حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا واقعہ۔ ۔ تحریر محمد نعیم خان
حضرت سلیمان کی وفات کا واقعہ ہمیں سورہ سبا کی آیت 14 میں ملتا ہے۔ آیت کچھ یوں ہے:
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴿١٤﴾
پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم کیا تو انہیں ا سکی موت کا پتہ نہ دیا مگر گھن کے کیڑے نے جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا پھر جب گر پڑا تو جنوں نے معلوم کیا کہ اگر وہ غیب کو جانتے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں نہ پڑے رہتے (14)
احمد علی
مفسرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان کی موت ہوئ تو کسی کو خبر نہ ہوئ اور جب دیمک نے اُن کے عصا کو کھایا تو جب وہ گرے تو تب سب کو معلوم ہوا کہ اُن کا تو انتقال ہوچکا ہے۔
اِس تفسیر کو اگر علم و عقل پر پرکھیں تو یہ کسی بھی معیار پر پوری نہیں اُترتی۔ حضرت سلیمان ایک عظیم سلطنت کے بادشاہ تھے اور اس کے امور چلاتے تھے ۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک سال تک اس حالت میں کھڑے رہے۔ پھر اِن کی مملکت کے لوگ اتنے بےوقوف تھے کہ یہ بھی جان نہ سکے کہ نہ وہ رفائے حاجت کے لئے جاتے ہیں نہ ہی کھانا کھاتے ہیں نہ ہی کسی امور کا حکم دیتے ہیں تو سلطنت کیسے چلتی تھی؟؟؟؟ پھر ایک بادشاہ ہونے کے ناطے وہ خود کھڑے ہو کر نگرانی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے ماتحت اس کام کے لئے تھے جیسے حضرت یوسف خود بوریاں نہیں بھرا کرتے تھے بلکہ ان کے ماتحتوں کے زمے یہ کام تھا۔ اس ہی طرح حضرت سلیمان کے ماتحت ان کے کام انجام دیتے تھے لیکن کسی ایک کو بھی اس کی خبر نہ ہوئ کہ حضرت سلیمان نہ تو حرکت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی امور میں کوئ حکم دیتے ہیں ۔
جو لفظ اس آیت میں اس پوری بات کو کھولتا ہے وہ ”دَلَّهُمْ“ ہے۔ ”هُمْ“ سے مراد تو وہ تمام سرکش قبائل تھے جنہیں قرآن جن کہہ کر پکارتا ہے اور جو حضرت سلیمان کے قبضے میں تھے۔ لیکن ”د ل ل“ کا معنی کسی چیز کو کسی ایسی علامت کے ذریعے ظاہر کردینا جسے انسان بتدریج غور و فکر کے بعد جانے۔ اس ہی لفظ سے ”دلیل“ نکلا ہے جس سے کسی بات کو واضع کیا جائے۔ جس سے کسی چیز کا نشان یا پتہ معلوم ہوجائے۔ یہ تمام بتدریج معلوم ہونا ہے۔ رفتہ رفتہ کسی چیز کی معرفت حاصل کرنا۔
اس لئے جب حضرت سلیمان کا انتقال ہوا تو جیسا کہ بائبل میں لکھا ہے ان کا جانشین ان کا بیٹا ہوا۔ بلکل ویسے ہی جیسا کہ حضرت داود کے بعد حضرت سلیمان ان کے جانشین ہوئے۔ جس طرح حضرت داود نے جنات کو مسخر کر رکھا تھا اس ہی طرح حضرت سلیمان کے پاس بھی ایسے ہی جن مسخر تھے اور ان کے لئے مختلف کام سر انجام دیا کرتے تھے۔ اللہ نے دونوں کو علم اور حکمت عطا کیا تھا۔ اب جیسا کہ قرآن سے ظاہر ہے کہ لازمی نہیں کہ کسی نبی کا بیٹا بھی نیک ہو۔ جیسے حضرت نوح کے بیٹے کی مثال۔ بلکل ایسے ہی حضرت سلیمان کا بھی بیٹا نیک نہیں تھا۔ اسے علم و حکمت کی نعمت میسر نہیں تھی ۔ اقتدار ملنے کے بعد جیسے سلطنت کو چلانا چاہیے تھا ویسے نہ چلا سکا۔ اس واقعہ کی تفصیل بائبل میں سلاطین کے باب 12 میں تفصیل سے ملتی ہے۔
اس آیت میں دوسرا اہم لفظ ”دَابَّةُ الْأَرْضِ“ ہے۔ جس سے مراد حضرت سلیمان کا بیٹا ہے جس کی نظر صرف زمین تک محدود تھی۔ جو اس زمین پر چلنے والا عقل و فکر سے خالی ایک جاندار تھا۔ جو اس زمین پر ایک بوجھ تھا۔ جو مادہ پرست انسان تھا۔
