انشاء اللہ یا ان شاء اللہ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ "ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ” ﻟﮑﮭﺎ ﺗﻮ کسی ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ: ﻟﻔﻆ "ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ” ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺑﻠﮑﮧ یه ” ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ” ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ- ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻟﮓ الگ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮا- ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻼﮞ ﺳﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ- ﺁﭖ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯼ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭﮞ گا- خور سے ﺗﺤﻘﯿﻖ کی تو ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﺻﺤﯿﺢ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ-
ﻟﻔﻆ ” ﺍﻧﺸﺎﺀ ” ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ: "ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ” ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ "ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ” ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ تو
” ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ” ( ﻧﻌﻮﺫﺑﺎ ﺍﻟﻠﮧ )- ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ ” ﺍﻧﺸﺎﺀ ” ﮐﻮ ﻟﻔﻆ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ- ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ "ﺍﻧﺸﺎﺀ” ﺍﮐﯿﻼ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ ہے-
1. ﻭَﻫﻮَ ﺍﻟَّﺬِﯼ ﺃَﻧْﺸَﺄَ ﻟَﮑُﻢُ ﺍﻟﺴَّﻤْﻊَ ﻭَﺍﻟْﺄَﺑْﺼَﺎﺭَ ﻭَﺍﻟْﺄَﻓْﺌِﺪَۃَ ﻗَﻠِﯿﻠًﺎ ﻣَﺎ ﺗَﺸْﮑُﺮُﻭﻥَ – ( ﺍﻟﻤﻮﻣﻦ ) , 78
2. ﻗُﻞْ ﺳِﯿﺮُﻭﺍ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ﻓَﺎﻧْﻈُﺮُﻭﺍ ﮐَﯿْﻒَ ﺑَﺪَﺃَ ﺍﻟْﺨَﻠْﻖَ ﺛُﻢَّ ﺍﻟﻠَّﻪ ﯾُﻨْﺸِﺊُ ﺍﻟﻨَّﺸْﺄَۃَ ﺍﻟْﺂَﺧِﺮَۃَ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﮧَ ﻋَﻠَﯽ ﮐُﻞِّ ﺷَﯽْﺀ ٍ ﻗَﺪِﯾﺮ ـ ( ﺍﻟﻌﻨﮑﺒﻮﺕ ) , 20
3. ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻧْﺸَﺄْﻧَﺎ ﻫﻦَّ ﺇِﻧْﺸَﺎﺀ ً – ( ﺍﻟﻮﺍﻗﻌﮧ ) , 35
ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﺍﻧﺸﺎﺀ ” ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﯿﮟ "ﺍﻟﻠﮧ” ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﺍﻟﮓ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ-
ﻟﻔﻆ "ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ” ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ: "ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ”- "ﺍﻥ” ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ ” ﺍﮔﺮ ”
” ﺷﺎﺀ ” ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ ” ﭼﺎﮨﺎ "
” ﺍﻟﻠﮧ ” ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ” ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ "-
ﺗﻮ ﻟﻔﻆ "ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ” ﮨﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ:
