سد ذوالقرنین کہاں تعمیر کی گئی تھی؟ تحریر: مبین قریشی

پچھلی پوسٹ میں ذکر ہوچکا کہ ذوالقرنین کون تھے؟ سورہ الکہف کی ان آیات کو سمجھنے کے لئے ابھی دو تین سوال اور باقی ہیں ، ان میں سے ایک سوال یہ ہے کہ قرآن میں مذکور یہ دیوار کس مقام پر بنائی گئ؟ اس بابت مولانا ابو کلام آذاد کی تحقیق زبردست کفایت کرتی ہے۔ تاہم مولانا کی ریسرچ پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ راز پہلی مرتبہ مولانا پر ہی واشگاف ہوا۔ ذوالقرنین کی پہچان والے معاملے کے برعکس اس معاملے میں میری تحقیق یہ ہے کہ قدیم اہل علم اس بارے میں صحیح مقام پر کھڑے تھے لیکن بعد ازاں ایک روایت ( جسکی کوئ کل سیدھی نہیں لیکن ہر تفسیر کے حاشیہ میں لکھی ملتی ہے، اس پر بحث اگلی پوسٹ میں ) کی وجہ سے یاجوج اور ماجوج کوئی کارٹون نما مخلوق بن گئے اور دیوار کی شناخت والا معاملہ بھی رفتہ رفتہ چھپ گیا۔ حضرت ذوالقرنین نے اپنی فتوحات کی آخری سمت یعنی انکی مملکت سے شمال کی جانب کی مہمات میں یہ دیوار دو پہاڑوں کے درمیانی درے کو پاٹ کر لوہے اور تانبے سے تعمیر کی تھی۔ معلوم تاریخ کے مطابق ذوالقرنین ( سائرس) کی فتوحات شمال میں جارجیا (Georgia) تک پھیلی گئی تھیں ۔ ہماری قدیم کتب میں دربند، باب الابواب، داریال، اور کوہ قاف وغیرہ جو نام ملتے ہیں وہ موجودہ جارجیا کے ہی علاقے ہیں ۔ اسکے مشرق میں بحیرہ اسود اور مغرب میں بحیرہ قزوین اور ان دونوں کے درمیان کوہ قاف کا بلند و بالا پہاڑی سلسلہ ہے۔ کوہ قاف کے انھیں پہاڑوں کے درمیان درہء داریال کے مقام پر وہ دیوار تعمیر کی گئ تھی۔ مسلمانوں کے قرون اولی کے اہل علم نے بھی اس دیوار کو اسی علاقے میں بتایا۔ جغرافیہ اور علاقوں کے متعلق صحیح ترین آراء یا تو جہاندیدہ بادشاہوں کی ہوتی ہے یا پھر ان علاقوں کے فاتح سپہ سالار ، یا مورخین کی اور یا پھر ماہرین انساب کی۔ میں قرون اولی کے لوگوں میں سے مزکورہ کٹیگریز کے لوگوں کی اس دیوار کے متعلق رائے کی کچھ مثالیں آپکے سامنے رکھتا ہوں ۔ 
۱: حضرت عمر رض کی خلافت کے آٹھویں یا نویں سال حضرت عبدالرحمن بن ربیعہ نے آرمینیا فتح کیا۔ حضرت عبدالرحمن بن ربیعہ نے آرمینیاء کے بعد دربند ( بحیرہ قزوین کا مغربی ساحل ) کی مہم کی منصوبہ بندی شروع کی شھرباز نے بتایا کہ وہ پہلے سے ہی ایک شخص کو بجھوا کر دیوار ذوالقرنین تک کے علاقوں کی خبریں اکھٹی کرچکا ہے۔ پھر شھرباز نے ایک آدمی کو طلب کرکے کہا اے امیر ( عبدالرحمن) یہ وہ شخص تھا جسے میں نے سد ذوالقرنین تک کی مخبری کے لئے بھیجا تھا ( البدایہ والنھایہ – جلد ۷ صفحہ ۱۴۰) 
دیوار ذوالقرنین کی پہچان کے متعلق یہ راے اس علاقے کی بادشاہ اور اس علاقے کے نئے فاتح کی ہے۔ 
۲: عباسی خلیفہ واثق باللہ نے ایک روز خواب میں دیکھا کہ یاجوج اور ماجوج کی دیوار گرگئی ہے۔ وہ گھبرا کر اٹھا ( عربوں کی ہلاکت کی پیشن گوئی والی حدیث کی وجہ سے) اور رات بھر بے چین رہا۔ پھر اس نے پچاس سرکاری اہلکاروں کی ٹیم تشکیل دے کر اور انھیں پچاس ہزار دینار اور دس ہزار درہم فی بندہ دے کر دربند ( بحیرہ قزوین کا مغربی ساحل ) کے علاقے میں بھیجا کہ وہ دیوار کی خبر لے کر آئیں ۔ ( احسن التقاسیم فی معرفہ الاقالیم جلد ۱ صفحہ ۱۱۳۱) 
