مسیحیت از محمد حسن الیاس
اللہ تعالی کے نزدیک دین ہمیشہ سے اسلام رہا ہے۔ تمام انبیاء اسی کی دعوت لے کر دنیا میں آئے ۔یہ بات پوری صراحت سے الہامی کتابیں بیان بھی کرتی ہیں کہ یہ انبیاء کی قومیں تھیں،جنہوں نے انحراف کے راستے اختیار کیے اور خود کو مسیحی اور یہودی بنالیا۔ اس وقت اس دنیا میں سب سے بڑی تعداد سیدنا مسیح کے ماننے والوں کی ہے ۔لیکن وہ بھی اپنی اصل الہامی روایت سے بہت مختلف صورت اختیار کر چکی ہے ۔ موجودہ مسیحیت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے وہ تین عقائد سے عبارت ہے۔ پہلا، تثلیث ۔ دوسرا ،کفارہ ۔ اور تسیرا ،شرعیت کی تنسیخ۔ موجودہ مسیحیت کے یہ نظریات سیدنا مسیح سے منسوب نہ کسی تاریخ سے وابستہ ہیں اور نہ خدا تعالی کے مقدس کلام میں ان کی کوئی دلیل موجود ہے۔ان کا ماخذ فقط "اجماع امت” ہے ۔یہ اجماع چند نصوص اور تعبیرات کی تفھیم پر مبنی ہے ۔ جن لوگوں کے نزدیک اجماع قطعی حجت ہے انھیں تو مسیحیوں سے گفتگو کا حق حاصل نہیں، البتہ جو لوگ دلائل کی بنیاد پر نظریات کا جائزہ لینے کا مزاج رکھتے ہیں، ان کے لیے عرض ہے کہ بائبل میں موجود خدا کا مقدس کلام ان تینوں نظریات کی حمایت تو ایک طرف،پوری شان سے ان کی نفی کرتا ہے۔ سب سے پہلے تثلیث کو دیکھتے ہیں۔یہ سر تا سر سیدنا مسیحی کی عقیدت سے پیدا ہونے والا ایک تصور ہے، جو الہامی روایت کے لیے اس قدر اجنبی ہے کہ پورا زور لگانے کے باوجود اس نظریے پر کسی صریح نص سے کوئی قطعی استدلال نہیں کیا جا سکتا ۔یہ نظریہ بالکل وہی ہے جو ہمارے صوفیا وحدت الوجود کے تصور میں بیان کرتے ہیں ۔صوفیا اس وحدت میں کائنات کی ہر چیز کو شامل کرتے ہیں جب کہ مسیحی محض دو اشخاص پر اکتفاء کرتے ہیں۔اور اس کے لیے بالکل اسی درجے کے دلائل دیے جاتے ہیں جیسے ہمارا ہاں چار اماموں کی تقلید کے لیے دیئے جاتے ہیں۔اور جس طرح قرآن مجید کا مطالعہ یہ واضح کر دیتا ہے کہ اس کے پیش نظر وحدت الوجود کا کوئی نظریہ نہیں ،نہ ہی چار اماموں کی تقلید لازم ہے بالکل اسی طرح بائبل کا مطالعے بھی واضح کر دیتا ہے کہ اس کے پیش نظر دور دور تک کوئی ایسا نظریہ نہیں۔ خدا کا مقدس کلام بتاتا ہے کہ خدا یکتا ہے، یگانہ ہے ،بے ہمہ ہے، اکیلا ہے، اس کی ذات صفات کسی میں کوئی اس کا شریک نہیں، اور پیغمبر اس کا پیغام لے کر دنیا میں آتے ہیں اور رخصت ہوجاتے ہیں ،وہ خدا کے فرستادہ ہوتے ہیں اسی طرح اس کے احکام کے پابند بھی۔ خدائے بزرگ و برتر کی اس حیثیت کو بائیبل پوری شان سے بیان کرتی ہے، اور کسی جگہ کوئی ابہام نہیں رکھتی کہ یہ غلط فہمی پیدا ہو کہ کائنات دراصل باپ، بیٹا اور روح القدس کے تابع ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:۔’’حقیقی اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔‘‘ (یوحنا ۳/۱۷ ) ’’خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔‘‘ (مرقس ۱۲/۳۰)’’خداوند ایک خدا سے محبت رکھ۔‘‘ (متی ۲۲/۳۷) ’’خداوندوہی خداوند ہے۔ اُس کے سوا کوئی ہے ہی نہیں۔‘‘(استثنا۴/۳۵)’’خداوند وہی خدا ہے کہ جو اوپر آسمان پر ہے۔‘‘ (استثنا ۴/۳۹)’’خداوند وہی خدا ہے۔ خدا ایک ہے‘‘۔ (استثنا ۶/۴) ’’میں ہی خداوند ہوں اور میرے سوا کوئی اور معبود نہیں۔اور نہ ہی میرے مشابہ ہے۔‘‘ ( یسعیاہ۵؍۴۵ و ۵؍۴۶ )علم میں مساوی نہیں۔ ( مرقس ۱۳/۳۲ ) قدرت میں مساوی نہیں۔ (متی ۲۳۔۲۰/۲۹)دوسرا عقیدہ کفارے کا ہے ۔ یہ عقیدہ موجودہ مسیحیت کے علما بھی محض ایک اجماعی روایت کے طور پر مانتے ہیں اور اسے ثابت کرنے کی سعی میں زیادہ دلائل پیش نہیں کرتے ۔ یہ نقطہ نظر عقل و فطرت کے مسلمات کے بھی خلاف ہے اور الہامی روایت کے بیانات بھی پوری طاقت سے اس کی نفی کرہے ہیں۔
