آزاد ہند فوج اور جہازیوں کی بغاوت
انگریز کے ہندوستان کو چھوڑ کر جانے کی کئی وجوہات تھیں لیکن ان میں اہم ترین سبھاش چندر بھوس کی ’آزاد ہند فوج‘ اور’جہازیوں کی بغاوت‘ تھی جس نے ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں تھیں۔
یہ الفاظ ہیں لارڈ کلیمنٹ ایٹلی کے جو 1947 میں پاکستان اور انڈیا کی آزادی کے وقت برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔ انھوں نے یہ گفتگو 1956 میں انڈیا کے دو روزہ دورے کے دوران ایک عشائیے میں اس وقت کے کلکتہ کے چیف جسٹس پی وی چکرورتی سے کی تھی۔ لیکن آج ہماری نوجوان نسل میں سے کتنے لوگ ہیں جو ’آزاد ہند فوج‘ اور ’جہازیوں کی بغاوت‘ اور ان سے جڑے لوگوں کی جدوجہد سے آشنا ہیں؟
فروری 1942 میں سنگاپور پر جاپانی قبضے کے چند ماہ بعد ماہ بعد قائم ہونے والی 40 ہزار سے زائد ہندوستانی سپاہیوں پر مشتمل ’آزاد ہند فوج‘ کے لیڈر کانگرس میں گاندھی کے مخالف دھڑے کے نمائندہ اور دو دفعہ کانگرس کے صدر رہ چکے سبھاش چندر بھوس تھے۔ اس کی مرکزی قیادت میں کمانڈر ان چیف میجر جنرل شاہنواز (راولپنڈی)، کرنل پریم کمار سہگل (لاہور) اور کرنل گور بخش سنگھ ڈھلوں (چھانگا مانگا) شامل تھے جن پر 1945 کے آخری دنوں میں دہلی کے لال قلعے میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس فوج میں 1200 عورتوں کی ایک رجمنٹ بھی تھی جن میں سے بیشتر کا تعلق شہری علاقوں سے تھا۔ آزاد ہند فوج نے 1942 سے 1945 کے دوران برطانیہ کے خلاف لڑ کر ڈیڑھ ہزار میل کا علاقہ آزاد کرایا تھا۔
اسی طرح 18 سے 22 فروری 1946 کو بمبئی میں رائل انڈین نیوی میں ہونے والی جہازیوں کی بغاوت متحدہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اچھا کھانا نہ ملنے اور انگریز افسر کے برے رویے کے خلاف شروع ہونے والی بھوک ہڑتال جو بغاوت میں بدل گئی تھی، نے برطانوی سلطنت سے آزادی کے لیے مذہبی یکجہتی اور بہادری کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ جہازیوں نے ہڑتال کی قیادت کے لیے متفقہ طور پر ایک کمیٹی تشکیل دی۔ ایم ایس خان (سگنلر، پیٹی آفیسر) اور مدن سنگھ (ٹیلی گرافسٹ) کو بالترتیب صدر اور نائب صدر منتخب کیا گیا۔ ان دونوں کا تعلق پنجاب سے تھا۔ دیگر کمیٹی ممبران میں بیدی بسنت سنگھ، ایس سی سین گپتا، سکول ماسٹر نواز، اشرف خان، ایبلے گومز اور محمد حسین شامل تھے۔کمیٹی نے جو مطالبات پیش کیے ان میں معاشی سہولتوں کے علاوہ آزاد ہند فوج کے پکڑے جانے والے افراد سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، مصر اور انڈونیشیا سے ہندوستانی فوجوں کی واپسی کی مانگ شامل تھی۔
20 فروری کو رائل انڈین ائیر فورس کے 1200 اہلکار ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ہڑتال پر چلے گئے جن کے ساتھ نیول اکاؤنٹ کے سویلین افراد بھی شامل ہوگئے۔ رائل انڈین ائیر فورس نے جہاز اڑانے اور ہڑتالیوں کے بحری جہاز پر بم گرانے سے انکار کر دیا۔ ٹرانسپورٹ یونٹ نے ہڑتالی جہازیوں سے لڑنے کے لیے فوجیوں کو لے جانے سے سے معذرت کرلی۔ کراچی، گجرات، کلکتہ، مدراس، وشاکھا پٹنم، احمد آباد، جبل پور، آسام اور دہلی میں بھی موجود جہازیوں اور فوجیوں نے بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔ بغاوت ساحلوں پر موجود 74 بحری جہازوں، 20 بیڑوں اور 22 بیرکوں تک پھیل گئی تھی۔
کراچی میں بغاوت کو کچلنے کے لیے بھیجے جانے والے بلوچ سپاہیوں نے ہم وطنوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تو یہ ذمہ داری انگریز فوجیوں کو سونپ دی گئی۔ اس کارروائی کے نتیجے میں چھہ جہازی مارے گئے اور 30 کے قریب زخمی ہوئے۔ اگلے دن کراچی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی مقامی شاخ کی کال پر ہڑتال کی گئی۔ عید گاہ میدان میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 30 ہزارکے قریب شہری اکٹھے ہوگئے جن پر پولیس نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 25 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ بمبئی میں بھی شہری جہازیوں کی حمایت میں سڑکوں پرنکل آئے۔ کراچی کے بعد کلکتہ میں ایک لاکھ مزدوروں نے ہڑتال میں حصہ لیا۔
اس وقت کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کانگرس اور مسلم لیگ نے جہازیوں کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ انھوں نے ہتھیار ڈالنے پر زور دیا۔ کانگرس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جہازیوں نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے۔
ہندوستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مخالفانہ رویے اور مزید جانی نقصان سے بچنے کے لیے جہازیوں نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ لیکن آج ہماری تاریخ کی کتابوں میں اس کا کوئی ذکر تک موجود نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تاریخ کو مذہب سے نتھی کرکے ریاستی سطح پر ایسا بیانیہ ترتیب دیا گیا ہے جس میں اپنے ہم مذہبوں کے علاوہ کسی اور کی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ تاریخی واقعات اور شخصیتوں کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم نے ہمارے معاشرے میں ایک ایسی یک رخی سوچ کو پروان چڑھایا ہے جس نے مکالمے، تحقیق اور رواداری کی بجائے فرقہ وارانہ سوچ اور تشدد کو فروغ دیا ہے۔ تاریخ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ تاریخ کی مذہبی تفہیم سے صرف رجعتی، فرقہ وارانہ اور بنیاد پرست قوتوں کی ہی آبیاری ہوتی ہے۔ مذہبی بنیادوں پر تاریخ کی تقسیم ہمیں ایسے فکری ’’بلیک ہول‘‘ میں لے جا سکتی ہے جہاں سے شاید ہم پھر چاہ کر بھی واپس نہ پلٹ سکیں۔
۔
داؤد ظفر ندیم صاحب کی عط