سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا معاملہ۔ از بصیرت حق

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا معاملہ

تحریر: بصیرت حق

آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو ذبح کے لیے نہیں لٹایا

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے سلسلے میں کئی اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ کیااللہ تعالی یہ حکم کیسے دے سکتے ہیں کہ اس کی رضا کے لیے انسان کو ذبح کیا جائے اور ملحدین کیطرف سے یہ اعتراض کہ یہ کیسا اللہ اور کیسے رسول ہیں جو مذہب کے نام پر انسانوں اور اپنے بیٹوں اور اولاد کو ذبح کرنے والے ہیں ، اسی طرح یہ بھی اعتراض ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک خواب کی بنیاد پر کیسے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے ؟ اور پھر خوابوں کو وحی کا درجہ دینا اور اور ان کی بنیاد پر احکامات الاہی کا اخذ کرنا ان ہی آیات سے اخذ کیا جاتا ہے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ آج بھی خواب وحی الاہی ہیں اور کئی روایات اس کی تائید میں موجود ہیں اور اس سے زیادہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آج بھی کوئی بندہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے فلاں کو قتل ہی اس لیے کیا ہے کہ مجھے خواب میں اللہ پاک نے یہ حکم دیا تھا وغیرہ اور اب سب باتوں کی بنیاد قرآن مجید کی سورہ صافات کی آیات 100 سے 108 تک کی آیات پر رکھی جاتی ہے جس میں بقول مفسرین کرام اللہ نے ابراہیم علیہ والسلام کو اپنے بیٹے کو خواب کے ذریعہ ذبح کرنے کا حکم دیا ہے ۔۔۔
حقیقت
حقیقت یہ ہے کہ ان آیات مبارکہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے ، نہ تو اللہ پاک نے ابراہیم علیہ السلام کو اس قسم کا حکم دیا تھا اور نہ ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے تھے ۔۔۔اور نہ ہی انہوں نے اپنے بیٹے کو ایک خواب کی بنیاد پر عملا ذبح کرنے کے لیے لٹادیا تھا ، یہ سب افسانہ اورآیات مبارکہ کی غلط تفہیم کا نتیجہ ہے ۔ اور اس کی بنیاد روایات اور اسرئیلیات ہیں جو رطب و یابس مفسرین نے اپنی تفاسیر میں بھر دی ہیں ۔۔۔۔
آیات مبارکہ میں غور فرمایا جائے تو اللہ پاک نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ہم نے ابراہیم کو اس قسم کا کوئی حکم دیا تھا اور خود ابراہیم علیہ السلام بھی کہیں یہ نہیں فرما رہے کہ مجھے یہ اللہ کی طرف سے حکم دیا جاچکا ہے بلکہ قرآن کے الفاظ کے مطابق ابراہیم علی السلام صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے یعنی خواب کو بھی وہ اللہ کی طرف منسوب نہیں کر رہے وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ مجھے خواب دکھایا گیا یا مجھے خواب میں دکھایا گیا ہے یا مجھے اللہ نے دکھایا ہے وغیرہ کے الفاظ نہیں کہے بلکہ وہ فرما رہے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے خواب کو اپنی طرف منسوب کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اس خواب کو اللہ کی طرف نہ منسوب کر رہے ہیں اور نہ اس کو اللہ کی طرف سے اللہ کا حکم سمجھ رہے ہیں کیونکہ اگر یہ اللہ کا حکم تھا تو اس کی تعمیل میں اپنے بیٹے سے مشورہ مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس وقت تو ایک نبی کا فریضہ یہ تھا کہ وہ سیدھا بیٹے کو کہتے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور میں نے آپ کو ذبح کرنا ہے ہر صورت میں ،،،، انہوں نے یہ نہیں کہا بلکہ یہ کہا کہ بیٹے میں نے اس قسم کا خواب دیکھا ہے آپ کی کیا راء ہے ؟ تمھارا اس خواب کے متعلق کیا کہنا ہے ؟ تو اس کے فرزند عالی نے جواب دیا کہ محترم والد یہ تو خواب ہے ، اور خواب خواب ہوتا ہے ، ہاں اگر اللہ کا واقعی یہ حکم ہوبھی جائے اسی طرح تو میں تیار ہوں ، آپ وہی کریں جو آپ کو حکم دیا جائے ۔۔۔