اس لفظ دَابَّةُ کے معنی ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو زمین پر چلے۔ ہر رینگنے اور چلنے والا جاندار (تاج)۔ جو لوگ دین میں اور دنیا کے معاملات میں عقل و فکر سے کام نہ لیں انہیں قرآن بدترین مخلوق قرار دیتا ہے۔
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
بےشک بدترین خلائق اللہ تعالیٰ کے نزدیک وه لوگ ہیں جو بہرے ہیں گونگے ہیں جو کہ (ذرا) نہیں سمجھتے (22)
سورہ الانفال ترجمہ جونا گڑھی
بلکل اس ہی طرح سورہ توبہ کی آیت 38 میں بھی اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ کے الفاظ محاورہ ایسے لوگوں کے لئے آئے ہیں جن کی نظریں زمین کی طرف ہوتی ہیں یعنی وہ لوگ جو صرف دنیاوی فوائد ہی دیکھتے ہیں اور آخرت کے مقابلے میں دنیا خرید لیتے ہیں ۔ اس اعتبار سے یہاں ”دَابَّةُ الْأَرْضِ“ کے الفاظ حضرت سلیمان کے ناخلف بیٹے کے لئے استعمال ہوئے ہیں ۔ جو حضرت سلیمان کی سلطنت جس کو استعارہ کے طور پر مِنسَأَتَ سے تشبیہ دی ہے جس کا مادہ نسی سے ہے جس سے مراد پیچھے ڈال دینا ہے۔ مِنسَأَتَ عصا کو کہتے ہیں ایسے عصا کو جس سے وحشی جانوروں کو پیچھے ہٹایا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن میں عصا کا لفظ متعدد بار استعمال ہوا ہے لیکن یہاں اللہ نے مِنسَأَتَ سے حضرت سلیمان کی سلطنت کو تشبیہ دی ہے کیوں کہ ان کے قبضے میں سرکش قبائل تھے جو انہوں نے اس ہی سلطنت کی بدولت حاصل کئے تھے۔
اگر آپ بائبل کا مطالعہ کریں تو جو تفصیل وہاں ملتی ہے اس کے مطابق جب ان کا بیٹا جانشین ہوا ہے تو سلطنت کی حالت بگڑتی گئ۔ بنی اسرائیل والوں نے کچھ مطالبات پیش کئے۔ حضرت سلیمان کے بیٹے نے مشورہ کے لئے پرانے مشیروں سے صلح لی انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ ان کے مطالبات کو تسلیم کر لے لیکن اس نے ان کی بات نہ مانی بلکے ان پر سختی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بغاوت ہوئ اور سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور غیر اسرائیلی اقوام جو ان کے قبضے میں تھیں وہ آزاد ہوگیں
یہ کوئ نئ بات نہیں تھی کہ یہ سرکش قبائل جو حضرت داود کے زمانے سے تھے جن پر حضرت داود کے بعد حضرت سلیمان کا اقتدار رہا بغاوت کرتے رہتے تھے۔ جس کا زکر ہمیں سورہ ص کی آیت 34 میں ملتا ہے ۔ آیت کچھ یوں ہے:
وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ ﴿٣٤﴾
اور (دیکھو کہ) سلیمانؑ کو بھی ہم نے آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا پھر اس نے رجوع کیا (34)
ترجمہ مولانا مودودی
جس کی تشریح میں مولانا اصلاحی لکھتے ہیں ۔
تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہ سخت امتحان پیش آیا کہ دشمنوں نے یورش کر کے ان کے بیشتر علاقے چھین لیے اور باقی علاقوں میں بھی ایسی گڑ بڑ پھیلا دی کہ نظم حکومت عملاً بالکل درہم برہم ہر کر رہ گیا۔ ان کی تخت سے صرف مرکز بچا جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام بالکل مجبور و محصور ہو کر رہ گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان تھا لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام ایک خدا ترس بادشاہ تھے اس وجہ سے انھوں نے یہ گمان فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کسی غلطی کی سزا دی ہے۔ اس احساس نے ان کے غم کو دوبالا کر دیا اور وہ اس غم اور بے بسی کی حالت میں اپنے تخت حکومت پر ایک جسد بے جان ہو کر رہ گئے۔ اس وقت انھوں نے نہایت تضرع کے ساتھ اپنے رب سے دعا کی کہ اے رب، میرے گناہ معاف کر اور اگرچہ میں تیرے فضل و انعام کا حق دار نہیں رہ گیا ہوں لیکن تو بڑا بخشنے والا ہے، اس وجہ سے میرے عدم استحقاق کے باوجود مجھے ایسی بادشاہی دے جس کے سزاوار اس طرح کے گناہ کے ساتھ دوسرے نہ ہوتے ہیں، نہ ہوں گے ۔(تدپر القرآن)
اب ایک آخری بات رہ گئ جنوں کے غیب کا علم جاننے کی۔ ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جن یہ گمان کیا کرتے تھے کہ وہ غیب کا علم جانتے تھے۔ مجھے میری علم کی حد تک پورے قرآن میں کوئ ایک آیت نہیں ملی جہاں جنوں کا یہ دعوی ہو۔ یہاں ایک بات بہت اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ اللہ کا سلسلہ رشد و ہدایت انسانوں کے لئے تھا۔ جب سے حضرت انسان نے اس زمین پر قدم رکھا ہے اس وقت سے تمام آسمانی کتابیں انسانوں کے لئے ہی تھیں ۔ قرآن خود اپنے آپ کو ہدی الناس کہہ کر پکارتا ہے۔ ان تمام باتوں کے بعد کسی غیر مرئ ہستی کا اس قرآن سے ہدایت پاتا اس بات کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔
اس آیت میں حرف ”لو“ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ یہاں جنات کا دعوی نہیں بلکہ ان کی خواہش تھی۔ یہ حرف ”لو“ حرف شرط ہے ، اے کاش کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ حرف ”لو“ بالعموم ایسے امور کے لئے استعمال ہوتا ہے جن کا وقوع میں آنا ممکن نہ ہو۔ جیسا کہ سورہ الشعرا کی آیت 102 میں کفار کا بیان ہے :
فَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٠٢﴾
کاش ہمیں ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقع مل جائے تو ہم مومن ہوں” (102)
ترجمہ مولانا مودودی
بلکل اس ہی طرح یہ جنات بھی اس خواہش کا اظہار کر رہے ہیں کہ کاش اگر ہم غیب کا علم جانتے تو اس زلت کے عذاب میں مبتلا نہیں رہتے۔ جس وقت کے سلیمان کی سلطنت گری ہے اس وقت ان کو اندازہ ہوا کہ وہ بہت پہلے ہی اس زلت سے نجات پا چکے ہوتے اور آزاد ہو چکے ہوتے۔ یہاں اللہ ان کے بات کی تردید نہیں بلکہ ان کی خواہش کا اظہار فرما رہا ہے۔
آخر میں سورہ اعراف کی ایک آیت کا حوالہ بھی دیتا جاوں کہ سلطنیں کیوں گرتی ہیں۔ سورہ اعراف کی آیت 169 میں اللہ فرماتا ہے :
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَـٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ ۗوَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿١٦٩﴾
پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کے جانشین ہوئے کہ کتاب کو ان سے حاصل کیا وه اس دنیائے فانی کا مال متاع لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری ضرور مغفرت ہو جائے گی حاﻻنکہ اگر ان کے پاس ویسا ہی مال متاع آنے لگے تو اس کو بھی لے لیں گے۔ کیا ان سے اس کتاب کے اس مضمون کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ کی طرف بجز حق بات کے اور کسی بات کی نسبت نہ کریں، اور انہوں نے اس کتاب میں جو کچھ تھا اس کو پڑھ لیا اور آخرت واﻻ گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو تقویٰ رکھتے ہیں، پھر کیا تم نہیں سمجھتے (169)
محمد جونا گڑھ