دین و دانش ،،، دین میں آسانی پیدا کرنا ۔۔ از قاری حنیف ڈار
دین میں آسانی پیدا کرنا اور تنگی کو دور کرنا اللہ پاک کا حکم ھے اور قرآن کا طے کردہ اصول ھے ،، یہ کوئی عیب نہیں ھے کہ جس پر کسی کو طعنہ دیا جائے ،، اللہ تمہارے لئے آسانی چاھتا ھے تنگی نہیں چاھتا ،،
يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر ( البقرہ )
اللہ ھم سے تخفیف چاھتا ھے ،، بوجھ ھلکا کرنا چاھتا ھے ،کیونکہ وہ جانتا ھے کہ انسان فطرتاً اور مزاجاً کمزور پیدا کیا گیا ھے ،،
… يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا ) النساء -28
نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے کر یہ اصول طے کیا ھے ،، آپ جب بھی کسی کو اپنا نمائندہ بنا کر کسی قبیلے کی طرف بھیجتے تو تاکید کر کے بھیجتے کہ آسانیاں پیدا کرو تنگیاں مت پیدا کرو اور لوگوں کو خوش کرنے والی بات کرو ،نفرت پیدا کرنے والی بات مت کرو ،،
يسِّروا ولا تعسِّروا, وبشِّروا ولا تنفِّروا ( متفق علیہ )
اللہ کے رسول ﷺ نے قرآنِ حکیم کی کوئی تفسیر نہیں کی اور نہ لکھی اور قیامت تک آنے والی اپنی امت کے ساتھ شفقت کا سلوک کرتے ھوئے ان کے لئے اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے اس تفسیر کا رستہ کھُلا چھوڑ دیا ،، اس کے بعد کسی مفسر کی تفسیر حرف آخر نہیں ھر زمانے کے مسلمان مفسرین اپنے لئے کسائش پائیں گے کہ وہ اس زمانے کے مروجہ علوم اور تجربات کی روشنی میں سابقہ تفاسیر کو ری وزٹ کرتے رھیں ،،
بنیادہ باتیں طے پا جانے کے بعد عمرانی ترقی کے ساتھ امت کو جن مسائل کا سامنا ھوتا ھے اور وہ تنگی محسوس کرتے ھیں اس وقت امت مرحومہ کے مجتہدین آگے بڑھتے ھیں اور اپنے استنباط سے رکی ھوئی ٹریفک کو رواں کرتے اور لوگوں کو آسانی فراھم کرتے ھیں ،گویا اجتہاد اصلاً امت کی آسانی کے لئے کیا جاتا ھے نہ کہ امت کا ناطقہ بند کرنے کے لئے ،، اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں اسی لئے صحابہؓ کو نبئ کریم ﷺ سے سوال در سوال کرنے سے منع فرمایا ھے کہ اس وقت جب کہ قرآن کو نزول جاری ھے ،تمہارے سوال کا جواب آسمان سے آئے گا اور پھر تمہارے لئے گنجائش ختم ھو جائے گی ،مستقبل کے بارے میں سوال مستقبل تک رھنے دو ، اس وقت کے علماء ان کا جواب دے دیں گے،، مگر چونکہ وہ جواب ایک انسان کا دیا ھوا ھو گا تو اس سے اختلاف بھی کیا جا سکے گا ،، لیکن اللہ سے اختلاف کرو گے تو حشر بنی اسرائیل جیسا ھو گا ،، 23 سال میں صحابہؓ کے سترہ سوال کوٹ کر کے اللہ پاک نے جواب دیا ھے ،،
ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے اس شخص کی مذمت کی ھے کہ جس کے سوال کی وجہ سے میری امت تنگی میں مبتلا ھو جائے ،،
عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک سفر میں تھے لشکر میں پانی ختم ھو چکا تھا ایسے حال میں ایک جوھڑ نظر آیا آپ نے حکم دیا کہ پہلے پانی کو مشکیزوں میں محفوظ کیا جائے بعد میں جانوروں کو پینے کے لئے چھوڑا جائے ، اس دوران ایک صاحب نے پاس سے گزرنے والے کسی بندے سے پوچھا کہ اس حوض سے ناپاک جانور تو پانی نہیں پیتے ؟ حضرت عمرؓ نے اس بندے کو جواب دینے سے روک دیا اور فرمایا کہ اس کے سوال کا جواب مت دو ، یہ اس امت پر تنگی مسلط کرنا چاھتا ھے جب تک ھمیں کسی چیز کے ناپاک ھونے کا علم نہ ھو ھمارے لئے وہ چیز پاک ھے ،، اسی طرح ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ اگر تمہیں کسی چیز کی حلت و حرمت میں شک ھو تو اسے حرام ثابت کرنے کے لئے تحقیق مت کرو ، بلکہ اس غیر یقینی کی کیفیت میں اسے استعمال کرنے کا جواز موجود رھنے دو ،،،