دیوار کہاں بنائی گئی اسکے متعلق اس دور کے سب سے بڑے بادشاہ کی معلومات آپکے سامنے رکھ دی۔ یہ واقعہ ابن خلدون نے بھی اپنے مقدمے میں چھٹی اقلیم کی نویں جز کے تحت ذکر کیا ہے۔ اس خواب کا ذکر علامہ ابن کثیر نے بھی البدایہ والنھایہ اور طبری نے تفسیر ابن کبیر میں بھی کیا ہے۔ 
۳: ابن خلدون نے پانچویں اقلیم میں بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین اور انکے مابین کوہ کاف کے پہاڑوں کا ذکر کرکے اسے یاجوج اور ماجوج کا علاقہ لکھا۔ اور پھر چھٹی اقلیم کے نویں جز میں لکھا ہے کہ دیوار ذوالقرنین یہیں کوہ قاف کے پہاڑوں میں بنائی گئی تھی۔ ( مقدمہ ابن خلدون پانچویں اور چھٹی اقلیم)۔ 
درج بالا معلومات جدید فن عمرانیات کے بانی اور جہاندیدہ مورخ کی ہیں ۔ 
۴: ابن ناصر الدین شمس الدین دمشقی محمد بن عبداللہ بن محمد القیسی الدمشقی نے اپنی اسماء الرجال پر کتاب توضیع المشتبہ فی ضبط اسماء الرواہ وانسابھم والقابھم و کناھم میں عبداللہ بن عیسی راوی کا تعارف یونہہ لکھا ہے؛ 
من الخرر الترک وانما ھو منسوب الی موضع من الثغور عند ذی القرنین یقال لہ دربند۔ 
وہ خزاری ترکوں میں سے تھا اور وہ ذوالقرنین کی دیوار کے قریب دربند کے ایک علاقے ثغور کا رہنے والا تھا۔ 
غور کریں کہ انساب اور رجال کا ایک عظیم عالمکیا کہہ رہا ہےکہ دیوار کہاں بنائی گئ تھی ؟ 
۵: جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب لب اللباب فی تحریر الانساب میں خزرج قبیلے کے تعارف میں دو قبائل کا تعارف کرواتے ہوے لکھا ہے کہ؛ 
الخزرجی؛ الخزرج من الانصار ( یہ انصار مدینہ والا خزرجی قبیلہ ہے)
الخزرجی ( بفتحین) ؛ وراء الی دربند خزران عند سد ذی القرنین و خزرجد ۔ ( یہ دربند سے پرے ذوالقرنین کی دیوار کے علاقے خزران سے ہیں اور خزاریوں کی نسل سے ہیں ۔ 
۶: تیمور لنگ نے اپنے آخری دور میں اپنی یادداشتیں لکھوانے کا کام شروع کردیا تھا۔ ان یادداشتوں میں قیچاق ( روس کا علاقہ) کی فتح کے بعد اسے دیوار ذولقرنین کا پتہ چلا تو وہ اسے دربند کے علاقے میں دیکھنے گیا۔ ( ملاحظہ ہو میں ہوں تیمور میں قیچاق کی جنگ)

میں کسی اگلی پوسٹ میں بتاؤں گا کہ جو دیوار تیمور کو دکھائی گئی وہ ذوالقرنین والی دیوار نہیں تھی بلکہ اس علاقے میں دو دیواریں بنائی گئی تھیں ۔ جو اصل دیوار تھی وہ اس وقت تک زمین بوس ہوچکی تھی۔

سورس

 

ردم ذوالقرنین کی کچھ مزید تفصیل :
کوہ کاف میں دو دیواروں کا تزکرہ ملتا ہے، ردم ذوالقرنین کی پہچان کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سوال کا مکمل ترین جواب قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب میں موجود نہیں ہے۔ قرآن اس بابت بتاتا ہے کہ؛
