اللہ کے رزق کی فراہمی پر سوالات(ڈاکٹر محمد عقیل)

قرآن میں رزق کی فراہمی سے متعلق کئی آیات موجود ہیں لیکن سب سے اہم اور فیصلہ کن آیت یہ ہے:
وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ Č۝
زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمےنہ ہو ۔ وہ اس کی قرار گاہ کو بھی جانتا ہے اور دفن ہونے کی جگہ کو بھی۔ یہ سب کچھ واضح کتاب (لوح محفوظ) میں لکھا ہوا موجود ہے۔ (ہود ۶:۱۱)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے رزق کی فراہمی سے کیا مراد ہے؟ اوپر والی آیت کو اگر دیکھا جائے تو علم ہوگا کہ اللہ نے ہر جاندار کا رزق اپنے ذمے لیا ہے اور اس سے بظاہر یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ کوئی ذی روح کم از کم رزق کی عدم فراہمی کی بنا پر نہیں مرسکتا ۔ پہلے ان آیات کو اس کے سیاق سباق کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔ یہ سورہ ہود کی چھٹی آیت ہے جس سے قبل یہ مضمون چل رہا ہے:
ا ل ر۔ فرمان ہے 1 ، جس کی آیتیں پختہ اور مفصّل ارشاد ہوئی ہیں

2 ، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے،
کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی ۔ میں اس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی ۔
اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدّتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا

3 اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا ۔

4 لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔
تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے ۔
دیکھو ! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں ۔

5 خبردار ! جب کہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی، وہ تو ان بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں ۔
زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمّے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے،

6 سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے ۔
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔۔۔۔ جبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا

7 ۔۔۔۔۔۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے

۔8 اب اگر اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے

۔9اور اگر ہم ایک خاص مدّت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اسے روک رکھا ہے ؟ سنو ! جس روز اس سزا کا وقت آگیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آگھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں ۔ ؏١
سور ہ ہود آیات نمبر ۱ تا ۸
ان آیات پر اگر تدبر کیا جائے تو پہلی آیت میں کفار مکہ کو یہ بتایا جارہا ہے کہ یہ قرآن کی آیات جس ہستی کی جانب سے نازل کی گئی ہیں وہ لامتناہی طورپر ایک حکیم یعنی دانا اور لامتناہی طور پر باخبر ہستی ہے۔ اگلی دو آیات میں بتایا ہے کہ صرف اسی کی بندگی کرو۔ اگر ایسا کروگے تو دنیا کا سامان زندگی بہترین انداز میں عطا کیا جائے گا اگر ایسا نہ کروگے تو اس زندگی سے عذاب کے ذریعے محروم کردئیے جاؤگے۔ معاملہ یہاں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ تم ایک دن دوبارہ زندہ کئے جاؤگے اور وہاں تمہیں دوبارہ اسی ہستی کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا جو کوئی کمزور نہیں بلکہ ہر شے پر قادر ہے۔ اگلی آیات میں اللہ کی ا نہی صفات کی تشریح ہے جو پہلی آیت اور چوتھی آیت میں بیان ہوئیں یعنی وہ حکیم ہے، خبیر ہے اور قدیر ہے۔چنانچہ پانچویں آیت میں اللہ خبیر ہے اس صفت کی تشریح ہے کہ وہ کھلے اور چھپے سب کو جانتا ہے۔ چھٹی آیت جو اصل زیر بحث آیت ہے اس میں یہی قدرت کا بیان ہے کہ تمہارا واسطہ جس ہستی سے ہے وہ کوئی معمولی ہستی نہیں، اسی کے ذمے پوری کائنات کے جانداروں کے رزق کی فراہمی ہے ۔ پھر دوبارہ اس کے علم کا بیان ہے کہ وہ کہاں ٹہرے گا اور کہاں سونپا جائے گا اور یہ سب کچھ ایک کتاب مبین میں ہے۔اگلی دو آیات اللہ کی اسی قدرت کا بیان ہیں کہ وہ قادر ہے کہ تمہیں سزا دے، اگر اس نے اپنی حکمت کے تحت ابھی تک عذاب نہیں دیا تو اس تاخیر کو اس کی کمزوری مت سمجھو وغیرہ ۔
اس روشنی میں ایک مرتبہ پھر اوپر کی آیات کو پڑھ لیں۔
سوالات
۱۔اس آیت کے مطابق کیا رزق کی فراہمی سے مراد یہ ہے کہ کوئی جاندار غذائی قلت سے نہیں مرسکتا؟
اس سیاق سباق کے بعد ایک مرتبہ پھر آپ اوپر بیان کی گئی ساری آیات پڑھ لیں اور خاص طور پر آیت نمبر چھ میں تو رزق کی فراہمی اللہ کی قدرت کا بیان ہے ۔ یعنی یہاں اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہر جاندار کا رزق اللہ نے فراہم کرنا ہے اس لئے نہ کسی بستی میں قحط پڑ سکتا ، نہ کوئی بھوک سے مرسکتا، نہ کوئی سوسائٹی قلت غذا کا شکار ہوسکتی اور نہ کسی قوم کا خاتمہ رزق ہے عدم فراہمی سے ہوسکتا ہے۔ غور سے ایک مرتبہ پھر ان چھ آیات کو پڑھ لیں تو اس قسم کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ البتہ جونہی ہم اس آیت کو سیاق و سباق سے کاٹتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ قرآن رزق کی فراہمی کا غیر مشروط دعوی کررہا ہے ۔ اس کے بعد ضمنا وہ سوالات وارد ہوسکتے ہیں جو اوپر بیان کئے گئے۔چنانچہ ان آیات کو سیاق و سباق میں رکھ کر ہی سمجھا جانا چاہئے وگرنہ غلط نتائج نکل سکتے ہیں۔
۲۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں رزق کی فراہمی سے کیا مراد ہے ؟
رزق کی فراہمی سے سادہ طور پر مراد یہ ہے کہ اللہ نے جس طرح اس کائنات میں جاندار پیدا کرکے یونہی نہیں چھوڑدئیے بلکہ ا ن کے رزق کی فراہمی کا پورا سامان رکھ دیا، پورا بندوبست کردیا اورسارے اسباب مہیا کردئیے۔ گویا یہاں رزق کی فراہمی کا ایک عمومی بیان ہے کہ انسان ، جانور چرند ، پرند، آبی مخلوق، پودے ، کیڑی مکوڑے سب کے لئے یہ سامان رزق انکی ضروریات کے مطابق موجود ہے۔ البتہ یہاں مخصوص کرکے یہ بات بیان نہیں کی جاسکتی کہ پھر قحط زدہ علاقے میں اسلم ، احمد یا اکرم نامی اشخاص کیوں بھوک سے مرگئے؟ یہ ایک جنرل بیان ہے اسے تخصیص سے بیان نہیں کیا جاسکتا۔
۳۔ ایک اور سوال یہ کہ رزق کی فراہمی کیا غیر مشروط ہے یا مشروط ہے؟
رزق کی فراہمی مکمل طور پر مشروط عمل ہے ۔ چنانچہ ایک کسان کو رزق اس وقت ملے گا جب وہ ہل چلا کر بیج بوئے گا اور پانی سے فصل کی آبیاری کرے گا۔ ایک مزدور کو رزق اس وقت ملے گا جب وہ محنت کرے گا۔ ایک بزنس مین رزق اس وقت کمائے گا جب وہ کاروبار کرے گا وغیرہ۔
