ایک ملحد کی پوسٹ اور اس کا جواب
”میں ایک مثالی جمہوریت اور آزاد معاشرے کا خواہش مند ہوں، جس میں تمام لوگ ایک ساتھ امن سے زندگی بسر کریں اور انھیں ایک جیسے مواقع میسر ہوں”
دراصل یہ کوئی سہانا سپنا نہیں بلکہ پیٹ کی مروڑ ہے۔ امام دین کا یہ مختصر سا جملہ انتہائی احمقانہ قسم کے تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ”آزاد معاشرے” ایک متناقض مرکب لفظ ہے۔ معاشرے کا مطلب ہی یہ ہے کہ افراد ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں۔ اور مل جل کر رہنے کے لیے لازمی طور پر افراد کو اپنی آزادی کا کچھ نہ کچھ حصہ قربان کرنا پڑے گا۔ معاشرے کے لفظ میں خود سے خود پابندی کا التزام پایا جاتا ہے۔ ایسے میں معاشرہ کس طرح سے آزاد ہوسکتا ہے؟ اسی سے اندازہ ہونا چاہیے کہ آزاد معاشرہ والا لفظ کتنا احمقانہ ہے۔
مثالی جمہوریت۔۔۔۔ اس کا بھی کوئی مطلب نہیں بنتا۔ جمہوریت دراصل نام ہی ہے اکثریت کے اقلیت پر اسبتداد کا۔ اس اعتبار سے جمہوریت اپنے معنوں میں ڈکٹیٹرشپ ہی کا نام ہے۔ اگر جمہوریت مثالی ہوتی ہے تو پھر کیوں نہ مثالی ڈکٹیٹرشپ کا خواب دیکھا جائے؟ اور ویسے بھی جہاں پر جمہوریت ہوتی ہے وہاں پر آپ صرف ووٹ ڈالنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے کے بعد آپ کو اسی ”جمہوری استبداد” کو اگلے پانچ سال تک بھگتنا پڑتا ہے الا یہ کہ کوئی مثالی ڈکٹیٹر اپنے دامن میں دو کتوں کے ساتھ آ موجود ہو۔
یکساں مواقع یا equal opportunity ایک اور خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں آپ کچھ بھی کر لیں آپ یکساں مواقع پیدا کر ہی نہیں سکتے۔ ہاں مگر اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ بچوں کو کسی فارمی مرغیوں کی طرح پیدا کرنا شروع کردیں۔ پھر بھی شاید کامیاب نہ ہوں۔ ہر بچے کو جو بھی مواقع میسر آتے ہیں وہ اس کے ماحول اور حالات پر منحصر ہوتے ہیں الا یہ کہ حکومت بچوں کو اُگانے کا کوئی انتظام کرلے۔ لیکن پھر یہ ہیومن رائٹ نام کے کسی ایبسٹریکٹ تصور کے خلاف ہوجائے گا۔
دراصل یہ مثالی جمہوریت، آزاد معاشرے اور یکساں مواقع جیسے الفاظ عوام کو بیوقوف بنانے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سرمایہ داری انہیں الفاظ اور خوابوں کو استعمال کر کے انسان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا استحصال کرتی ہے۔ انہی جھوٹی بلکہ انتہائی لغو، غیر منطقی اور متناقض اصطلاحوں میں بلکہ خوابوں میں سرمایہ داری کی جان ہے۔
جو الفاظ آپ انسانوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف استعمال کرتے ہیں وہ انہی جرائم کی پیداوار ہیں۔