رسول اللہ ﷺ کی میراث کا مسئلہ تحریر سید ابو الاعلی مودودی
سوال: باغ فدک کے مسئلے پر آپ کی تحقیق کیا ہے؟ اس کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے جیسے حضرت سیّدنا فاطمہ ؓ پر ظلم کیا گیا ۔ کیا آنحضورﷺ کی میراث میں سے حضرت فاطمہؓ کا حق نہ دینا خلیفہ اوّل و دوم کے لئے درست تھا؟
جواب سید مودودی : باغ فدک کے مسئلے پر بحث کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا سرکار رسالت مآب ﷺ کے پاس وفات کے وقت کوئی ذاتی جائداد تھی بھی کہ اس میں سے میراث جاری ہوتی؟ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد حضورﷺ کا تمام وقت دعوت حق کے کام پر صرف ہونے لگا تھا اور کاروبار تجارت بند ہوچکا تھا۔ مکہ معظمہ میں جب تک قیام رہا، اس اثاثے پر گزر بسر ہوتی رہی جو آپؐ اور حضرت خدیجہؓ کے پاس پہلے کا بچا بچایا موجود تھا۔ ہجرت فرمائی تو گویا دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ طیبہ پہنچ کر آپ بالکل بے سر و سامان تھے۔ ابتدائی زمانہ انتہائی عسرت اور تنگ دستی کے ساتھ گزرا۔ پھر جب غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اموال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنے کا حکم دیا، اور رسول اللہ ﷺکو یہ حق عطا فرمایا کہ جس قدر مناسب سمجھیں اور ضرورت محسوس فرمائیں، اپنی ذات پر اور اپنے قرابت داروں کی حاجات پر صرف کرنے کے لئے اس حصے میں سے لے لیا کریں، باقی اللہ تعالیٰ کے کام میں اور یتامیٰ، مساکین اور مسافروں کی خبر گیری میں صرف فرمائیں۔
واعلموا انما غنمتم من شیئی فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربیٰ والیتٰمٰی والمساکین وابن السبیل (الانفال: آیت ۴۱(
یہ پہلا ذریعہ معاش تھا جو آپؐ کو عطا کیا گیا۔
اس کے بعد ہجرت کے چوتھے سال اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے یہودی قبیلے بنی النضیر پر آپؐ کو فتح عطا فرمائی اور وہ اپنی جائدادیں چھوڑ کر شہر سے چلے گئے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:
وما افآء اللہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من نخیل ورکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشآء واللہ علی کل شئی قدیر۔ ما افآء اللہ علی رسولہ من اھل القربیٰ فللہ وللرسول ولذی القربیٰ والیتٰمٰی والمساکین وابن السبیل کی لا یکون دولۃ بین الاغنیآء منکم (الحشر: آیت ۶۔۷(
’’اور جو کچھ دلوایا اللہ نے ان سے اپنے رسول کو، نہیں دوڑائے اس پر تم نے گھوڑے اور اونٹ، مگر اللہ مسلط کردیتا ہے اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جو کچھ دلوائے اللہ (اس طریقے پر) اپنے رسول کو بستیوں کے لوگوں سے تو وہ اللہ کے لئے ہے اور رسول کے لئے اور قرابت داروں اور یتامیٰ اور مسافروں کے لئے تاکہ یہ مال تمہارے دولت مندوں ہی کے درمیان نہ گردش کرتا رہے‘‘۔
اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے ان تمام اموال، جائدادوں اور علاقوں کو جو براہ راست جنگی کاروائی کے ذریعے سے فتح نہ ہوئے ہوں بلکہ اسلامی حکومت کے رعب اور دبدبے سے مسخر ہوجائیں، غنیمت سے الگ کرکے حکومت کی ملکیت قرار دے دیا اور رسول اللہﷺ کو یہ حق عطا فرمایا کہ وہ اپنی اور اپنے قرابت داروں کی ضروریات کے لئے اس سرکاری مال میں جس قدر مناسب سمجھیں لے لیں۔
