چوکھٹے از قاری حنیف ڈار
ایک انسان کا دل آئینے کی طرح ھوتا ھے ،ایک عمر ھوتی ھے جب پاس سے گزرنے والے ھر شخص کا عکس اس دل میں نظر آتا اور مٹتا رھتا ھے ،،، بندہ سمجھتا ھے کہ بس یہی میرے دل میں کھب گیا ھے ،مگر حقیقت میں ایسا ھوتا نہیں ھے ، یہ ھارمونال چینجز کا Peak کا سیزن ھوتا ھے ،، پھر ایک شخص واقعی دل میں ٹھہر جاتا ھے ، اور دل آئینے سے فریم میں تبدیل ھو جاتا ھے جس میں کسی کی تصویر ھمیشہ کے لئے فِٹ ھو جاتی ھے ،، عموماً ایسا ھوتا ھے کہ ایک فرد کو پکڑ کر گھر کی گنتی پوری کر لی جاتی ھے ، ایک بیوی کو ایک شوھر اور ایک شوھر کو بیوی دے کر سمجھ لیا جاتا ھے کہ ھم نے معاشرتی ذمہ داری پوری کر دی ،، نتیجے میں ایسے کئی میاں بیوی پائے جاتے ھیں کہ جن کے اندر چوکھٹے میں تصویر کسی اور کی فٹ ھے اور باھر بندہ اسے کوئی اور پکڑا دیا گیا ھے ،اس کو انسانی اسمگلروں کی زبان میں P c پی سی کہتے ھیں یعنی پکچر چینج ،، یہ کسی ویزہ لگے پاسپورٹ پر تصویر کا سر کمال ھوشیاری سے کاٹ کر کسی دوسرے کا سر چسپاں کر دیتے ھیں جس سے انہوں نے یونان بھیجنے کے پیسے لئے ھوتے ھیں ، ،، کئی گھروں میں شادی کے نام پہ پی سی کا کھیل کھیلا جاتا ھے ، گھر میں 6 سات بچے بھی کھیل رھے ھوتے ھیں مگر کسی دانشور کے بقول بچے تو مردانگی کا ثبوت ھوتے ھیں کہ اس گھر میں ایک مرد بھی بستا ھے ، بچے محبت کا ثبوت نہیں ھوتے ،، کسی کے دل سے پرانی تصویر کھرچ کر اپنی تصویر جما دینا جُوئے شیر لانے کے مترادف ھوتا ھے ،، اللہ پاک نے قرآن بھر دیا ھے اپنے احسانات گنوا کر اور اپی صفات بیان کر کر کے کہ انسان کے اندر سے غیر کو کھرچ کر اپنی تصویر اور تصور انسان کے دل کے خدائی والی چوکھٹے میں جما دے ،،، انسان ساری زندگی خالی چوکھٹے یا متضاد تصویر کے ساتھ گزار دیتا ھے اور بیزارگی کی زندگی جی کر خاموشی کے ساتھ قبر میں اتر جاتا ھے ،،
سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی
اہل محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا
میں بھی خاموش رہا اس نے بھی پرسش نہیں کی
جس قدر اس سے تعلق تھا چلے جاتا ہے
اس کا کیا رنج ہو جس کی کبھی خواہش نہیں کی
یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے
اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی
میاں بیوی ایک دوسرے کی تعریف کرنا فعلِ عبث یا تحصیلِ حاصل سمجھتے ھیں ،، جو چیز ھاتھ آ گئی ھے اس کی تعریف کیا کرنا، تعریف تو شیلف میں رکھی چیز کی ، کی جاتی ھے تا کہ اس کی قیمت دے کر خرید لیا جائے ، جو خرید کر گھر رکھ لی جائے پھر اس کی تعریف کا مقصد کیا ھے ، اچھی ھے تو میرے پاس ھے ، میرے پاس ھے تو بات ختم ھے اور یہی اک سراب ھے کہ یہ میرے پاس ھے – بس یہ ایک دعوی ھے کہ یہ میرے پاس ھے – اس کا خالق کہ ساری کائنات جس کی تخلیق و ملکیت ھے وہ بھی صرف اسی کو اپنا اور اپنے پاس کہتا ھے جس کے دل میں وہ بستا ھے ،،، ابولہب بظاھر نبی کریم کا پڑوسی تھا ،، مگر بہت دور تھا ،،، سلمان فارسی بہت دور تھے مگر بہت قریب تھے ” سلمانُ منا اھل البیت ” سلمان ھم اھلِ بیت میں سے ھیں ،، میرے پاس کے دعوے کے لئے اگلے کے دل میں بسنا ھوتا ھے اور دل تک پہنچنے کا رستہ بہت طویل ، پیچدار اور کٹھن ھے ،، یہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل ھے ، بعض دفعہ انسان بہت قریب پہنچ کر اپنے آپ کو سانپ لڑا لیتا ھے اور پاتال میں جا پہنچتا ھے ، ازدواجی زندگی حقیقت میں یہی سانپ اور سیڑھی کا کھیل ھے ،،