” ( مشرقی اور مغربی مہمات کے بعد) ذوالقرنین نے پھر (تیسری) مہم کے اسباب مہیا کئے۔ یہاں تک کہ وہ دو پہاڑوں کے درمیان ایک درے تک پہنچا۔ وہاں اسے ایک ایسی قوم ملی جو کسی بات کی سوجھ بوجھ نہ رکھتی تھی۔ انھوں نے درخواست کی کہ اے ذوالقرنین !یاجوج اور ماجوج ہمارے ملک میں فساد مچاتے رہتے ہیں ۔ اسلئے کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ خراج کے عوض ہمارے اور انکے درمیان ایک دیوار کھڑی کردیں؟ ذوالقرنین نے جواب دیا کہ میرے رب نے جو کچھ میرے تصرف میں دے رکھا ہے وہی میرے لئے کافی ہے۔ البتہ تم مزدور مہیا کرو میں تمھارے اور انکے درمیان ایک اوٹ کھڑی کردیتا ہوں ۔ ( مزید یہ کہ )مجھے (خام) لوہے کی سلیں مہیا کرو۔ جب دونوں پہاڑوں کے درمیانی خلاء کو پہاڑوں کی چوٹیوں تک پاٹا جا چکا تو حکم دیا کہ اس پر آگ بھڑکاو، جب وہ سلیں بھڑک کر آگ کیساتھ آگ ہوتیں تو حکم دیتا کہ اب پگھلا ہوا تانبا لاکر اس پر انڈھیلو۔ ( اس طرح وہ لوہے اور تانبے کی اوٹ ایسی تیار ہوگئ کہ) نہ تو وہ ( یاجوج اور ماجوج) اس پر چڑھنے کی استطاعت رکھتے تھے اور نہ ہی اسمیں سے سوراخ کرلینے کی۔ ذوالقرنین نے کہا تھا کہ یہ دیوار میرے رب کی رحمت ہے۔ پس جب میرے رب کے ایک وعدے کا وقت آے گا تو وہ اس اوٹ کو زمین بوس کردے گا اور میرے رب کا وہ وعدہ حقیقت کا روپ دھارلے گا ( سورہ الکہف ۹۲-۹۸)”

ان آیات سے اس دیوار کے متعلق درج ذیل نشانیاں پتہ چلتی ہیں ۔
ا: یہ دیوار پہاڑوں کے اپر اپر سے چلتی ہوی دیوار چین کی طرح کی کوئ دیوار نہیں تھی۔ بلکہ دو پہاڑوں کے درمیان کے بیچوں بیچ گزرنے والے راستے ( درے) کو روکنے کے لئے اسطرح بنائ گئ کہ اس نے دونوں پہاڑوں کے درمیانی راستے کے آگے پہاڑوں کی چوٹی تک ایک اوٹ کھڑی کردی تھی۔
ب: قوم نے سد ( دیوار) بنانے کی درخواست کی تھی ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایسا تجربہ پہلے کسی دیوار کے زریعے راستہ روک کر کرچکے تھے۔ لیکن جناب ذوالقرنین نے دیوار کی بجاے ردم ( اوٹ) بنانے کو ترجیح دی۔ والردم اکبر من السد( کشاف) ردم ، دیوار کی نسبت بہت بڑی ہوتی ہے۔ یہ دونوں چوٹیوں تک بلند کی گئ تھی ۔
ج: یہ ردم پتھروں کی نہیں تھی بلکہ خام لوہے (iron ore) اور تانبے (copper) سے بنائ گئ تھی۔ اور جس علاقے میں یہ بنائ گئ تھی وہاں ان دونوں چیزوں کی نہ صرف کثرت تھی بلکہ وہاں کے باشندے اسکو پگھلانے وغیرہ کا فن بھی جانتے تھے۔ ہمیں آج معلوم ہے کہ یورپ کی سب سے طویل پہاڑی سلسلہ البرس کوہ کاف میں ہی واقع ہے اور وہ خام لوہے اور تانبے سے مالا مال علاقہ ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ذوالقرنین کا دور تو تقریباً چھ سو قبل مسیح کا دور ہے لیکن چودہ سو قبل مسیح میں ( یعنی موسی ع والی صدیوں میں) اسی علاقے سے لیکر بحیرہ روم تک ھٹیوں کی حکومت رہ چکی تھی۔ ھٹی معلوم تاریخ کی وہ پہلی قوم ہے جس نے لوہے کو استعمال کرنا سیکھا اور خطے پر ایک جابر قوم کے طور پر حکمرانی کی۔ حتی کہ جب حضرت داؤد کو بھی اللہ نے لوہے کے فن سے نواز دیا تو اس وقت کہیں انکا زور ٹوٹا۔ ھٹی قوم اسی کوہ کاف کے علاقے سے خام لوہا حاصل کرتی تھی اور یہیں کے مزدوروں سے کام بھی لیتی تھی جسکی وجہ سے حضرت ذوالقرنین اسی اپرچونٹی کو بروے کار لاے۔