اس سے ملتا جلتا عقیدہ مسلمانوں میں بھی موجود ہے ،اور وہ یہ کہ بحیثیت مسلمان اب جنت انھی کی ملکیت ہے، اور قیامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شفاعت کے ذریعے مسلمانوں کو جہنم کی آگ سے بچا لیں گے۔ گویا ان کے گناہوں کے نجات محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کا حصہ ہونا ہے۔ قرآن مجید جس طرح اس تصور کی نفی کرتا ہے، بلکل ایسے ہی بائبل یہ بتاتی ہے کہ جزا و سزا کا انحصار انسانی عمل پر ہے۔ارشاد ہوا ہے:جو جان گناہ کرتی ہے و ہی مرے گی۔ بیٹا باپ کی بدکاری کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا اور نہ باپ بیٹےکی بدکاری کا بوجھ اُٹھائے گا۔ صادق کی صداقت اسی پر ہو گی اور شریرکی شرارت اُسی پر پڑے گی۔ (حزقی ایل باب ۱۸ آیت ۲۰)دیکھ ساری جانیں میری ہیں۔ دیکھ جیسے باپ کی جان اسی طرح بیٹے کی جان۔ دونوں میری ہیں۔ جو جان جو گناہ کرتی ہے سو وہ ہی مرے گی۔ (حزقیل ۱۸ باب ۴) اسی طرح لکھا ہے کہ اولاد کے بدلے باپ دادےمارے نہ جائیں گے نہ باپ دادوں کے بدلے اولاد قتل کی جائے۔ ہر ایک اپنے ہی گناہ کے سبب مارا جائے گا۔( استثناء باب ۲۴ آیت ۱۶)موسی کی شریعت کی کتاب میں لکھا ہے کہ اس میں خدا وند نے فرمایا ہے کہ بیٹوں کے بدلے باپ دادے قتل نہ ہوں گےبلکہ ہر ایک آدمی اپنے گناہ کے لئے مارا جاوے۔ ( تورایخ ۴ آیت ۲۵) ان دنوں میں پھر یہ نہ کہا جائے گا کہ باپ دادوں نے کچے انگور کھائے اور لڑکوں کے دانت کھٹے ہو گئے کیونکہ ہر ایک اپنی بدکاری کے سبب مرے گا۔ ہر ایک جو کچے انگور کھاتا اس کے دانت کھٹے ہوں گے۔ (یرمیاہ ۳۱ آیت ۲۹ تا ۳۰)لوگ یوحنا سے بتسمہ لینے کے لئے آئے یوحنا نے ان سے کہا تم زہریلے سانپوں کی طرح ہو۔مستقبل میں آنے والے خدا کے عذاب سے بچنے کیلئے تم کو کس نے ہوشیار کیا؟ جو آئندہ آنے والا ہے۔ تمہارا دل اگر خدا کی طرف جھکا ہے تو اس کا ثبوت تم اپنے کام اور نیک عمل سے ظاہر کرو۔ ابراہام ہمارا باپ ہے کہہ کر فخر و غرور کی باتیں مت کرو۔ (لوقا باب ۳ آیت ۷ تا ۸)صلیب کے بعد مسیح کی حواریوں کو نصیحت۔ تم لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اپنے گناہوں پر توبہ کر کے جو کوئی خدا کی طرف توجہ کر لیتا ہے تو اس کے گناہ معاف ہوں گے۔ تم اس تبلیغ کو یروشلم میں میرے نام سے شروع کرواور یہ خوشخبری دنیا کے لوگوں میں پھیلاؤ۔ (لوقا ۲۴ آیت ۴۸)ایک موقع پر مسیح کہتے ہیں “ تحریر کہتی ہے مجھے جانوں کی قربانی نہیں چاہیے بلکہ مجھے رحم و کرم ہی چاہیے۔ اس لئے اس کے حقیقی معنی تم نہیں جانتے۔ (متی ۱۲ آیت ۷)
تیسرا عقیدہ شریعت کی منسوخی کا ہے،اللہ تعالی نے دین کا عملی حصہ انبیاء کے عمل کی روایات کے ذریعے منتقل کیا ہے۔یہ نسل در نسل منتقل ہوا ہے۔اور تمام انبیاء کو اس کا پابند کیا گیا کہ وہ خود بھی اس پر عمل کریں اور انہیں آگے نسلوں میں جاری فرمائیں، انبیاء کی شریعتوں میں یقینا کچھ ایسے احکام بھی ہوتے ہیں جو ان کی منصبی حیثیت کی رعایت سے محض اسی وقت انجام دینے کے لیے صادر کیے جاتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ انسان اپنی خواہش سے خدائی قانون کے جس حصے کو چاہے اپنا لے اور جس کو چاہے منسوخ کردے ،کسی حکم کی تنسیخ کی دلیل پیغمبر کے عمل اور خدا کے کلام سے اخذ کی جاتی ہے ۔