ان احکام کے مطابق حضورﷺ نے مدینہ طیبہ میں بنی النضیر کے چھوڑے ہوئے باغوں میں سے چند نخلستان، خیبر میں سے کچھ اراضی، اور فدک میں سے کچھ اراضی اپنے لئے مخصوص کرلی تھی۔ اس جائداد کی آمدنی سے حضورﷺ اپنی اور اپنے اہل و اعیال کی ضروریات پوری کرتے تھے، اپنے قرابت داروں کی مدد فرماتے تھے اور جو کچھ بچتا تھا، اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف فرما دیتے تھے۔
غور کیا جائے تو صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ان دونوں ذرائع (غنیمت اور فے) سے جو کچھ حضورﷺ کو عطا کیا گیا، اس کی نوعیت یہ نہیں تھی کہ آپؐ نے اپنے ذاتی کاروبار سے کوئی جائداد پیدا کی ہو اور وہ آپؐ کے بعد بھی آپؐ کی ملک رہے اور آپؐ کے وارثوں میں تقسیم ہو، بلکہ اس کی نوعیت یہ تھی کہ آپؐ اسلامی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے اپنا سارا وقت سرکاری کام پر صرف فرماتے تھے اور اپنا کوئی ذاتی ذریعہ معاش نہیں رکھتے تھے، اسی لئے آپؐ کو یہ حق عطا فرمایا گیا کہ حکومت کی املاک میں سے اتنی جائداد اپنے تصرف میں رکھیں جس سے آپ کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے نبوت کا یہ کار عظیم اپنے لئے جائدادیں اور جاگیریں پیدا کرنے کے لئے تو نہیں کیا تھا۔ یہ تو ایک خدمت تھی جو خالص اللہ کے لئے آپؐ انجام دے رہے تھے اور اس کا اجر اللہ کے ہی ذمہ تھا۔ ریاست کے مال میں آپ کا حصہ بس اتنا تھا کہ آپؐ اپنے نفس کے اور اپنے اہل و عیال اور حاجت مند قرابت داروں کے حقوق ادا کرسکیں۔ یہ حصہ آپؐ کی حیات طیبہ تک ہی باقی رہ سکتا تھا۔ آپؐ کی وفات کے بعد اس کو ذاتی املاک کی طرح وارثوں میں تقسیم کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اس بات کو حضورﷺ نے خود اپنی زندگی میں صاف کردیا تھا:
لا تقتسم ورثتی دیناراً ولا درھم ماترکت بعد نفقۃ نسائی ومؤنۃ عاملی فھو صدقۃ (بخاری، مسلم، موطا، مسند احمد(
’’میرے وارث کوئی دینار و درہم آپس میں تقسیم نہ کریں۔ میں نے جو کچھ چھوڑا ہے، میری بیویوں کا نفقہ اور میرے عامل کا حق الخدمت ادا کرنے کے بعد وہ سب صدقہ ہے‘‘۔
لا نورث ما ترکنا فھو صدقۃ انما یا کل ال محمد من ھذا المال لیس لھم ان یزیدوا علی الماکل (بخاری، مسند احمد، مسلم(
’’ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے، محمد ﷺ کے گھر والے تو اس مال میں سے بس کھا لیتے ہیں۔ کھانے بھر سے زیادہ لینے کا انہیں حق نہیں ہے‘‘۔
ان اللہ عز و جل اذا اطعم نبیاً طعمۃ ثم قبضۃ جعلہ للذی یقوم بعدہ (مسند احمد، مرویات ابوبکر صدیقؓ)
’’اللہ عز و جل کسی نبی کو بسر اوقات کے لئے جو کچھ دیتا ہے وہ اس کی وفات کے بعد اس شخص کے حوالے کر دیتا ہے جو اس کا جانشین ہو‘‘۔