د: ہمیں معلوم ہے کہ اس دور میں روس اور ایشیاء کے مابین زمینی راستہ صرف اور صرف کوہ کاف کے پہاڑوں کے درمیان سے تھا۔ ان پہاڑوں سے شمال اور جنوب کے صرف دو ہی راستے تھے، ایک دربند اور دوسرا داریال۔ یہ دونوں مقام ایک دوسرے سے تقریباً اڑھائ سو سے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں ۔ ان دونوں ہی راستوں کو دیوار بنا کر راستے کو روکا گیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ذوالقرنین والی ردم کونسی تھی؟
۱: دربند: یہ فارسی کا لفظ ہے اور اسکا مطلب ہے بند دروازہ۔ اس کو عربی میں باب الابواب کہا جاتا تھا۔ یہ بحیرہ اسود اور پہاڑوں کے درمیان ساحلی راستہ تھا۔ یعنی اس راستے کے ایک سمت سمندر اور دوسری جانب پہاڑ تھے۔ اس راستے کو ایک دوہری دیوار سے بند کیا گیا تھا اور اسمیں لوہے کے بڑے بڑے دروازے رکھے گئے تھے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ فوجی قلعہ بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ اس دیوار کا مقصد حملہ آور سیتھینز (sythians) کو جنوب کی جانب ایشیاء میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔ اس دیوار میں سات فٹ چوڑی اور اکیس فٹ لمبی پتھروں کی سلیں بھی پائ گئ ہیں جو ساحل سمندر سے شروع ہوکر پہاڑوں کے اپر سے دیوار چین کی طرح سینکڑوں میل پر پھیلی ہوئ تھی۔ تیمور لنگ نے بزات خود اور عباسی خلیفہ واثق باللہ کی سرکاری ٹیم نے اسی دیوار کو ردم ذوالقرنین سمجھ لیا تھا۔ عباسی خلیفہ واثق باللہ کی ٹیم کا تو نہیں پتہ لیکن حافظ و مفسر تیمور اپنی یادداشتوں میں لکھواتا ہے کہ یہ دیوار قرآن کی دی ہوئ نشانیوں کے مطابق نہیں ہے۔ قرآن میں مزکور ردم دو پہاڑوں کے درمیان ہے جبکہ اس دیوار کے ایک جانب سمندر اور دوسری جانب پہاڑ ہے۔ اسی طرح قرآن میں مزکور دیوار لوہے اور تانبے کی ہے جبکہ یہ دیوار پتھروں کی ہے۔ وہ ردم پہاڑوں کے درمیان خلاء کو اسکی چوٹیوں کو پاٹتی ہے جبکہ یہ دیوار پہاڑوں کے اپر اپر چلتی جاتی ہے۔
۲: داریال: روس اور جارجیا کے درمیان یہ ایک طویل پہاڑی درہ ہے۔ دربند کے علاوہ یہ واحد دوسرا زمینی راستہ تھا جو جنوب اور شمال کو ملاتا تھا۔ اسی درے کے درمیان ایک لوہے کی دیوار تعمیر کی گئ تھی۔ تیسری صدی کے یونانی مورخوں نے ذوالقرنین کی سلطنت کا تختہ الٹنے والے سکندر یونانی پر رومانوی سکندر (Alexander Romance) میں مبالغہ کرتے ہوے اس لوہے کی دیوار کا داریال کے مقام پر ذکر کرکے اسے سکندر کی کامیابیوں میں ڈال دیا تھا۔ جبکہ سکندر نے اس علاقے کا رخ ہی نہیں کیا اور نہ ہی اسکی کوئ لڑائ یہاں ہوئ اور نہ ہی اسکی فتوحات کے دوران کہیں شمال سے اس پر حملے ہورہے تھے جبکہ ناہی اسکی فتوحات کا دورانیہ اتنا طویل ہے کہ وہ ٹھہر کر کوئ ایسی دیوار تعمیر کرواسکتا۔ رومانوی سکندر کے مطابق جب سکندر اپنے دشمنوں کا پیچھا کرتے کرتے کوہ کاف کے اس پہاڑی درے پر پہنچتا ہے تو پھر دو بلند ترین پہاڑیوں جنھیں زمین کے پستان کہا جاسکتا ہے کہ مابین درے میں لوہے کی ایک دیوار بنواتا ہے تاکہ شمال کی پلید قوم کو محصور کرکے جنوب کو محفوظ کیا جاسکے۔ یہ ہو بہو اسی دیوار کی داستان ہے جو قرآن بیان کررہا ہے کہ اسے ذوالقرنین نے تعمیر کروایا تھا لیکن یونانی مورخوں نے اسے سکندر کے نام سے ٹانک دیا۔
