ہمارے یہاں انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے 📝بقلم Yethrosh
ہمارے یہاں انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے
📝بقلم Yethrosh
مغربی اقوام نے جہاں جہاں نوآبادیات بنائی وہاں کی تہذیب اور زبان کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اپنی زبان کو جبراً نافذ کیا۔ امریکا میں سرخ ہندیوں کی نسل کشی گئی، جب نسلیں ہی معدوم ہو گئیں تو زبانیں کیونکر زندہ رہتیں۔ چنانچہ براعظم امریکا کی مقامی ۲۰۰ زبانیں نابود ہو گئیں۔ اسی طرح بہت سی جگہوں پر رسم الخط تبدیل کرکے لاطینی کیا۔ ہندوستان میں اولاً کمپنی بہادر نے اردو کو فروغ دینے کی کوشش کی اور فورٹ ولیم کالج نے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ لیکن انیسویں صدی شروع ہوتے ہی سامراج کا مزاج بدلا، اسی کالج سے اردو ہندی تنازع برپا کیا۔ سلطنت مغلیہ کے سقوط پر ہندوستان کی پر شکوہ تہذیب کا خاتمہ ہوا اور انگریزی کے نفاذ کا راستہ کھل گیا۔
اسی طرح یہ مغربی قومیں جہاں بھی گئیں، اپنی تہذیب اور زبان کو بزور نافذ کرتی رہیں۔ اسلامی فتوحات کے دوران میں بھی ایسا ہوا، جن ملکوں میں اسلام پہنچا وہاں کی مقامی زبان عربی ہوگئی یا کم از کم رسم الخط بدل کر عربی ہو گیا۔ لیکن فاتحین اسلام نے اس بات کی جبرا کبھی کوشش نہیں کی، بلکہ وہاں کی قوموں نے از خود یہ فیصلہ کیا۔
اس کی ایک مثال خود ہمارا ملک ہے جہاں صدیوں مسلمانوں نے حکومت کی لیکن یہاں کی مقامی زبانیں اب تک موجود ہیں، مغل سلاطین جن کی مادری زبان ازبک ترکی زبانیں تھی حیرت کی بات ہے کہ انہوں نے اردو میں بھی اپنی زبان کے الفاظ داخل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک تجزیے کے مطابق اردو میں اس وقت ان کی زبانوں کے محض ۱۵۵ الفاظ پائے جاتے ہیں۔ اس کے بالکل برعکس انگریزی کی صورت حال ملاحظہ کیجیے، یہ کہنا قطعا غلط ہوگا کہ مفتوح قومیں فاتحین کی زبانیں اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ فاتحین پر منحصر ہے کہ وہ اپنی رعایا کے قومی شعور کو بیدار رکھ کر حکومت کرتے ہیں یا اس شعور کو ختم کرکے اندھا بہرا بنا کر جمہوریت!
ہندوستانی اقوام میں انگریزی استعمار سے آزادی کا جو جذبہ موجود تھا وہ یہاں کے مسلم سلاطین کا مرہون منت ہے، انہوں نے کبھی قومی شعور کو ختم نہیں کیا بلکہ اسے جلا بخشتے رہے۔ لیکن ایک صدی انگریزی حکومت کے زیر سایہ ہم رہے اور قومی شعور ختم ہوگیا، تہذیبیں دم توڑنے لگیں اور زبانیں شکست و ریخت سے دوچار ہوئیں۔ مسلم گھرانوں سے قطع نظر، ہندو گھرانوں میں حیا اور پردے کا یہ عالم تھا کہ کہا جاتا ہے مغل شاہی خاندان میں پردے کا رواج ہندو رانیوں کی وجہ سے شروع ہوا۔ اور آج دیکھ لیجیے!
چنانچہ جیسے حمکران ہوتے ہیں لامحالہ ان کا اثر رعایا پر پڑتا ہے۔ جب تک ہمارے حکمران (بشمول انگریز) اصحاب تمدن اور تہذیب و ثقافت کے علمبردار رہے، ہم سب لوگوں نے بھی اپنی اپنی تہذیبوں کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا۔ لیکن جوں ہی ہمارے حکمران تبدیل اور وہ حکمران رخصت ہوئے جنہوں نے ہندوستان کو غیر ملکی سامراج سے آزادی دلائی تھی تو ہمارا مزاج و مذاق بھی بدلنے لگا۔ اکیسویں صدی کے آغاز تک ہم نے اپنی روایتوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کی، لیکن جوں ہی اکیسویں صدی میں داخل ہوئے برقی ترقیوں کے سیلاب نے ہمارا استقبال کیا۔ سوویت یونین کا قلع قمع کرکے ہم نے خود امریکا کو آزادی بخشی۔ چونکہ ہمارے والدین کو انقلاب کا تصور تک نہیں تھا لہذا موجودہ اور گزشتہ نسل میں زبردست خلا پیدا ہوا۔ یوں وہ لوگ جن روایتوں کے امین اور جن رشتوں کے پاسبان تھے وہ سب نسل نو تک پہنچ نہیں سکیں۔ عہد نو کی ترقیوں سے سب کی آنکھیں خیرہ تھیں، کچھ برسوں گزشتہ نسل کے لوگوں کو ہوش آیا تو نئی نسل بہت دور جاچکی تھی۔ اب انہیں واپس لانا اور اپنی روایتوں کی تعلیم دینا دشوار ہوگیا۔ چنانچہ زبان سے مایوسی کا اظہار کرنے لگے، نئی نسل کی شکایتیں کی جانے لگیں کہ یہ کیسی اولادیں ہیں! اور ان اولادوں کو اپنے والدین کی ان باتوں کا کوئی احساس نہیں کہ ان کے نزدیک برقی ترقیاں ہی کامرانی کی شاہ کلید ٹھہری۔ عالمی گاؤں کے پرفریب نعرے نے ہماری اپنی تہذیب کو ختم کرکے سامراج کو از سر نو ہماری خواب گاہوں پر راج کرنے کا موقع دے دیا اور ہم آج بھی اس کی مخالفت کو سخت ترین بدتہذیبی گردانتے ہیں!