نبی کریم ﷺ کے دور اور آج کی عبادات میں فرق۔ ایک پوسٹ پر کمنٹ۔ محمد امین اکبر
نبی کریم ﷺ کے دور اور آج کی عبادات میں فرق۔ ایک پوسٹ پر کمنٹ۔ محمد امین اکبر
اس تصویر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پوسٹ بنانے والا نبی کریم ﷺ کے دور میں ہو کر آیا ہے۔ میں اس دور سے ہو کر تو نہیں آیا مگر پھر بھی میرا خیال ہے کہ
نبی کریم ﷺ کے دور میں مسجد ہی دفتر، عدالت اور تعلیمی درسگاہ اس لیے تھے کہ مسلمانوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ ہر چیز کے لیے الگ الگ عمارت بنائی جاتی۔ اس کے علاوہ آبادی کی تعداد کی وجہ سے بھی اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی کہ ہر محکمے کے لیے الگ عمارت ہو آج کے دور میں ہر محکمے کے اپنے الگ دفاتر ہیں، اس لیے اگر اب مسجد کو اللہ کی عبادت کے مقصد کے طور پر ہی استعمال کیا جائے تو کوئی ہرج نہیں۔
نماز جمعہ کے حوالے سے دیکھیے آیت
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [٦٢:٩]
اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو
اس آیت میں اللہ کے ذکر کی طرف جانے کا حکم ہے۔ یعنی ایک جگہ جمع ہو کر اللہ کا ذکر کرنے کا، اس سے اگلی آیت میں انفرادی طور پر اللہ کے ذکر کا کہا گیا ہے۔
صاحب پوسٹ کی بات مانی جائے تو اس پر عرض ہے کہ آج کے دور میں اینٹی کرپشن کا محکمہ موجود ہے، حکمرانوں کا الگ آفس موجود ہے، صرف جمعہ کے دن ہی نہیں کسی بھی وقت وہاں شکایت کی جا سکتی ہے۔ اس لیے جمعہ کے دن جمع ہو کر اللہ کا ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
حج کے حوالے سے عرض ہے کہ حج نبی کریم ﷺ نے ایجاد نہیں کیا تھا یا یہ اُن کے زمانے میں شروع نہیں ہوا تھا۔ حج حضرت ابراہیم کے زمانے سے شروع ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس علاقے کے حکمران نہیں تھے کہ لوگ ان کے پاس شکایتیں لے کر آتے، حج کے بہت سے ارکان جیسے طواف وغیرہ ہزاروں سالوں سے ایک ہی طرح ادا کیے جاتے ہیں۔ تو یہ سرف مسلمانوں کی سالانہ میٹنگ کیسے؟ نبی کریم ﷺ خود 6 ہجری میں حج کرنے گئے تھے، مگر اُن کو جانے نہیں دیا گیا، وہاں وہ کس کی شکایت لے کر جا رہے تھے، صرف عبادت کرنے جا رہے تھے۔ مسلمانوں نے حج کو صرف خدا کے لیے پاک کیا، اس میں سے مشرکانہ اور بے ہودہ رسومات کو ختم کیا۔ (محمد امین اکبر)