اس مال کے متعلق حضورﷺ کی یہ ہدایات کچھ خفیہ نہ تھیں بلکہ تمام جلیل القدر صحابہ کرامؓ ان کو جانتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ ہی تنہا ان کے راوی نہیں ہیں۔ حضرت علیؓ، حضرت عباسؓ، حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت طلحہؓ، اور حضرت زبیرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور تمام ازواج مطہرات کی یہ شہادت نہایت مستند روایات سے ہم تک پہنچی ہے کہ حضورﷺ نے اپنے ترکے کی یہی نوعیت بیان فرمائی تھی۔ اس فرمان مبارک کے ہوتے ہوئے کون شخص یہ تصور کرسکتا ہے کہ حضورﷺ کے خلفاء آپؐ کی چھوڑی ہوئی جائداد کے معاملہ میں کوئی دوسرا فیصلہ کرنے کے مجاز ہوسکتے تھے۔
اب دیکھئے کہ حضورﷺ کی وفات کے بعد مطالبہ میراث کس طرح اٹھا اور آپؐ کے خلفا نے اس پر اپنے اپنے زمانوں میں کیا کاروائی کی۔ شرعی قاعدے کے مطابق میراث کا مطالبہ کرنے کے حق دار تین فریق ہوسکتے تھے۔ ایک سیدنا حضرت فاطمہؓ، بیٹی کی حیثیت سے، دوسرے حضرت عباسؓ چچا کی حیثیت ہے، تیسرے جملہ ازواج مطہرات بیویوں کی حیثیت سے۔ ان میں سے پہلے دو فریقوں یعنی سیدنا فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے خلیفہ مقرر ہونے کے فوراً بعد خیبر، فدک اور مدینہ طیبہ کی اس جائداد کے متعلق جو حضورﷺ کے تصرف میں تھی، اپنا دعویٰ پیش کیا، اور بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہؓ نے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ جب تمہاری وفات کے بعد تمہارا ترکہ تمہارے اہل و عیال ہی میں تقسیم ہونا ہے تو آخر میرے باپ (نبیﷺ) کی وفات کے بعد ان کے ترکے میں سے مجھے کیوں میراث نہ ملے؟ اس کے جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے جو کچھ فرمایا، وہ یہ تھا:
ان رسول اللہﷺ قال لا نورث ما تر کنا صدقۃ وقال لست تارکا شیئاً کان رسول اللہﷺ یعمل بہ الا عملت بہ فانی اخشی ان ترکت شیئاً من امرہ ان ازیغ (بخاری، کتاب فرض الخمس)، (مسند احمد، مرویات ابوبکرصدیقؓ)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ ہماری وراثت جاری نہیں ہوتی، جو کچھ ہم نے چھوڑا ہے، وہ صدقہ ہے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں کوئی ایسا کام نہ رہنے دوں گا جو رسول اللہ کرتے تھے اور میں وہ نہ کروں، کیوں کہ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے آپؐ کے اوامر میں سے کسی کو بھی چھوڑ دیا تو گمراہ ہوجاؤں گا‘‘۔
ولکن اعول من کان رسول اللہﷺ ایعولہ وانفق علی من کان رسول اللہﷺ ینفق (ترمذی، کتاب السیر، باب ماجاء فی ترکتہ النبیﷺ)، ( مسند احمد، مرویات ابوبکر صدیقؓ(
’’مگر میں ان سب لوگوں کی عیال داری کروں گا جن کی عیال داری حضورﷺ کرتے تھے، اور ان سب لوگوں پر خرچ کروں گا جن پر حضورﷺ خرچ کیا کرتے تھے‘‘۔
واللہ لقرابۃ رسول اللۃﷺ احب الی ان اصل من قرابتی (بخاری، کتاب المغازی، باب نبی النضیر(
’’خدا کی قسم! میرے لئے اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے کی بہ نسبت رسول اللہﷺ کے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا زیادہ محبوب ہے‘‘۔
