نیا سال اور مبارکباد از سید اسرار احمد بخاری
نئے سال پر مبارکباد دینا چاہیئے یا نہیں, ایک اور قضیہ
ہر اہم موقع پر سوشل میڈیا کی دیواریں ایک عجیب منقسم قوم کا نمونہ پیش کرتی ہیں, ہمیں جغرافیائی اعتبار سے ایک قوم کہنا اگر درست بھی ھے تو نظریات و افکار کےاعتبار سے ہم ایک بھیڑ بھاڑ ہیں جس کا کوئی ایک نظریہ یا ایک منزل نہیں ھے, جس کا جہاں کو رخ ھے بس اپنی دھن میں اسی طرف رخ کیے چلتا جارہا ھے, سوشل میڈیا کے emergence کےبعد سے تو محسوس ہوتا ھے تقسیم در تقسیم کا یہ سلسلہ کہیں رکھنے اور تھمنےوالا نہیں, ہر سال کی طرح اس سال بھی نئےسال کے آغاز پر بحث و جدال اور توتو میں میں کا ایک بےکنار سلسلہ ھے نہ تھمنےوالا نہ رکنےوالا,ایک طرف قدامت پسندمذھبی دوست ہیں , جن کےنزدیک نئے سال کےآغاز میں مبارکبادیں دینا اور وہ بھی عیسوی کیلنڈر والے سال کے شروع میں تو سراسر غلط اور غیراسلامی فعل ھے, دوسری طرف جدت پسند لبرل طبقے کےدوست دوسری انتہاء پر ہیں, ان کو یہ بات ہی مذھب اور مذھبی لوگوں سے شدید نفرت اور تضحیک پر اکساتی ھے کہ بھلا نئے سال پر مبارکباد دینے سے مذھب کا کیا تعلق؟ گویا مذھب ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا دشمن ھے۔
اس بات سے قبل کہ میری طالب علمانہ رائے اس معاملےمیں کیاھے, لبرل دوستوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ھے کہ ہم بنیادی طور پر ایک Religious Conscious قوم ہیں, جس کی اپنی تاریخ اور اپنی معاشرتی اقدار ہیں, یہ درست ھے کہ ہربات مذھب سے متعلق نہیں ہوتی, لیکن درحقیقت لوگوں کا مذھب سے متعلق غیرمعمولی حساس ہونا افراط و تفریط یا بہت سے حالات میں انتہاء پسندی کی طرف لےجاتا ھے, کم قسمتی سے علماء کو اس سلسلےمیں اھم کردار ادا کرنےکہ ضرورت ھے جس کی جانب بہت عدم توجہی والا معاملہ کیا جاتا ھے, لیکن اس بات کو بنیاد بناکر مذھب یا مذھبی لوگوں سے متنفر و متوحش ہونے کی ضرورت نہیں ھے, جس طرح ہرانسان کو اپنےاپنے نظرئیے اور عقیدے پر عمل اور اسکی تبلیغ و ترویج کا حق ھے, ویسے ہی مذھبی لوگوں کو بھی حق ھے وہ جس نقطہ نظر کو درست سمجھتے ہیں اس پر عمل کریں اور اس کی ترویج واشاعت کریں, رائے عامہ ہموار کریں, دوسری طرف مذھبی دوستوں کو بھی اس سلسلےمیں انتہاء پسندانہ روش سے اجتناب کرنا چاہئیے, دین کےنزدیک صرف وہی عمل غلط یا قابل مذمت ہوگا جس کےسبب کسی عقیدے یا اخلاقی بگاڑ کا اندیشہ ہو, نیا سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہو یا جنوری سے بہرحال یہ ایک انتظامی معاملہ ھے, جس کا مذھب سے کوئی تعلق نہیں۔
بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں, ایک بہن نے بہت جذباتی انداز میں مجھے یہ سوال بھیجا ۔