جو لوگ مختلف کوڈز کے ذریعے ھر چیز میں خنزیر کی ملاوٹ ثابت کرتے پھرتے ھیں ،، وہ دین کی ذرا بھی خدمت نہیں کر رھے ،، بلکہ مسلمانوں کو فاسق بنا رھے ھیں ،جب معلوم ھونے کے باوجود ان کے پاس ان کو استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ، اور آپ مسلمان ان کا متبادل بھی نہیں دے سکے تو پھر لوگوں کو کنفیوز کر کے ھم کونسی دین کی خدمت کر رھے ھیں ،،
جب علماء لوگوں کی آسانی کی بجائے لوگوں پہ شکنجہ کسنے کے لئے اجتہاد کریں گے ، اور اپنے ذاتی ذوق و تقوے کو معیار بنا کر مسلمانوں پہ دین لادیں گے تو لوگ دین سے بغاوت کر دیں گے ،، اس شریعت کی اساس ادنی مسلمان کو سامنے رکھ کر کھڑی کی گئ ھے نہ کہ ابوبکر صدیقؓ یا عشرہ مبشرہ کو پیمانہ بنا کر ،،، سابقہ امتوں میں بھی ان کے علماء نے یہی کھیل کھیلا تھا اور ان کے ڈالے ھوئے طوق اور پہنائی گئ بیڑیاں نبئ کریم ﷺ نے آ کر توڑی ھیں ،، اللہ اجر سے نہیں تھکتا اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں مگر انسان خود اپنے اٹھائے ھوئے بوجھ تلے دب کر مر جاتا ھے ،، فما رعوھا حق رعایتھا ،،، پھر وہ جو آئیڈیل چن لیتے ھیں ان پہ پورا نہیں اتر سکتے ،، لہذا فاسق ھو جاتے ھیں ،
چنانچہ اپنے اپنے فقہی مسالک کے دفاع کے لئے اس بات کو عام کرنا کہ بندے کا کسی ایک امام سے جڑا رھنا بہت ضروری اور دین کا تقاضہ ھے ایک غلط بات ھے جس کی کوئی شرعی دلیل نہیں ھے ، سوائے اس طعنے کے کہ ” ھماری فقہ کا میٹھا میٹھا ھپ ھپ اور کڑوا کڑوا تھُو ؟ ” بندے کو اپنے مسئلے کا حل جس امام کے اجتہاد میں ملتا ھے وہ بخوشی اس کو استعمال کرے بغیر کسی احساسِ جرم کے ،، آپ نے ایک انسان کے اجتہاد کو چھوڑ کر دوسرے انسان کے اجتہاد کو اختیار کیا ھے ، اس میں کوئی حرج نہیں اصل الاصول اور اس شریعت کی Clause 1,A آسانی ھے ،یریداللہ بکم الیسر ،، کوئی اجتہاد اس کلاز ون اے کے خلاف نہیں کیا جا سکتا ،،
اس پر بعض لوگ بھپکی کستے ھیں کہ ” یہ تو خواھشِ نفس کی پیروی ھو گئ ” دین کی پیروی تو نہ ھوئی، جب تک دوسرے امام کی دلیل قوی معلوم نہ ھو تب تک دوسرے امام کا اتباع نفس کا اتباع ھے ،،
گزارش یہ ھے کہ اگر دوسرے امام نے نفس کا اتباع کرتے ھوئے اجتہاد کیا ھو گا پھر تو آپ کی بات درست ھو سکتی ھے ،، اور اگر اس نے علم کی پیروی کرتے ھوئے اجتہاد کیا ھے تو پھر علم کا اتباع ھوا نہ کہ نفس کا ،،،
دوسری بات یہ ھے کہ کتنے لوگ اپنے امام کی دلیل کو سمجھ کر حنفی بنے ھوئے ھیں ؟ جب ایک امام کا اتباع بغیر دلیل معلوم ھوئے کیا جا رھا ھے تو دوسرے امام کا بلا دلیل اتباع کرنا کس دلیل سے ناجائز ھو گیا ھے ،، جب کہ یہ بات متفق علیہ ھے کہ تمام امام اپنی اپنی جگہ برحق ھیں ،،
[…] دین پسند اور دین دار (حصہ سوئم ) آئیے….. دین ودنیا میں آسانیاں دین و دانش ،،، دین میں آسانی پیدا کرنا ۔۔ […]