جناب سیدہؓ اور حضرت عباسؓ سے حضرت ابوبکرؓ کی اس گفتگو کے متعلق جتنی مستند روایات ہم تک پہنچی ہیں، ان میں کسی میں بھی یہ بات کہیں اشارۃً یا کنایۃً بھی مذکور نہیں ہے کہ جناب سیدہؓ یا حضرت عباسؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی یہ بات سن کر جواب میں فرمایا ہو کہ آپ نبیﷺ کی طرف ایک غلط بات منسوب کر رہے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ جب حضورﷺ کی طرف اس فرمان کی نسبت صحیح تھی تو پھر خلیفہ رسول کے لئے واجب العمل قانون اس کے سوا اور کوئی نہ ہوسکتا تھا جو رسول پاکﷺ سے ثابت تھا۔ آخر اس فرمان کی زد جناب حضرت سیدہؓ اور حضرت عباسؓ ہی کے مفاد پر تو نہ پڑتی تھی۔ خود خلیفہ کی اپنی صاحبزادی حضرت عائشہؓ کا مفاد بھی اس کی لپیٹ میں آجاتا تھا۔ کیوں کہ وہ بھی اس کی بنا پر اپنے شوہر کی میراث سے محروم ہوتی تھیں۔ خلیفہ برحق نے آخر انہی کو اس قانون سے کب مستثنیٰ کیا۔
اب رہ گیا تیسرا فریق یعنی ازواج مطہرات کا گروہ، تو اس نے بھی ارادہ کیا حضرت عثمانؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر حضرت ابوبکرؓ کے پاس بھیجے اور حضورﷺ کے ترکے میں سے اپنے آٹھویں حصے کا مطالبہ کرے۔ مگر حضرت عائشہؓ نے اس کی مخالفت کی اور تمام ازواج مطہرات کو خطاب کرکے فرمایا:
الا تتقین اللہ، الم تعلمن ان النبیﷺ کان یقول لا نورث ماترکنا صدقۃ (یزید بذالک نفسہ) انما یأکل ال محمد فی ھذا المال۔
’’کیا آپ رسول اللہﷺ سے نہیں ڈرتیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ ہماری وراثت جاری نہیں ہوتی۔ جو کچھ ہم نے چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے۔ محمدؐ کے اہل و عیال تو بس اس مال میں سے کھا سکتے ہیں‘‘۔
حضرت عائشہؓ کی یہ بات سن کر سب ازواج مطہرات اپنے دعویٰ سے دست بردار ہوگئیں۔
ایک بات اس سلسلے میں یہ کہی جاتی ہے کہ فدک کے متعلق نبیﷺ نے اپنی زندگی میں یہ فیصلہ کردیا تھا کہ وہ حضرت فاطمہؓ کو دیا جائے گا۔ جناب سیّدہ نے حضرت ابوبکر ؓ سے خاص طور پر اسی کا مطالبہ کیا تھا اور شہادت میں حضرت علیؓ اور ام ایمن کو پیش کیا تھا۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ نے ان کی شہادت قبول نہ کی اور فدک کی جائداد ان کے حوالہ کرنے سے انکار کردیا۔
مگر یہ قصہ حدیث کی مستند روایات میں سے کسی میں بھی مذکور نہیں ہے۔ البتہ بلاذری اور ابن سعید نے اسے نقل کیا ہے اور ان کے بیان میں بھی کافی اختلاف ہے۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے یہ بات خود رسول اللہﷺ سے نہیں سنی تھی بلکہ ام ایمن سے سنی تھی اور ان ہی کو شہادت میں پیش کر دیا۔ بخلاف اس کے بلاذری کی روایت یہ ہے کہ جناب سیّدہ نے خود یہ دعویٰ کیا تھا کہ میرے والد نے مجھے فدک دیا ہے۔ پھر ایک روایت کی رو سے انہوں نے حضرت علیؓ اور ام ایمن کو شہادت میں پیش کیا اور دوسری روایت کی رو سے ام ایمن اور رباح (نبیﷺ کے آزاد کردہ غلام) کو۔