ر: داریال کے گرد و نواح کی زبان آج بھی دنیا کی منفرد ترین زبان ہے۔ اس زبان میں ۱۲ ایسے حروف تہجی ہیں جن کی آواز دنیا کی کسی زبان کے حروف تہجی میں موجود نہیں ہے۔

یہ چند اضافی نگارشات تھیں جو گزشتہ پوسٹ سے پیوستہ تھیں ۔

سورس

ردم ذوالقرنین ممکنہ طور پر کب زمین بوس ہوئ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں پچھلی پوسٹس میں واضح کرچکا کہ ذوالقرنین کون تھے؟ کب گزرے اور انکی حکومت کہاں کہاں تک پھیلی ہوئ تھی؟ یہ بھی واضح ہوچکا کہ سورہ الکہف میں مزکور درے پر کھڑی کی گئ ردم ( اوٹ) کوہ کاف کے پہاڑی درے داریال میں بنائ گئ تھی۔ آج وہ ردم وہاں اس درے میں موجود نہیں ہے بلکہ ذیادہ سے ذیادہ اس درے میں ایک موڑ کے ساتھ جہاں راستہ انتہائ تنگ ہوجاتا ہے وہاں کچھ اثار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غالبا وہ ردم درے کے اس تنگ موڑ پر بنائ گئ تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ردم کب زمین بوس ہوئ؟ اس کا یقینی علم تو ابھی تک حاصل نہیں ہوسکا تاہم میں آپکے سامنے کچھ شواہد رکھتا ہوں جن کی بنیاد پر گمان غالب کی حد تک کوئ نتیجہ شائد نکالا جاسکے۔
تیمور لنگ کی فتوحات ( ۱۳۷۰-۱۴۰۵) کے وقت درہ ء داریال کسی لوہے اور تانبے کی دیوار سے بند نہ تھا۔ وہ سمرقند سے بحیرہ قزوین کے مشرقی علاقے فتح کرتے کرتے موجودہ روس کے علاقوں میں داخل ہوا۔ جاتے وقت اس نے دربند کے مقام پر پتھروں والی دیوار کا مشاہدہ کیا تھا۔ واپسی پر وہ دوسرے راستے یعنی درہ داریال سے باہر نکل کر تبریز میں داخل ہوا۔ اس درے میں اگر اس وقت کوئ آہنی دیوار ہوتی تو یقینا اسکا راستہ روکتی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دیوار جیسے آج موجود نہیں ہے ویسے ہی خلافت عباسیہ کے اختتام سے پہلے ہی کبھی منہدم ہوچکی تھی۔
ہمیں صحیح احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ کے دور میں ہی اس لوہے کی دیوار میں شگاف پڑ چکے تھے۔ رسول اللہ کو رویاء میں اسکی حالت دکھائ گئ اور جب آپ بیدار ہوے تو آپکے چہرہ مبارک پر افسردگی تھی اور آپ نے فرمایا کہ فتح الیوم ردم یاجوج و ماجوج مثل ھذہ وحلق باصبعہ الابھام ( بخاری و مسلم) کہ یاجوج و ماجوج کے لئے ذوالقرنین نے جو ردم تعمیر کی تھی اس میں شگاف ہوچکا ہے۔ اس صحیح حدیث کی روشنی میں عقدہ کھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ ۵۰۰ قبل مسیح کا خام لوہا ( کچا گارا) آج کی ٹیکنالوجی کے میعار کا اسٹین لیس سٹیل تو نہیں تھا۔ پھر پتھروں میں بارش ، دو سمندروں کے درمیان آبی بخارات والی فضاء، اور موسمی تغیرات کو برداشت کرنے کی طاقت ذیادہ ہوتی ہے لیکن لوہا ہزار سال تک ( رسول اللہ کے وقت تک اس دیوار کو بنے تقریباً گیارہ سو سال ہوچکے تھے) ان چیزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ بلکہ وقت گزرنے کے پر ایسے ماحول میں زنگ آلود (rust) ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بالخصوص بارش ، ہوا ، رطوبت لوہے میں ریڈوکس (Redox) پیدا کردیتی ہے۔ اسلئے اپنی تعمیر کے گیارہ سو سال کے اندر یہ آہنی دیوار اس قدر گل سڑ چکی تھی کہ اس میں شگاف پیدا ہوگئے۔ ایک دیو قامت آہنی دیوار کو اس قدر گلنے سڑنے کہ اس میں شگاف پیدا ہوجاے تو ضرور اتنا لمبا عرصہ لے سکتی ہے مگر ایک دفعہ اس میں سڑانگ (Corrosion) پھیل جاے تو پھر اسکے مزید گلنے سڑنے میں مزید ہزار سال نہیں لگتے۔ سورہ الکہف کی آیت ۹۸ میں لفظ ” دکاء” سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دیوار گل سڑ جانے کے بعد ایک دھچکے سے گری ہوگی۔ اس زاوئے سے جارجیا کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جاے تو اسکی آج تک کی معلوم تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ جو ماجوجی (Tmogvi) کہلاتا ہے ۱۰۸۸ء میں آیا۔ یہ رسول اللہ کی دیوار میں شگاف والی خبر کے تقریباً ساڑھے چار سو سال کا عرصہ ہے۔ یہ زلزلہ ۲۲ اپریل ۱۰۸۸ ء کو اتوار کے روز ایسٹر کے دن آیا اور اسقدر شدید تھا کہ جارجیا کے لوگ ایک سال تک گاہے گاہے اسکے آفٹر شاکس محسوس کرکے ذہنی مرض کا شکار رہے۔ یہ ماجوجی کے نام سے اسلئے منسوب ہوا کہ اس نے نہ صرف جارجیا کو عمارتوں کے قبرستان میں بدلا بلکہ اسکا مظبوط ترین قلعہ ماجوجی بھی اس سے مسمار ہوگیا۔ زلزلے اور قلعے کا نام وہاں کی نسلا ماجوج قوم کی نسبت سے بھی کیسا معنی خیز ہے۔ بابرکت ہفتے کے آخری دن یعنی اتوار اور ایسٹر کے روز آنے والے اس زلزلے سے جارجیا میں مشہور ہوگیا تھا کہ مسیح علیہ سلام کا شائد ظہور ہونے جارہا ہے۔
زلزلے کا یہ سال وہی سال ہے جب فاطمی اسماعیلی خلیفہ ابو منصور نزار العزیز باللہ ( پانچواں خلیفہ) شام اور فلسطین فتح کرلینے کے بعد مسلمانوں کو کنٹرول کرنے کے لئے تمام سرکاری عہدے یہودیوں اور عیسائیوں میں بانٹ رہا تھا۔ اسی سال فاطمیوں نے یروشلم کا گورنر ایک یہودی ابن ابراھیم کو مقرر کیا تھا۔ باقی وزراء بھی یہودی اور عیسائ تھے۔ اسکندریہ اور یروشلم کے کلیسا میں خلیفہ ابو منصور کی عیسائ بیوی کے ہی دو بھائ بطور راھب اعظم مقرر ہوے۔ فاطمیوں کی حکومت افریقہ سے ہوتے ہوے شام اور مکہ سے یمن تک پھیلی ہوئ تھی جو عباسی حکومت کی خون کے دشمن تھی اور عباسی انکے خون کے پیاسے۔ جبکہ تین سو سال پہلے یہ دونوں بطور اتحادی عربوں کے خون کے پیاسے تھے۔ بالاخر پھر ان کے کرتوتوں کے عوض ان پر یورپ سے صلیبی جنگوں کی صورت میں یاجوج اور ماجوج کا عزاب آیا۔ اس زلزلے کے پورے گیارہ سال بعد یعنی جولائ ۱۰۹۹ میں بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر صلیبیوں کے ہاتھوں میں جا چکا تھا۔

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.