1. ﻭَﺇِﻧَّﺎ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻟَﻤُﮩْﺘَﺪُﻭﻥَ – ( ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ ) 70
2. ﻭَﻗَﺎﻝَ ﺍﺩْﺧُﻠُﻮﺍ ﻣِﺼْﺮَ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺁَﻣِﻨِﯿﻦَ – ( ﯾﻮﺳﻒ ) 99
3. ﻗَﺎﻝَ ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺻَﺎﺑِﺮًﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺃَﻋْﺼِﯽ ﻟَﮏَ ﺃَﻣْﺮًﺍ – ( ﺍﻟﮑﮩﻒ ) 69
4. ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﯿﻦَ – ( ﺍﻟﻘﺼﺎﺹ ) 27
ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ "ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ”
ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ: "ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ”-
انگریزی میں یوں لکھ جا سکتا ھے:
"In Shaa Allah”
انشاءاللہ یا ان شاءاللہ…
از: حافظ صفوان محمد
انشاءاللہ کو ان شاءاللہ لکھنا کوئی ضروری نہیں ہے اور انشاءاللہ لکھنا کوئی غلطی نہیں ہے۔ جو قرآن نبی کریم کے دور میں تھا اور جس کی نقل حضرت عثمان کے پاس تھی اور جس کی بہت سی نقول جگہ جگہ بھجوائی گئی تھیں ان میں نہ نقاط تھے اور نہ ہمزہ تھا۔ حضرت عثمان والا یہ نسخہ محفوظ ہے اور اس کی عکسی نقول عام دستیاب ہیں۔ ان نقول سے تقابل کرکے میرے دعوے کی تصدیق کوئی بھی کرسکتا ہے کہ اس میں انشا کو ان شا (غیر منقوط) نہیں لکھا ہوا ہے۔
قرآن میں الفاظ پر اعراب بعد میں لگے اور حیرت ناک طور پر ایک بھی ایسا مخطوطہ محفوظ نہیں ہے جس کے بارے میں یقینی طور پر دعویٰ کیا جا سکے کہ یہ وہ اولین نسخہ ہے جس پر اعراب لگے۔ رفتہ رفتہ عربی رسم الخط میں نمایاں تہذیب و ترقی ہوئی تو کسی وقت میں حروف پر نقاط بھی لگ گئے۔ قرآن میں یہ نقاط خواہ جب بھی لگے ہوں تاہم وہ اولین نسخہ جس میں ترمیم و تہذیب و تصحیح شدہ جدید عربی املا لکھا گیا، تاحال مفقود ہے۔
دریں احوال، یہ دعویٰ و تحقیق کہ قرآن میں فلاں لفظوں کو فلاں طریقِ املا میں لکھنا درست ہے اور فلاں طرح سے لکھنا غلط، یہ ایک اکڈیمک بحث ہے جس کا ایمانیات اور کفر و اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ساٹھ ستر سال پرانے چھپے نسخوں میں واللیل لکھا ہوتا تھا جو آج والیل ہوتا ہے۔ یہ املا یعنی orthograph کا ارتقا ہے جو ہر دور میں ہوتا رہتا ہے چنانچہ قرآن کی ترسیم میں بھی ہوتا رہا ہے۔ فرض کیجیے کہ ماہرینِ رسم الخط کچھ عرصہ بعد ث اور ش پر تین نقطوں کی جگہ اگر کوئی اور علامت تجویز کرکے اسے چلا دیں اور پھر قرآن میں بھی ث اور ش اسی جدید املا میں لکھے جانے لگیں تو اس کو تحریف نہیں کہیں گے اور نہ اس پر کفر و اسلام کا فیصلہ ہوگا۔ قرآن ہے ہی قرات کے لیے، اور یہ قرات یعنی پڑھنے یاد کرنے سے محفوظ ہوا ہے اور رہے گا۔
القصہ انشاءاللہ اور ان شاءاللہ دونوں درست ہیں اور ان میں فرق صرف ذوقی معاملہ ہے جس سے کفر لازم نہیں آتا۔
ان شاءاللہ یا انشاءاللہ۔۔۔
از: حافظ صفوان
ان شاءاللہ کو انشاءاللہ لکھنے میں کوئی غلطی یا حرج نہیں ہے۔ لفظوں کو جوڑ کر لکھنا عربی و فارسی اور اردو میں عام ہے۔ ہم لوگ اردو میں بلکہ کو بل کہ نہیں لکھتے اور نہ خوشبو کو خوش بو لکھتے ہیں۔ عربی کے علیحدہ کو علیٰ حدہ نہیں لکھا جاتا۔ یہ چلن کی بات ہے کہ کس لفظ کو کیسے لکھا جا رہا ہے۔ چنانچہ انشاءاللہ اور ان شاءاللہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس سے کوئی کفر لازم نہیں آتا۔