قرآن مجید کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ جو آپ کو حکم دیا گیا ہے کیوں کہ اس صورت میں الفاظ ماضی مجھول کے ہوتے یعنی ما امرت آپ وہ کریں جس کا آپ کو حکم دی اگیا ہے بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ آپ وہ کریں جو آپ کو حکم دیا جائے یا دیا جائے گا ، بیٹے نے بات صاف کردی اور باپ کی منشاء کے مطابق کردی کہ ابھی تو یہ صرف ایک خواب ہے لیکن اگر ظاہری متلو وحی الاہی میں اس قسم کا حکم الاہی آگیا تو ہم دونوں اس حکم کی تعمیل کے لیے بدل وجان تیار ہیں ۔۔۔۔یعنی قرآن کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ باپ نے خواب کے سلسلے میں بیٹے سے مشورہ مانگا اور کہا ہوگا کہ اگر اسی خواب کے مطابق اگر واقعی حکم الاہی آجائے تو تمھارا رویہ کیا ہوگا ؟ تو بیٹے نے بھی وہی بات کی کہ یہ تو خواب ہے لیکن اگر واقعی اس قسم کا حکم آجائے تو آپ نے ہچکچانا نہیں ہے بلکہ وہی کرنا ہے جو آپ کو حکم دیا جائے ۔۔۔خواب میں بات واضح نہیں ہے ، جب ، واضح حکم آجائے تو جیسا اور جس طرح حکم ہو وہ کریں اور میں ہر قسم کے حکم کی تعمیل کے لیے تیار ہوں اور اگر اس واضح حکم میں مجھے ذبح کرنے کا حکم ہو تو میں صبر کے ساتھ ذبح ہونے کے لیے تیار ہوں ۔۔۔۔اور پھر فلما اسلما جب وہ دونوں دلی طور پر اللہ کے ہر حکم کے سامنے جھک گئے اور اللہ کے ہر قسم کے حکم کو تسلیم کرنے کے لیے دلی طور پر تیار ہوگئے اور وتلہ للجبین اور ابراہیم علیہ السلام پیشانی کے بل سجدہ ریز ہوگئے اور ابراہیم نے خود کو اپنی پیشانی کے بل اللہ کے سامنے گرادیا تو اللہ نے ان کے اس عظیم جذبہ کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے ابراہیم کو آواز دی اور وحی متلو کے ذریعہ کہا کہ اے ابراہیم بس تو نے اپنا خواب سچا کردیا ، اور ہم نے آپ کو اپنی اطاعت میں سچا پایا اور تمہارے اس خواب کی بنیاد پر اللہ کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے اپنے آپ کو میرے سامنے پیش کرنے کے جذبہ صادقہ کو دیکھتے ہوئے ہم واقعی آپ کے اس بیٹے کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرماتے ہیں اور ہم اسی طرح محسنین کو بہترین جزاء عطا فرماتے ہیں ۔۔۔ تلہ للجبین میں ہ کا ضمیر پسر ابراہیم کی طرف نہیں بلکہ خود سینا ابراہیم علیہ السلام کی طرف راجع ہے ، اس سے پہلے اور اس کے بعد سیاق و سباق میں بات ساری ابراہیم علیہ السلام کی ہو رہی ہے ، پسر ابراہیم کو صرف فلما اسلما میں شامل کیا گیا ہے اور تلہ للجبین میں سینا ابراہیم کی اس کیفیت اور صورت کو بیان گیا ہے جس کیفیت اور صورت میں ان کو آگے والی وحی الاہی سے نوازا گیا ۔۔۔۔اسی طرح ان ھذا لھو البلاء المبین سے بھی استدلال صحیح نہیں ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی ، یہاں پر بھی دیکھیں کہ اللہ پاک نے اس کو اپنی طرف منسوب نہیں کیا ہے کہ یہ ہماری طرف ابراہیم کی آزمائش تھی بلکہ مطلقا کہا گیا ہے کہ یہ ابراہیم کے لیے بلاء تھی اور بلاء کی معنی قرآن میں صرف آزمائش نہیں ہے ۔۔۔۔بلکہ یہ ایک پریشان کن صورتحال تھی اور جب تک سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اس سلسلے میں واضح حکم نہیں دیا گیا اس وقت تک سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس خواب کی وجہ سے پریشان رہے ،،،اور ہوسکتا ہے کہ یہ خواب جناب ابراہیم علیہ السلام نے کئی بار دیکھا ہو جیسا کہ روایات میں بھی آتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے یہ خواب کئی بار دیکھا تو جناب ابراہیم علیہ السلام اس خواب اور کیفیت اور صورتحال کی وجہ سے ذہنی طور پر بہت پریشان اور تکلیف میں تھے اور واضح حکم الاہی کے شدید انتظار میں تھے اور اللہ پاک نے ان کی صداقت اور عظیم جذبہ امتثال و تعمیل کو دیکھتے ہوئے اپنے عظیم فضل سے ان کو نوازا ۔۔۔ اس سے ظاہر ہے کہ اوپر پیش کردہ سارے اعتراضات غلط ہیں ۔۔۔۔

سورس:فیس بک پوسٹ

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.