اپنی پسند نا پسند سے نہیں۔ مسیحیت میں شریعت کی تنسیخ ایک معلوم واقعہ ہے، جب پال نے بوڑھے لوگوں کے ختنے کے معاملے میں اختلاف کیا اور یہ اختلاف بہت بڑھتا چلا گیا، لیکن یہ پال کا اجتھاد تھا، اناجیل مسیحیوں کے اس عقیدے کی بھی نفی کرتی ہے کہ سیدنا مسیح نے اپنی قوم کو شریعت کی پابندی سے آزاد چھوڑ دیا تھا۔ بائیبل میں ہے:یہ نہ سَمَجھو کہ مَیں تورات یا نبِیوں کی کتابوں کو منسُوخ کرنے آیا ہُوں۔ منسُوخ کرنے نہِیں بلکہ پُورا کرنے آیا ہُوں۔ کِیُونکہ مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں کہ جب تک آسمان اور زمِین ٹل نہ جائیں ایک نُقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگِز نہ ٹلے گا جب تک سب کُچھ پُورا نہ ہو جائے۔ پَس جو کوئی اِن چھوٹے سے چھوٹے حُکموں میں سے بھی کِسی کو توڑے گا اور یہی آدمِیوں کو سِکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکِن جو اُن پر عمل کرے گا اور اُن کی تعلِیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا۔ (متی5 :17-19)سو تم میری شریعت پر عمل کرنا اور میرے حکموں کو ماننا اور ان پر چلنا تو تم اس ملک میں امن کے ساتھ بسے رہو گے۔ احبار) یہ جھالر تمہارے لیے ایسی ہو کہ جب تم اسے دیکھو تو خداوند کے سب حکموں کو یاد کرکے ان پر عمل کرو اور اپنی آنکھوں کی خواہشوں کی پیروی میں زنا کاری نہ کرتے پھرو جیسا کرتے آئے ہو (15:39 گنتی)سو تُو خداوند اپنے خدا سے محبت رکھنا اور اُسکی شرع اور آئین اور احکام اور فرمانوں پر سدا عمل کرنا ۔ (11:1 استثناء)سو تُم احتیاط کر کے اُن سب آئین اور احکام پر عمل کرنا جن کو میں آج تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں۔ استثناء) بشرطیکہ تُو خداوند اپنے خدا کی بات مان کر اِن سب احکام پر چلنے کی احتیاط رکھے جو میں آج تجھ کو دیتا ہوں ۔(15:5 استثناء)اور اگر تُو خداوند اپنے خدا کی بات کو جانفشانی سے مان کر اُسکے سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا دُنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا ۔(استثناء) بشرطیکہ تُو خداوند اپنے خدا کی بات کو سُن کر اُسکے احکام اور آئین کو مانے جو شریعت کی اِس کتاب میں لکھے ہیں اور اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے خداوند اپنے خدا کی طرف پھرے۔استثناء)تو اُس نے اُن سے کہا کہ جو باتیں میں نے تم سے آج کے دن بیان کی ہیں اُن سب سے تُم دل لگانا اور اپنے لڑکوں کو حکم دینا کہ وہ احتیاط رکھ کر اِس شریعت کی سب باتوں پر عمل کریں ۔ استثناء) لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اسلام کے ایک منحرف فرقے مسیحیت کی اصلاح کی کوشش کریں، یہ کوشش مناظرے ،مجادلے اور ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کر کے انہیں نیچا دکھا کر نہیں بلکہ پوری ہمدردی، محبت اور خیر خواہی سے خدا کے مقدس کلام کو پڑھ کر اسے سمجھ کر اس کہ درست تفہیم، خدا کے سچے نبی کے ماننے والی قوم تک پہنچانے کی ہونی چاہیے، تاکہ ہم انہیں یہ بتائیں کہ وہ کتاب جس پر ان کا ایمان ہے، وہ تک مسیحیت کے ان عقائد کی حمایت نہیں کرتی۔
(بائیبل کے تمام حوالہ جات ثانوی ماخذ سے لیے گئے ہیں)