجان تھی نہ کہ الجن۔ پورے قرآن میں کوئ ایک آیت بھی نہیں جس میں اللہ نے ہمیں یہ خبر دی ہو کہ الجن کو تخلیق آگ سے کی ہے۔ الجان اور الجن دو الگ الگ الفاظ ہیں ۔
آخری بات کہ یہی نفس امارا ہے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی تھی اور یہی انسان کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ اس ہی سے پناہ کی دعا ہم سورہ الناس میں مانگتے ہیں ۔ اس ہی کا ذکر اللہ نے قرآن میں سورہ قاف کی آیت 16 میں کیا ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴿١٦﴾
بےشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم وہ وسوسے جانتے ہیں جو اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم اس کی شہ رگ (حیات) سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ (16)
محمد حسین ںجفی
یہ میرا فہم ہے۔ اس میں یقینن غلطی کی گنجائش ہے۔