میں کیوں لکھتا ہوں؟ از: پروفیسر محمد عقیل
اکثر بھائی اور بہن فہم القرآن میں جواب دیتے ہیں اور کچھ آرٹیکلز وغیرہ بھی لکھتے ہیں۔ ایک سوال اکثر بھائی یا بہن مجھ سے کرتے ہیں کہ ہمارے فہم القرآن میں جواب دینے کا کیا فائدہ؟ کوئی پتا نہیں پڑھتا ہو یا نہیں۔ اگر پڑھتا ہوگا تو بھی ہم سے کوئی خاص متاثر نہیں ہوتا ہوگا وغیرہ ۔
ایک نئے لکھنے والے کے لئے ان خدشات کو بے جا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ میں نے جب لکھنا شروع کیا تو یہی خدشات میرے ذہن میں آتے تھے۔ اس پر بس نہیں، تنقیدیں بھی آتی تھیں براہ راست یا بالواسطہ۔ میرے استادوں نے میری حوصلہ افزائی کی جس سے کافی سکون ملتا تھا۔ لیکن ایک وقت آیا کہ یوں محسوس ہونے لگا کہ میں کونسا بڑا تیر مارلوں گا یہ چند معمولی سے آرٹیکلز لکھ کر۔
اس سوال سے میرے لئے دو نئے سوال پیدا ہوئے۔
ایک سوال یہ تھا میں کس کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں اور دوسرا سوال تھا کہ میں کس کی خوشی کے لئے لکھ رہا ہوں ۔
پہلے سوال کا جواب مجھے یوں ملا کہ میں دنیا بھر کی اصلاح تو کر ہی نہیں سکتا ، ہاں اپنی اصلاح کرسکتا ہوں ۔ تو ان تحریروں مقصد میری اپنی اصلاح ٹہری۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ جب میں سوسائٹی کو اخلاقیات کا درس دینے کھڑا ہوا تو سب سے پہلے مجھے اپنی اخلاقیات درست کرنے کی جانب توجہ کرنی پڑی۔ جوں جوں میں تحریریں لکھتا گیا ، میرے تعلق باللہ، اخلاقیات ، معاملات اور عبادات کی غلطیوں پر چوٹ لگتی گئی۔ تو مجھے سمجھ آگیا کہ لکھنا دوسروں کی نہیں میری ضرورت ہے۔
دوسرا سوال : میں کس کی خوشی کے لئے لکھ رہا ہوں ۔ میرے قاری تو مجھے چند تعریفی کلمات کے سوا کچھ نہ دے سکتے تھے۔ یہ تعریفی کلمات بھی ایک وقت کے بعد لایعنی ہوجاتے تھے۔
پھر مجھے خیال آیا کہ یہ سب کچھ تو میں خدا کی رضا کے لئے کررہا ہوں۔ تو آپ بھی جب کوئی اسائنمنٹ یا تحریر لکھیں تو یہ ذہن میں رکھیں کہ اسے کوئی پڑھے نہ پڑھے ، اللہ تعالی ضرور پڑھیں گے۔ وہ زبان و بیان کی چاشنی اور تحقیق کی عرق ریزی کے ساتھ سے زیادہ یہ دیکھیں گے کہ میرے بندے نے کس اخلاص سے یہ بات کری، اس کی نیت کیا تھی، اس میں کتنا حصہ خدا کی رضا کے لئے تھا۔ خدا کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ الفاظ میں ربط ہے یا نہیں ، وہ تو بس بندے کا اخلاص اور محنت دیکھ کر اس کی تحریر کو منظور کردیں گے۔ اور جس کی تحریر خدا منظور کردے ، اسے کسی اور کی کیا ضرورت؟
تو لکھئے اور خوب لکھئے کیونکہ اسے کوئی پڑھے نہ پڑھے اللہ تعالی ضرور پڑھتے ہیں۔