یہ تو ہے اس قصے کی حیثیت باعتبار روایت۔ اب قانونی حیثیت دیکھئے تو حضورﷺ کا یہ فعل یا تو ہبہ ہوسکتا تھا یا وصیت۔ اگر کہا جائے کہ ہبہ ہے تو وہ اسی صورت میں ہوسکتا تھا کہ جب حضورﷺ نے اپنی زندگی ہی میں فدک کا قبضہ حضرت فاطمہؓ کو دے دیا ہوتا۔ ورنہ محض زبان سے کسی چیز کو کسی کے لئے نامزد کردینا، اور یہ نیت کرنا کہ وہ چیز مالک کے مرنے کے بعد معطیٰ لہ کو ملے گی، ہبہ نہیں بلکہ وصیت ہے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ یہ وصیت تھی تو قرآن مجید میں میراث کا قانون نازل ہوجانے کے بعد حضورﷺ خود یہ اعلان فرما چکے تھے کہ ’’لا وصیۃ لوارث‘‘ اب ترکے کی تقسیم کے معاملہ میں کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔ پھر یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ حضورﷺ نے اپنے ہی اعلان کردہ قانون کے خلاف دوسرے وارثوں کو چھوڑ کر ایک خاص وارث کے حق میں کوئی وصیت فرمائی ہوگی۔
علاوہ بریں ہبہ یا وصیت کے سوال کو نظر انداز کرکے صرف اس شہادت ہی کو دیکھا جائے جو اس دعویٰ کے ثبوت میں پیش کی گئی تو وہ صریحاً قرآنی قانون شہادت کے لحاظ سے ناکافی تھی۔ قرآن مجید کی رو سے یا تو دو مردوں کی شہادت معتبر ہے یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت۔ جناب سیدہ (اگر یہ قصہ درست مانا جائے) صرف ایک عورت، یا ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی لائی تھیں۔ اس صورت میں قانون کے خلاف فیصلہ کیسے کیا جا سکتا تھا؟ کیا شخصیتوں کو دیکھ کر شہادت کا شرعی نصاب بدل دیا جاتا؟
اس کے بعد یہ مسئلہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں دوبارہ اٹھا۔ ان کی خلافت پر دو سال گزر چکے تھے کہ حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ نے ان کے سامنے رسول اللہﷺ کے ترکے کا مسئلہ پیش کیا، اور انہوں نے خیبر و فدک کو مستثنیٰ کر کے مدینے والی جائداد دونوں صاحبوں کی تولیت میں اس شرط پر دے دی کہ وہ اس کی آمدنی انہی مصارف میں صرف کریں گے جن میں حضورﷺ اپنی حیات طیبہ میں فرماتے تھے۔ لیکن اس کے بعد حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ کے درمیان اس جائداد کے انتظام پر نزاع واقع ہوگئی اور وہ اس قضیے کو لے کر حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے۔ اس کا نہایت مفصل بیان مالکؓ بن اوس بن حدثان کے حوالہ سے تمام معتبر کتب حدیث میں روایت ہوا ہے۔
حضرت مالکؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کے حاجب نے آکر عرض کیا کہ عثمان بن عفانؓ، عبدالرحمٰن بن عوفؓ، زبیر بن العوام اور سعد ابی وقاصؓ حاضری کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اجازت دے دی اور وہ تشریف لے آئے۔ اس کے تھوڑی دیر بعد وہ پھر آیا اور اطلاع دی کہ عباسؓ بن عبدالمطلب اور علیؓ بن ابی طالب تشریف لائے ہیں اور وہ بھی اجازت کے طالب ہیں۔ حضرت عمرؓ کے اجازت دینے پر دونوں صاحب اندر تشریف لے آئے اور سلام کے بعد بیٹھتے ہی حصرت عباسؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین، میرے اور اس کے (اپنے بھتیجے حضرت علیؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) مقدمے کا فیصلہ فرما دیجئے۔ اس کے ساتھ چچا نے بھتیجے کے حق میں کچھ سخت سست الفاظ بھی استعمال کئے۔ دوسرے حاضرین نے کہا واقعی امیر المومنین، ان کا قضیہ بہت طول کھینچ گیا ہے، آپ انہیں اس جھگڑے سے نجات دلائیے۔ حضرت عمرؓ نے کہا ٹھہرئے، میں آپ صاحبوں کو اس خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ’’ہماری وراثت جاری نہیں ہوتی، جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے‘‘۔ چاورں مصاحبوں نے کہا، ہاں حضورﷺ نے ایسا ہی فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ کو اسی طرح اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا، کیا آپ دونوں صاحب جانتے ہیں کہ حضورﷺ نے ایسا اور ایسا فرمایا تھا؟ دونوں نے جواب دیا جی ہاں، واقعی حضو ر ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا، اچھا اب میں آپ لوگوں کو اس معاملے کی حقیقت بتاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فے کے معاملے میں اپنے رسولﷺ کو وہ مخصوص اختیارات عطا فرمائے تھے جو کسی دوسرے کو عطا نہیں فرمائے۔ پھر سورہ حشر کی آیت وما افاء اللہ علی رسولہ آخر تک تلاوت کرکے حضرت عمرؓ نے فرمایا، اس آیت کی رو سے یہ اموال فے، خالصۃً رسول اللہﷺ کے لئے تھے۔ مگر خدا کی قسم! حضورﷺ نے آپ لوگوں کو چھوڑ کر ان سب کو اپنے لئے نہیں سمیٹ لیا اور نہ ان کے معاملے میں کوئی خود غرضی برتی، بلکہ انہیں آپ ہی لوگوں میں تقسیم کردیا، یہاں تک کہ تین جائدادیں (مدینہ، فدک اور خیبر والی) بچ گئیں۔ ان جائدادوں میں سے حضورﷺ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا سال بھر کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی ساری آمدنی انہی کاموں میں صرف فرماتے تھے جن میں اللہ تعالیٰ کا مال صرف کیا جاتا ہے۔ یہی حضورﷺ کا عمل ان اموال کے معاملے میں زندگی بھر رہا ہے۔ میں آپ لوگوں کو خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ یہ بات آپ سب لوگوں کے علم میں ہے؟ چاروں مصاحبوں نے جواب دیا جی ہاں۔ پھر حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ سے مخاطب ہو کرکہا، میں آپ دونوں کو بھی خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، آپ یہ بات جانتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، جی ہاں ہم جانتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو اٹھا لیا اور ابوبکر نے یہ کہہ کر کہ اب میں رسول اللہﷺ کا ولی ہوں، ان اموال کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ان کے معاملے میں اسی طریقے سے عمل کیا جس طرح رسول اللہﷺ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس میں ابوبکرؓ بالکل سچے تھے اور ٹھیک ٹھیک حق کے تابع تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکرؓ کو بھی اٹھا لیا اور میں ان کا ولی ہوا۔ میں نے اپنی امارت کے پہلے دو سال تک اموال کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسی طرح عمل کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرؓ کرتے تھے۔ اللہ جانتا ہے کہ میں بھی اس میں سچا اور تابع حق تھا۔ پھر (حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا) آپ دونوں صاحب میرے پاس آئے اور آپ نے مجھ سے اس جائداد کے معاملے میں گفتگو کی۔ اس وقت آپ دونوں کے درمیان اتفاق تھا۔ اے عباسؓ! آپ نے مجھ سے اپنے بھتیجے کی میراث طلب کی، اور اے علیؓ! آپ نے مجھ سے اپنی بیوی کے واسطے سے ان کے والد کی میراث مانگی۔ میں نے آپ سے کہا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے لا نورث ما ترکنا صدقۃ لہٰذا اگر آپ چاہتے تو میں اس شرط پر یہ جائداد آپ کے حوالے کرسکتا ہوں کہ آپ اس میں اسی طرح عمل کریں جس طرح رسول اللہﷺ اور اس کے بعد ابوبکرؓ عمل کرتے رہے اور خلیفہ ہونے کے بعد سے عمل کر رہا ہوں۔ لیکن اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو مجھ سے اس معاملہ میں بات نہ کیجئے۔ پھر حضرت عمرؓ نے چاروں مصاحبوں کو خدا کا واسطہ دے کر پوچھا کیوں حضرات! میں نے اسی شرط پر یہ جائداد ان دونوں اصحاب کے حوالہ کی تھی؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ کو بھی اسی طرح خدا کا واسطہ دے کر پوچھا کہ اس جائداد کو حوالے کرتے وقت میری یہی شرط تھی؟ انہوں نے بھی اسے تسلیم کیا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا، اب آپ چاہتے ہیں کہ میں اس سے مختلف فیصلہ کر دوں۔ اس خدا کی قسم جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، میں کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کروں گا، اگر آپ اس شرط پر عمل نہیں کر سکتے تو یہ جائداد میرے حوالے کر دیجئے، میں اس کا انتظام کرلوں گا۔
یہ ہے اس معاملے کی پوری تاریخ جو حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں پیش آئی۔ اسے دیکھ کر ہر شخص خود رائے قائم کرسکتا ہے کہ اس معاملے میں جو کچھ کیا گیا تھا، وہ ظلم تھا یا عدل اور حق؟ اس کے ساتھ دو باتیں اور بھی ہیں جو صحیح رائے قائم کرنے کے لئے نگاہ میں رکھنی چاہئیں:
اول یہ کہ اصل بحث صرف یہ تھی کہ اس جائداد کو نبی ﷺ کے بعد میراث میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یا نہیں، یہ بحث نہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے اہل و عیال اور قرابت داروں کو بیت المال سے نفقہ پانے کا حق ہے یا نہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے خود اپنی ذات اور اپنے خاندان والوں سے بدرجہا زیادہ ان حضرات کی خدمت کی۔ ان کے حق کو ہر دوسرے حق پر مقدم رکھا اور جو وظائف ان کے لئے جاری کئے، وہ خیبر اور فدک اور مدینہ طیبہ کی جائدادوں کے محاصل سے کہیں بڑھ کر تھے۔
دوسری بات جو اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے، بلکہ اس مسئلے میں فیصلہ کن ہے، وہ یہ ہے کہ خود سیدنا حضرت علیؓ جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی اس جائداد کو رسول اللہﷺ کی میراث قرار دے کر وارثوں میں تقسیم نہیں کیا بلکہ اسے بدستور وقف فی سبیل اللہ ہی رہنے دیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ واقعی میراث ہی تھی تو حضرت علیؓ کے لئے اپنے زمانہ اقتدار میں وارثوں کو اس سے محروم رکھنا کیسے جائز ہوگیا ؟ اسے ظلم ہی کہنے کو کسی کا جی چاہتا ہو تو پھر اسے اتنا انصاف تو کرنا ہی چاہئے کہ جس جس نے اس کا ارتکاب کیا ہے، ان سب کو ظالم کہے۔ ایک ہی فعل پر کسی کے حق میں ایک فیصلہ اور کسی دوسرے کے حق میں دوسرا فیصلہ کرنا حق پرست آدمی کا کام نہیں ہے۔
سید ابو الاعلی مودودی رحمت اللہ علیہ
( ترجمان القرآن۔ نو مبر ۱۹۵۸ء)