نماز کے مختلف طریقے۔ قاری حنیف ڈار
سوال !
بہت سے لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ھیں کہ نماز جیسا عمل جس کو نبئ کریم ﷺ نے دن میں میں پانچ بار کر کے دکھایا ، اس میں یہ بات کیسے ھم تک نہ پہنچی کہ تبدیلیوں کے بعد آخر میں نبی کریم ﷺ کی نماز کیسی تھی ؟ اس بارے میں اختلاف کا پایا جانا تشویشناک ھے ؟
الجواب !
مجھے سوال کے اس حصے پہ تھوڑا سا اختلاف ھے کہ امت میں پایا جانے والا یہ اختلاف تشویشناک ھے ! اللہ کے رسول ﷺ نے مختلف طریقوں سے نماز کو ادا کیا ھے ، مختلف اوقات میں مختلف مجمعوں میں مختلف انداز سے نماز کو ادا فرمایا ھے جو کہ دلیل ھے اس بات کی کہ ان تمام طریقوں سے نماز کی ادائیگی جائز ھے ، اب اللہ پاک نے یہ چاھا کہ نبیﷺ کے یہ تمام طریقے مختلف صحابہؓ کے ذریعے محفوظ کیئے جائیں یوں امت کے تعامل میں قیامت تک ان طریقوں کو زندہ رکھا جائے ، اور اسے کھلا چھوڑ دیا جائے کہ لوگ اپنی اپنی طبائع کے مطابق ان میں سے جس طریقے کو بھی پسند کریں اسے اختیار کر لیں ، اس سلسلے میں ھر ایک کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ جسے چاھے بہتر سمجھے ، یا آسان سمجھے یا اپنے اوقاتِ کار کے لئے مناسب سمجھے اختیار کر لے ،، حضرت ھاجرہ علیہا السلام کے واقعے کو ذرا ذھن میں رکھیں کہ جب وہ پہاڑی پہ چڑھ کر کسی مدد کرنے والے کو ڈھونڈتی تھیں اور پھر پہاڑی سے نیچے اترتی تھیں پھر دوسری پہاڑی پہ چڑھتی تھیں ، پھر نیچے اترتی تھیں تو کون راوی اس کو دیکھ رھا تھا ؟ سوائے ایک شیر خوار بچے اور اس کی ماں کے یا اللہ کی ذات کے اور کون وھاں تھا ؟ ان کی یہ ادا کہ وہ جب پہاڑی سے اترتی تھیں تو لازماً دوڑتی ھوئی اترتی تھیں اور پھر بچے کو دیکھ کر دوسری پہاڑی پر چڑھتی تھیں پھر وھاں سے اترتے وقت ان کی دوڑ لگ جاتی تھی ، یوں انہوں نے سات بار یہ کیا ،، یہ کس کی روایت ھے ؟ وہ راوی کتنا ثقہ ھے ؟ یہ حکم ھزاروں سال سے امتِ مسلمہ میں چاھے وہ کسی زمانے میں کسی نام سے بھی موجود رھی ھو ایک روح کی طرح جاری و ساری ھے اللہ نے اس کو اسی طرح امت مسلمہ میں پھونک دیا ھے جس طرح شھد کی مکھی کو شھد بنانا پھونک دیا ھے ،، اور اپنی بندی کی اس ادا کو قیامت تک محفوظ بنا دیا ھے کہ دنیا دوڑ دوڑ کر رب کو یہ منظر دکھاتی رھے ،، اس کی بنیاد قیاس پہ رکھی گئ ھے کہ وہ جب پہاڑی سے اترتی ھونگی تو لازماً ان کی رفتار تیز ھو جاتی ھو گی جیسا کہ پہاڑی سے اترنے والے کو ڈھلوان پہ لازماً چند قدم تیز چلنا پڑتا ھے ! آج جب کہ ان پہاڑیوں کو تراش کر تقریباً برابر کر دیا گیا ھے کہ تکلفاً وھاں تیز قدموں سے چلنا مسنون ھے کیونکہ اس سنت میں اب اماں ھاجرہ علیہا السلام کے ساتھ ساتھ بہت سارے نبیوں کے دوڑنے کی سنت بھی شامل ھو گئ ھے ، گویا اللہ نے نبیوں کو بھی دوڑا کر اماں ھاجرہ کی اس ادا کا احیاء کیا ھے !
نبی کریم ﷺ نہ صرف رات کو طویل قیام فرمایا کرتے تھے بلکہ کبھی کبھی ظھر کے بعد بھی آپ یہ منظر مسجد میں بھی دکھا دیا کرتے تھے ،، انسان جب ایک لمبے وقت تک ھاتھ باندھ کر کھڑا رھے تو ایک وقت آتا ھے جب اسے ھاتھ کھول کر آرام ملتا ھے ، یوں نبئ کریم ﷺ نوافل کے دوران طویل قیام میں کبھی کبھی ھاتھ کھول لیا کرتے ، کبھی ھاتھ سینے پہ کر لیتے تو کبھی انہیں اپنی ریلیف یا سہولت کے لئے نیچے لے جاتے ،یعنی ناف سے سینے تک کے ایریئے میں کرتے رھتے اور کبھی لٹکا بھی لیتے ،، اب مسجد میں مختلف علاقوں کے وفود مقیم ھوتے جو حضور ﷺ کو مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے نماز پڑھتے دیکھتے اور اسے اپنے علاقے میں پریکٹس کرتے !