یہ شرط مختلف مخلوق اور حالات کے لئے مختلف ہے۔ چنانچہ دیکھیں جب ایک بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو وہاں اس بچے سے یہ تقاضا نہیں کیا گیا کہ وہ ایک مزدور کی طرح محنت کرے اور روزی کمائے۔اس کا رزق از خود ماں کی ناف کے ذریعے اس کے جسم میں پہنچ رہا ہے۔لیکن جونہی وہ بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو اب فریم آف ریفرینس بدل گیا۔ اب ناف کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ اب اس بچے کو رزق کی فراہمی ماں کے دودھ کے ذریعے کی جاتی ہے گویا اب اس بچے کو رزق فراہم کرنے کی شرائط بدل گئیں۔جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اب ماں کی چھاتیوں سے دور کردیا جاتا ہے اور اب رزق اسے ہاتھوں کے ذریعے کھانا ہے۔اگر ایک بارہ سال کا بچہ ہاتھ سے کھانے سے انکار کردے اور غذا کا فراہمی کا اسی طریقے سے مطالبہ کرے جو ماں کے پیٹ میں میسر تھا تو وہ اپنے فریم آف ریفرینس کی شرط پوری نہیں کررہا۔ یوں وہ رزق سے محروم رہے گا۔گویا رزق تو دستیا ب ہے لیکن اس کا حصول کوشش سے مشروط ہے۔
۴۔ اگر کوئی بھوک سے مرجاتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے رزق کی فراہمی کا وعدہ پورا نہیں کیا؟
نہیں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں۔ جیسا کہ اوپر بتایا کہ رزق کی فراہمی سے مراد رزق کا بندوبست کرنا اور اس کے اسباب مہیا کردینا ہے ۔ لیکن اللہ نے کسی کو آزمانا ہے یا کسی کو موت دینی ہے تو اس کے جس طرح کئی طریقے ہیں تو ایک طریقہ بھوک، افلاس اور قحط بھی ہے۔
۵۔ افریقہ یا تھر اور دیگر ممالک میں غذائی قلت کو دور کرنا کس کی ذمہ داری ہے اور اس کے کیا اسباب ہیں؟
غذائی قلت کے کئی مادی اسباب ہوسکتے ہیں جیسے غلط پلاننگ، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا، امیر ممالک کا استحصال، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، آسمانی آفات وغیرہ۔ چنانچہ اللہ نے تو تمام اسباب مہیا کردیا اب یہ کام انسان کا ہے کہ وہ اس سے کس طر ح مستفید ہوتا ہے۔
بعض اوقات غلطی حکومت کی ہوتی ہے لیکن اس کی سزا غریبوں کو ملتی ہے ۔ اسی طرح امیر لوگ لالچ کرکے دولت اپنے ہاتھوں میں رکھ لیتے ہیں لیکن اس کی سزا غریبوں کو ملتی ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ امیر شکر کے امتحان میں ہیں اور غریب صبر کے امتحان میں۔ آخرت میں غریبوں کو اپنے ساتھ کی گئی زیادتی کا پورا بدلہ مل جائے گا اور امیروں کو اپنے کئے کا بدلہ مل جائے گا انشاءاللہ
۶۔سوال یہ ہے کہ آزمائش تو انسانوں کے لئے ہے تو بچے، جانور اور پودے کیوں اس غذائی قلت کی بنا پر تکلیف میں آتے اور مرجاتے ہیں؟
وہ تمام مخلوق جن پر آزمائش نہیں ان میں جمادات نبادات ، حیوانات اور غیر ذی شعور مخلوق آتی ہے۔اس مخلوق کو اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت پیدا کرتے اور اسی حکمت کے تحت ختم کردیتے ہیں۔ اس ختم کرنے کے طریقے میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بھوک یا غذا کی عدم فراہمی کے ذریعے ان کا خاتمہ کیا جائے۔ اس طرح کا خاتمہ انسانوں کے لئے نا صرف بڑی آزمائش کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ ان کے ضمیر کوجھنجھوڑنے کا بھی سبب ہوتا ہے۔رہی بات اس تکلیف کی جو ان جانوروں یا بچوں کو ہوتی ہے تو ہم حتمی طور پر ایسا نہیں کہہ سکتے کہ انہیں واقعی وہ تکلیف ہوتی ہے یا نہیں۔جیسے ایک بکرے کی گردن پر چھری پھرنے کے چند سیکنڈ بعد ہی اس کا شعور سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے البتہ وہ بکرا تڑپتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بالکل ایسے ہی عین ممکن ہے کہ اس مخلوق کےساتھ بھی ہوتا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب
۷۔ اس غذائی قلت کو دور کرنے کے لئے اسلام کیا حل پیش کرتا ہے؟
اسلام میں دولت کی منصفانہ تقسیم کا ایک نظام موجود ہے۔ امیروں پر انفاق کے لئے کم از کم حد زکوٰۃ اور عشر ہے۔ اس کے بعد انفا ق کی بے تحاشہ ترغیب دی گئی ہے کہ یہ تم سے پوچھتے ہیں کتنا خرچ کریں تو کہہ دو جو ضرورت سے زیادہ ہو وہ خرچ کردو(البقرہ)۔ اسی طرح کئی احادیث میں کہا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر جب تو سالن پکائے تو اس کے شوربہ کو زیادہ کر لے اور اپنے پڑوسی کی خبر گیری کر لے۔(مسلم)۔ یہاں ممالک کے پڑوسی دوسرے ممالک ہیں۔اس کے علاوہ پروگریسو ٹیکس کے ذریعے بھی اس مسئلے کو دیکھا جاسکتا ہے۔
ھذا ماعندی والعلم عنداللہ

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.