سلطان سلیمان – القانونی
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺍﻟﻘﺎﻧﻮﻧﯽ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮍﻭﮞﻣﯿﮟ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺣﻞ ﮨﮯ؟ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﻧﮯ ﺑﺘﺎ ﯾﺎ ﮐﮧ ﻓﻼﮞ ﺗﯿﻞ ﺍﮔﺮﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﭼﮭﮍﮎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ، ﻣﮕﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﮐﮯﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻋﯽ ﺣﮑﻢ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮ ﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺩ ﭼﻞ ﮐﺮﺭﯾﺎﺳﺘﯽ ﻣﻔﺘﯽ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺷﯿﺦ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﮯ ﻣﮕﺮﺷﯿﺦ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺷﻌﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﻮ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ : ﺍﺫﺍ ﺩﺏ ﻧﻤﻞ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺸﺠﺮ ﻓﮭﻞ ﻓﯽ ﻗﺘﻠﮧ ﺿﺮﺭ؟ "
ﺍﮔﺮ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽﺿﺮﺭ ﮨﮯ؟ ” ، ﺟﺐ ﺷﯿﺦ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻟﮑﮭﺎ : ﺍﺫﺍﻧﺼﺐ ﻣﯿﺰﺍﻥ ﺍﻟﻌﺪﻝ ﺍﺧﺬ ﺍﻟﻨﻤﻞ ﺣﻘﮧ ﺑﻼ ﻭﺟﻞ ” ﺍﮔﺮ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺎ ﺗﺮﺍﺯﻭﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎں ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﻖ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ ” ، ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺩﯾﺎﮐﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﮨﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ !
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺁﺳﭩﺮﯾﺎ ﮐﮯ ﺩﺍﺭ ﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﻭﯾﺎﻧﺎ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮ ﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﺳﮯﺟﮩﺎﺩ ﯼ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﻧﮑﻠﮯ ﻣﮕﺮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺴﺪﺧﺎﮐﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﻻﺋﯽ ﮔﺌﯽ، ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺠﮩﯿﺰ ﻭ ﺗﮑﻔﯿﻦ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥﺁﭖ ﮐﺎ ﻭﺻﯿﺖ ﻧﺎﻣﮧ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﺑﮭﯽﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻭ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮨﯿﺮﮮ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﺍ ﮨﻮﺍ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﭩﯽﻣﯿﮟ ﺩﻓﻨﺎ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮨﻮﺍ،ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻟﻮﮒ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﺱﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﻓﺘﻮﮮ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯﺍﻗﺪﺍﻣﺎﺕ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻓﻨﺎ ﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺛﺒﻮﺕﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺣﮑﻮﻣﺘﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺧﻼﻑﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻓﺘﻮﯼ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﯿﺎ ، ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺷﯿﺦﺍﻻﺳﻼﻡ ﺍﺑﻮ ﺳﻌﻮﺩ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺭﯾﺎﺳﺘﯽ ﻣﻔﺘﯽ ﺗﮭﮯ ﺭﻭ ﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ :ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻟﯿﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﮔﺎ ؟
ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﯾﮧ ﺗﮭﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯﺧﻼﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺁﺝ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﺸﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﮨﮯ ،ﯾﮧﺩﺷﻤﻦ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮨﮯ
اس ڈرامے کے ذریعے شعوری طور پر ایک منظم طریقے سے دنیا بھر کے ناظرین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عثمانی سلاطین عیش و عشرت کے دلدادہ تھے۔ اسلام کے ساتھ ان کا تعلق صرف رسمی تھا۔ عثمانیوں کی تاریخ ” اسلام "سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ان کا رشتہ لادینیت سے ہے۔
آزادیِ اظہارو خیال، تفریح اور روشن خیالی کے نام پر پاکستانی میڈیا کو تاریخ کو مسخ کرنے کی ان کوششوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔ عموماً لوگوں کی تاریخ سے واقفیت اور دل چسپی کم ہی ہوتی ہے۔ آج سے چند ماہ پہلے اگر کسی سے سلطان سلیمان اعظم کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو غالب امکان یہی ہے کہ وہ سلطان سلیمان کے نام سے بھی ناواقف ہوتا۔ لیکن آج کسی عام فردسے بھی دریافت کرکے دیکھ لیا جائے ، سلطان سلیمان سے وہ خوب واقف نکلے گا اور اس کا ماخذ ہوگا ’میرا سلطان‘۔ جب تاریخ کا ماخذ ’میرا سلطان‘ اور اسی طرح کے دیگر ڈرامے ہوں تو تاریخی شعور وآگہی کی علمی سطح کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
حالانکہ یہ وہ سلطان ہے جس نے اپنے چھیالیس سالہ دور ِحکومت (1520ء تا 1566ء )کا بیشتر حصہ گھوڑے کی پیٹھ پہ میدان جنگ میں گزارا۔حتی کہ ایک جنگ کے دوران ہی 7 ستمبر 1566ء کو اس کا انتقال ہوا۔
سلطان نے سیکڑوں جنگوں میں حصہ لیااور یورپ،افریقہ و ایشیا…تین براعظموں کے علاقے فتح کیے۔اپنی زبردست فتوحات کی بدولت ہی وہ سولہویں صدی کے سب سے بڑے حکمران کہلائے۔مغربی مورخین نے انھیں ’’عالیشان‘‘ (Magnificent ) کا خطاب دیا۔ سلطان جنگجو ہی نہیں بیدار مغز حکمران،فاضل شخصیت اور عمدہ شاعر بھی تھے۔انھوں نے اپنی سلطنت میں سول سروس(بیورکریسی ) متعارف کرائی تاکہ انتظام حکومت بخوبی چل سکے۔عمدگی سے حکومت کرنے کی خاطر معین قوانین تشکیل دئیے۔اسی لیے وہ ترکی میں ’’قانونی‘‘کے لقب سے مشہورہیں۔۔