قران کی نظر میں دنیا کی حقارت۔ از محمد نعیم خان
قرآن نے جہاں اِس دنیا کو حقیر کہا ہے وہاں آپ سیاق و سباق نوٹ کریں تو ہر جگہ اِس کا موازنہ آخرت سے کیا ہے۔ یہ بات اُن لوگوں کو بتائ ہے جو لوگ صرف اِس ہی دنیا کو اپنا منزل و مقصود سمجھتے تھے۔ اُن کے نزدیک صرف یہی دنیا ہی سب کچھ تھی۔ وہاں اُن لوگوں کو توجہ دلائ ہے کہ ایسا بہیں ہے جہ نرنے کے بعد دوبارہ نہیں اُٹھائے جاو گے۔ جس دنیا کو تم آخرت کے مقابلے میں ترجیح دے رہے ہو اُس کی حثیت اُس ابدی زندگی کے مقابلے میں کچھ نہیں۔
اِس کو ہم مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ اَب اِس دنیا کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کرنا۔ یہ تو کافروں کے لئے ہے اصل جگہ مومن کی تو جنت ہے جو آخرت میں ملے گی۔ جبکہ وہ یہ بات بھول گیا کہ اِس دنیا میںکنائے جانے والے نمبر ہی آخرت کا فیصلہ کرے گیں۔ آب جب یہ صورتحال ہو تو پھر کون اس دنیا میں لوگوں کی آسائش اور آرام ، اُن کو تکلیفوں سے نجات دلائے گا۔ وہ یہ بھول گیا کہ اسلام کا منصفانہ نظام کے نفاذ کی ذمہ داری اِس ہی دنیا میں اسے انجام دینی ہے۔
اَب حال یہ ہے کہ مسلمان اب نہ سات میں ہیں اور نہ تیرا میں ۔ آج دنیا کی باگ دوڑ دوسروں کے ہاتھوں میں ہے۔ جس اُمت کو دوسروں کی اصلاح کے کئے نکالا گیا تھا ۔ آج وہ خود اصلاح کی منتظر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس دنیا کو مومن کا قید خانہ اور کافروں کے لئے جنت سمجھ لیا ہے۔ اَب اَپنے قید خانہ کو کون سنوارتا ہے۔ وہاں تو بس وقت گھسیٹا جاتا ہے۔ (سورس)