تم چاہ بھی تو نہ سکتے ! گر خود نہ خدا چاہتا ! از قاری حنیف ڈار
تم چاہ بھی تو نہ سکتے !
گر خود نہ خدا چاہتا !
اس کا مطلب ھے کہ یہ چاہت اور ارادے کی قوت تمہیں اللہ پاک نے سونپی ہے تبھی تو خیر یا شر ،نیکی یا بدی کے طلبگار ھوتے ہو ، ہم ترجمہ کرتے ہیں کہ تم چاہ بھی نہیں سکتے جب تک کہ خدا نہ چاہے ، وما تشاءون الا ان یشاء اللہ ،، ہم ترجمے میں روزہ مرہ کی چاہتوں کو گھسا دیتے ہیں ،کہ زینب کے قاتل نے اللہ کی چاہت کے ساتھ ہی زینب کا یہ حشر کرنے کا ارادہ کیا تھا ،کہ اللہ پاک نے ہی اس کو معاذاللہ انسٹیگیشن دی کہ اٹھ بھئی ہم نے آج تیرے لئے یہ سرگرمی تلاش کی ھے ،لگ جا اپنے کام پر اور ہماری چاہت پوری کر ،، یہ ٹوٹلی غلط تصور ھے ، یہ چاہت کا فیصلہ انسان کی تخلیق کی پلاننگ کے وقت کا ھے اور اسی وقت یہ طے کر لیا گیا تھا کہ انسان کو خیر یا شر کرنے کا ارادہ سونپ دیا جائے گا ، نتیجہ جو بھی نکلے مجھے کوئی پرواہ نہیں ، وہ نیکی کرے گا تو اپنے بھلے کو برائی چاہے گا تو خود ہی اس کا بوجھ اٹھائے گا ،اور قرآن میں جہاں میں وما تشاءون الا ان یشاء اللہ رب العامین وغیرہ آیا ھے تو وہاں اسی اسکیم اور امتحان کی یاد دہانی کرائی گئی ھے ـ یہ شریعت یہ اوامر اور نواھی اسی چاہت کا امتحان ہیں ـ شیر نہیں چاہ سکتا کہ گوشت کا اسٹیم روسٹ بنا کر کھا لے یا تکے چانپیں بنا لے ، یا چپل کباب بنا لے ، شیر ھو کر بھی کتنا مجبور و مقہور و بےبس ہے ، جبکہ تم ارادے کے مالک ھو جس طرح چاھو کھاؤ ، اگر اللہ پاک نے تمہارے اندر یہ Up Dated سافٹ وئیر نہ رکھا ھوتا تو تم بھی کہیں کسی درخت پر لٹکے پتے کھا رھے ھوتے یا کسی کھُرلی میں بھوسہ اوپر نیچے کر رھے ہوتے ، اس چاہت کی قدر کیجئے ، اپنے ارادے کی امانت کو کبھی بھی اللہ پاک کے خلاف ھیر پھیر پلاننگ کے لئے استعمال مت کیجئے ـ