اگر نبئ کریم کو ایک جگہ ھاتھ بندھوانے ھوتے تو سیدھا سا حکم دیتے کہ ھاتھوں کو سینے پہ باندھو ،،، یا ناف پہ باندھو ،،مگر ایسا ایک جملہ پورے ذخیرہ حدیث میں نہیں ملتا ،نماز سکھانا صرف آدھے گھنٹے کا عمل تھا مگر حضور ﷺ نے اسے 23 سال میں بھی نہیں سکھایا بلکہ ایسا اسلوب اختیار فرمایا کہ لوگ صرف دیکھ کر سیکھیں تا کہ نماز کا تنوع امت میں جاری و ساری ھو جائے ، مثلاً آپ کا جو حکم اس سلسلے میں بنیاد ھے وھی بڑا ذو معنی ھے ، یعنی صلی کما رأیتمونی اصلی ،، بجائے یہ کہنے کے کہ صلوا کما اصلی ،، نماز اس طرح پڑھو جیسے میں پڑھتا ھوں ،، یہ فرمانا کہ ایسے پڑھو جیسے تم دیکھو کہ میں پڑھتا ھوں ،، نہ کہ جیسا سنو کہ میں پڑھتا ھوں، ظاھر ھے یہ حکم ان کے لئے ھی تھا جو اس وقت حضورﷺ کو دیکھ سکتے تھے ،، گویا اگر عمرؓ نے نبی ﷺ کو ایک طریقے سے دیکھا ھے نماز پڑھتے ھوئے تو دیکھتے ھی ان پر وہ طریقہ واجب ھو گیا ، اب کوئی بتائے بھی تو بھی وہ دیکھے ھوئے کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے ،، دوسرے کسی صحابی نے کسی اور طریقے سے دیکھا ھے تو ان پر اپنا دیکھا ھوا واجب ھو گیا نہ کہ عمر فاروقؓ کا بتایا ھوا اگرچہ وہ ثقہ راوی ھوں ،مگر حکم دیکھ کر پڑھنے کا ھے ! اس طرح بہت سے طریقے نماز کے رائج ھو گئے ،اب ان میں سے کسی پر عمل بھی سنت پر عمل ھے ، اس میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جا سکتا ھے ، فرض میں ایک ادا پر عمل ھے تو نفلوں میں دوسرا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ھے تا کہ دیگر طریقوں کے بارے میں جو اوپرا پن اور غیریت یا سخت لفظ استعمال کروں کہ جو عداوت ھمارے دلوں میں پیدا ھو گئ ھے وہ کم ھو ، اس عداوت نے ھم سے مساجد الگ کروا کر جگ ھنسائی کا سامان کیا ھے ورنہ حج کے دوران تقریباً تمام لوگ یہ بات عملی طور پہ دیکھ آئے ھیں کہ حرمین الشریفین میں سارے طریقے ایک ھی مسجد میں ایک ھی امام کے پیچھے ادا کیئے جا سکتے ھیں ! جن لوگوں نے تین دن میں امام کے پیچھے قرآن ختم کیا ھے اور ھر شب دس پارے پڑھے ھیں اگر ان پہ کیمرہ فٹ ھو تو آپ دیکھیں گے کہ وہ کس طرح ھاتھ اوپر نیچے کرتے رھتے ھیں ،،
الغرض ائمہ کا اختلاف مکروہ و مستحب کا نہیں بلکہ یہ ھے کہ افضل کونسا ھے ، نہ وہ دوسرے پہ نکیر کرتے ھیں ،کیونکہ نکیر منکر پہ کی جاتی ھے اور نبی ﷺ کا کوئی طریقہ بھی منکر نہیں ! ھم نے اپنی تنگ نظری ،فقہی تعصب کو اسلام بنا لیا ھے ،، برصغیر سے باھر اس قسم کے تنگ نظر اسلام کا کوئی وجود نہیں ، ھر شخص ھر مسجد میں نماز پڑھ سکتا ھے ، اور ایک فقہ کے امام کے پیچھے تمام مکاتبِ فکر نماز پڑھتے رھتے ھیں ، پاکستان سے روزگار کے سلسلے میں مشرق وسطی جانے والوں میں ھمارے ایک بڑے سے بڑے عالم سے بھی زیادہ وسعتِ نظر پائی جاتی ھے اور اس کا سبب وھاں عملی طور پر سب کچھ دیکھنا اور مختلف مکاتبِ فکر کے پیچھے نمازیں پڑھ کر آنا ھے ، جس کے بعد انہیں صرف مسجد کی تلاش ھوتی ھے ” اپنی مسجد ” کی نہیں !!