اہل کتاب شوہر ۔۔۔ مسلمان بیوی تحریر طفیل ہاشمی
مسئلہ یہ ہے کہ مغرب میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کے باوجود خواتین میں اسلام کی قبولیت بڑھ رہی ہے اور بکثرت خواتین اسلام قبول کر رہی ہیں جب کہ ان کے شوہر بدستور غیر مسلم (یہودی /عیسائی) رہتے ہیں.
ہماری فقہ کے مطابق ایسی خواتین کو بتایا جاتا ہے کہ اگر ان کا شوہر مسلمان نہیں ہوتا تو ان کا نکاح ختم ہو جائے گا، نتیجتاً وہ اپنے شوہر، بچوں اور فیملی لائف سے محروم ہو جائیں گی. امر واقعہ یہ ہے کہ یہ اتنی بڑی قربانی ہے جس کے لیے اسلام کی حقانیت کے اعتراف کے باوجود خواتین کے لیے آمادہ ہونا آسان نہیں__یہ فتوی ایک طرف اسلام کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ ہے تو دوسری طرف نو مسلم خواتین کو نا قابل برداشت حالات کے سپرد کر دینا ہے.
مغرب میں دعوت دین کا کام کرنے والے اس مسئلے کی گھمبیرتا پر غور و خوض کرتے رہے. گزشتہ سالوں میں عراق کے سکالر عبداللہ الجدیع نے اس مسئلہ پرتین جلدوں میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جس کی تلخیص انڈیا سے طبع ہونے والی کتاب ___”مقاصد شریعت __تعارف وتطبيق ” میں ڈاکٹر صلاح الدین سلیمان کے قلم سے مولانا ہشام الحق ندوی کے ترجمے کے ساتھ طبع ہوئی. یورپی کونسل برائے افتاء و تحقیق اور مجلس علمی برائے شمالی امریکہ نے اسی کے مطابق فتوی دیا. پچھلے دنوں برادر عزیز مولانا عمار ناصر نے” مکالمہ “میں اس مسئلہ پر قرآن اور دور حاضر کے بعض اہل علم کے حوالے سے اپنی گراں قدر تحریر شائع کی. ہماری اس تحریر کو مذکورہ تحریر سے ملا کر پڑھا جائے.
امر واقعہ یہ ہے کہ نکاح و طلاق معاہدات کی ایک ایسی قسم ہے جس کے نظائر فقہ اسلامی میں موجود نہیں ہیں (ان کا اجارہ وغیرہ پر قیاس درست نہیں ہے). اسلام نے جاہلی تمدن میں رائج ان معاہدات میں متعدد ترامیم کر کے ان کی از سر نو تنظیم کی ہے. یہ ایسا معاہدہ ہے جو گواہوں کی موجودگی کے بغیر منعقد نہیں ہوتا بلکہ موجب حد ہو جاتا ہے اور ایک بار توڑنے سے نہیں ٹوٹتا تاآنکہ اس پر معقول وقت گزر جائے یا اسے وقفے وقفے سے تین بار توڑ دیا جائے. اس لیے معاہدات نکاح و طلاق کی انفرادیت کو ذیلی قانون سازی میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے.
میری اب تک کی رائے میں یہ سوشل کنٹریکٹ چونکہ سول لا کے تحت آتا ہے اس لیے اس میں اس امر کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ کیا کنٹریکٹ کرنے والے دونوں ایک ہی ریاست کے شہری ہیں. اگر دونوں ایک ریاست کے شہری ہوں تو دین کا اختلاف پیدا ہونے سے معاہدہ ٹوٹ نہیں جاتا. نیز میری رائے میں غیر اسلامی ریاستوں /معاشروں میں قبل از ہجرت کی فقہ رائج کرنے میں کوئی آمر مانع نہیں ہے. مسلمان ہو کر مدینہ ہجرت کر جانے والی خواتین نے دین کے ساتھ شہریت بھی تبدیل کر لی تھی اس لیے ان کے نکاح الممتحنہ کی آیت کی رو سے ختم کر دئیے گئے تھے جب کہ مکہ میں ابو سفیان بن حارث اور عبداللہ بن امیہ اپنی بیویوں سے پہلے اور ام الفضل اپنے شوہر عباس سے بہت پہلے مسلمان ہو گئ تھیں لیکن ان کے نکاح باقی رہے. قرآن کی مذکورہ آیات کا انطباق ان صورتوں میں ہے جب عورت شوہر کا ملک چھوڑ جائے اور شوہر اسے ارتداد کے لیے مجبور کرے.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور امام شعبی کا فیصلہ یہ ہے کہ جب تک دونوں ایک ملک میں ہوں شوہر اس عورت کا زیادہ حق دار ہے.
ہانی بن قیس الشيباني کی چاروں بیویاں مسلمان ہو گئیں اور ہانی نصرانی تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں ان کے پاس رہنے دیا ابن تیمیہ اور ابن القیم نے بھی یہی رائے اختیار کی. رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی سیدہ زینب مدینہ. اس آگئی تھیں ان کے شوہر جو مشرک تھے مدینہ آگئےتو سیدہ نے انہیں پناہ دی، اور آپ صل اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا وہ ان کے پاس رہ سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا وہ تمہارے شوہر ہیں، البتہ وہ تم تک رسائی نہ حاصل کریں. شوہر کہہ کر رسائ سے روکنا اسلام کی ترغیب ہی ہو سکتی ہے. 5یا 6ہجری میں مسلمان ہوئے، مدینہ آئے تو ایک روایت کے مطابق تجدید نکاح کے بغیر اکٹھے رہنے لگ گئے.
امام زہری کی رائے یہ ہے کہ ایسی صورت میں جب تک عدالت تفریق نہ کروائے دونوں میاں بیوی رہیں گے. داؤد بن علی اور احمد بن سفیان کی رائے یہ ہے کہ دونوں ساری زندگی میاں بیوی کے طور پر رہ سکتے ہیں.
تمام دست یاب مآخذ اور مواد تک رسائی کے بعد مقاصد شریعت__یعنی نو مسلم خاتون کے دین کے تحفظ کے پیش نظر یورپ و امریکہ کی مجالس نے یہ فتوی دیا کہ
ابتداء غیر مسلم سے شادی درست نہیں ہے. بیوی قبول اسلام کے بعد اگر چاہے تو شوہر کے اسلام کا ا نتظار کرے اور جب وہ اسلام قبول کر لے تو دونوں پہلے نکاح پر باقی رہ سکتے ہیں. اگر بیوی چاہے تو عدالت کے ذریعے نکاح فسخ کروا کر دوسرا نکاح کر سکتی ہے. گویا بیوی کے قبول اسلام سے یہودی/مسیحی شوہر کے ساتھ رشتہ ازدواج خود بخود ختم نہیں ہو جاتا.
(نوٹ) مشرک شوہر کی بیوی کے مسلمان ہونے کی صورت پر الگ سے مکالمہ کی ضرورت ہے.