کیا نئے سال کے آغاز پرمبارکباد دینا چاہیے؟ یا ہمیں اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوکر اللہ رب العزت سے معافی طلب کرنی چاہیے؟ ہم ایک دوسرے کو بڑے زور وشور سے نیو ایئر وش کرتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ہماری زندگی کا ایک سال اور کم ہوگیا جس کو ہم نےشاید(یقیناً) اپنے نفس کی بےسود خواہشات کی پیروی میں گزارا۔۔ کیا جو سال گرزنے والا ہے اس میں ہم اپنے رب کو راضی کرچکے؟ یا اور بھی دین سے دور ہوگئے ہیں؟ (اس طرح کیوں نہیں سوچتے ہم سب؟ کیوں ہم خوش ہوتے ہیں اتنا نئے سال کے آنے پر؟؟)
میں نےعرض کیا, عزیز بہن, مبارک باد اصلا” ” برکت کی دعا” ہے، جو کسی خوشی کے موقع پر دی جاتی ہے، سالِ نو پر ایکدوسرے کو مبارکباد دینا اگر تو خیر و برکت اور خوشحالی کی دعاکے معنوں میں ہے تو بہت ہی اچھی بات ہے ضرور دی جانی چاہیے، ہمارےدین کی تو باقاعدہ تعلیم ہے کہ اہل ایمان جب بھی باہم ملاقات کریں تو ایک دوسرے کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے الفاظ سے سلامتی ، رحمت اور برکت کی دعا دیا کریں، سلام کے یہ الفاظ باقاعدہ مسنون ہیں اور اس امت کو جنابِ رسول اللہﷺ کی جانب سے سکھائے گئے ہیں، دیگر مواقعوں پر مبارکباد دینا، سلامتی اور رحمت کی دعائیں دینا باقاعدہ مخصوص الفاظ سے نہیں سکھایا گیا بلکہ یہ معاشرے کے معروف پر چھوڑ دیا گیا ہے، چنانچہ لوگ شادی پر، بچوں کی پیدائش پر، کسی امتحان میں کامیابی پر اور اسی طرح خوشی کےدیگر مواقعوں پر مبارکباد دیتے ہیں ، اسی طرح مغربی تعلیم و معاشرت کے اثر سے لوگ سال نو پر بھی مبارک باد دیتے ہیں، جبکہ دیکھا جائے توبظاہر نئے سال کی آمد میں خوشخبری والی تو کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ نیاسال تو ہرسال آتا ہے، تاہم اگر آپ اسے اس sense میں سوچیں کہ اللہ رب العزت نے مجھے اپنی دنیاوآخرت سنوارنے کے لیے مزید نیا سال عنایت کردیا ہے، وہ اب بھی امید کرتا ہے کہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرلوں ، اپنی کوتاہیوں پر نادم ہوکر اپنی اصلاح کی جانب راغب ہوجاؤں، تو بالیقین اس سوچ اور عہد کے ساتھ تو نیا سال واقعی ایک بہت بڑی خوشی کی خبر ہے، اور اب تو مبارک باد دینا، خیر و برکت کی دعا دینا بنتا بھی ہے ۔ لیکن یہاں دو باتوں کا دھیان رہے، اوّل یہ کہ اسے بدعت یعنی دین نہیں بنانا چاہیے، دوسری بات یہ کہ خوشی کا بےمہابا اظہار اور celebration وغیرہ اور وہ بھی سال نو پر ایک لایعنی اور فضول بات ہے، دعا دینا تو بہت خوب ہے ضرور دیجے، لیکن رات بارہ بجے کے بعد فائرنگ کرنا ، لائٹنگ پر فضول خرچی کرنا اور پٹاخے ،جس سے لوگوں کے آرام میں خلل آئے اور جان مال کا نقصان ہو تو یہ بات اب کارِ حرام کے درجے میں چلی جائیگی۔
رہی بات گزشتہ زندگی کی غلطیوں پر نادم ہونے کی اور اس پر اللہ سے استغفار کرنے کی تو یہ فکر سال نو ہی پر نہیں بلکہ ہمیں ہر روز اور ہررات اپنا احتساب کرتے ہوئے کرنی چاہیے، اگر اسی اصول پر سالِ نو پر مبارک باد نہیں دی جاسکتی تو کسی موقع پر نہیں دی جاسکتی، دیدہ عبرت رکھنے والوں کے لیے ہرروز روزِ محشر اور ہررات یومِ حساب ہے۔
جزاک اللہ خیرا