تختِ بلقیس اور قرآن از قاری محمد حنیف ڈار
جب قرآن پڑھنے بیٹھیں تو اس سے استفادے کا طریقہ یہ ھے کہ اسے خالی الذھن ھو کر پڑھنا چاھیئے تا کہ وہ ھمیں کچھ سمجھا سکے ، سکھا سکے ،، ھوتا یہ ھے کہ آپ جب آٹو کوریکٹ کی حالت میں کچھ لکھتے ھیں تو آدھا آپ لکھتے ھیں اور باقی سافٹ وئیر تجویز کر دیتا ھے ،، اسی طرح ھوتا یہ ھے کہ ھم جسے قرآن پڑھنا کہتے ھیں وہ اصل میں ھمارے ذھن کا آٹو کوریکٹ سافٹ ویئر پرانی سنی ھوئی کہانیوں کو ھی ھمارے دماغ کی اسکرین پہ لکھتا چلا جاتا ھے اور ھم اسی کو او کے کرتے چلے جاتے ھیں ،، یوں کچھ بھی نیا ھمارے علم میں نہیں آتا ، بلکہ ھم کسی دوسرے کی بتائی ھوئی نئ بات کو بھی غلط کہتے ھیں کیونکہ وہ ھمارے اٹو کوریکٹ سسٹم کو قبول نہیں ھوتا ،،،،،،،،،،،،،،،،
اسی طرح اپنی لکھی ھوئی تحریر کی ایڈیٹنگ خود نہیں کی جا سکتی ،،لکھی گئ غلطی کو ھمارا دماغ ھیشہ درست ھی پڑھتا ھے اگرچہ کاغذ یا اسکرین پہ اس کے اسپیلنگ غلط بھی لکھے ھوں ،کیونکہ جہاں سے وہ نکلے ھیں وھی تو ان کو کاونٹر چیک کر رھا ھوتا ھے ،،،،،،
ملکہ بلقیس کے تخت کا قصہ بھی نہایت سادہ ھوتے ھوئے بھی انتہائی پیچیدہ بنا دیا گیا ھے ،، بلکہ اس کی بنیاد پر کئ فلسفے جنم لے چکے ھیں ،،، حضرت سلیمان علیہ السلام نے نہایت ایزی موڈ میں اپنے درباریوں سے کہا کہ بلقیس کے پہنچنے سے پہلے اس کا تخت کون لائے گا ؟ آپ بلقیس کو اسی کے تخت پر بٹھا کر سرپرائز دینا چاھتے تھے ،، یہ کوئی چوری نہیں تھی ، چوری کا مال مالک کے سامنے کوئی نہیں لا کر رکھتا ،، بلکہ آپ بتانا چاھتے تھے کہ جس قوت سے تمہارا مقابلہ ھے وہ کس درجہ فعال سروس رکھتی ھے ، انسانوں میں سے کوئی بھی نہیں بولا ،،، ایک عفریت جن یعنی جنوں کا ڈان بولا کہ انا آتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک ،، میں اسے آپ کو لا دیتا ھوں اس سے پہلے کہ آپ دربار کو برخواست کریں ،،، مگر جو جملہ اس نے سوال کا جواب دینے کے بعد کہا وہ اس کے تکبر کا مظھر تھا ،کسی نبی کے سامنے اس قسم کی جرأت گستاخی کے زمرے میں آتی ھے ، اللہ کے رسول ﷺ ایک عام فھم سوال کیا کرتے تھے مگر صحابہؓ فرمایا کرتے تھے کہ ” اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ھیں ” یہی ادب کا تقاضا ھوتا ھے ،،،
اس کے اس جملے نے کہ ” و انی علیہ ” لقویۤ ” امین ،،، اور میں اس معاملے میں بڑا ھی طاقتور اور امین ھوں یعنی لے کے بھاگ نہیں جاؤنگا ،،، حضرت سلیمان اسے ایک ھی ھلے میں دونوں باتوں کا جواب دینا چاھتے تھے ،، پہلا یہ کہ آپ نے فرمایا کہ میں اسے لائے دیتا ھوں تیرے پلک چھپکنے سے بھی پہلے اور لا کر رکھ دیا ،،، دوسرا یہ کہ اگر تم لے کر بھاگ بھی جاتے تو تمہیں تخت سمیت واپس لانا ھمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا ،، علامہ محمد متولی الشعراوی فرماتے ھیں کہ ” حضرت سلیمان نے زبانِ حال سے اسے پیغام دیا کہ ” لا تبالغ فی قواتک ایھا الجنیۜ،، نحن بنی انسان اقوی منک بکثیر ،، ” اپنی طاقت کے بارے میں زیادہ ڈینگ مت مارو جن کے پتر ،، ھم آدم کی اولاد تم سے زیادہ طاقتور ھیں ،، ( اسی لئے اللہ نے بار رسالت کے لئے بنی آدم کو چنا ھے )
قرآن صاف اور دوٹوک انداز میں کہتا ھے کہ ” قال الذی عندہ علمۤ من الکتاب ،، کہا اس نے جس کے پاس الکتاب کا علم تھا ،،، اور بھرے دربار میں الکتاب کی حامل ایک ھی ھستی تھی اور وہ ھستی تھی حضرت سلیمان علیہ السلام کی کہ جن پر الکتاب نازل ھو رھی تھی ،، اگر اس دربار میں کوئی اور صاحبِ کتاب ھوتا تو اللہ پاک فرماتے کہ قال من الذین عندھم علمۤ من الکتاب ،،، ان لوگوں میں سے کہ جن کو الکتاب کا علم دیا گیا تھا ایک شخص نے کہا ،، یہ طے ھے کہ اس دربار میں الکتاب کے علم والا ایک ھی بندہ تھا ،، کوئی دوسرا نہیں تھا ،، اگر آصف برخیاہ کو وہ بندہ ماننا ھے تو یہ بھی مان لیں کہ پھر وحی بھی اسی پہ نازل ھوتی تھی ، سلیمان علیہ السلام کوئی علم الکتاب نہیں رکھتے تھے ،، اس لئے جب ایک لمحے میں وہ عرش منتقل ھوا اور اللہ پاک نے اپنے بندے کی بات کو سچ کر دکھایا تو آپ نے اللہ کی تعریف کی اور فرمایا کہ یہ بہت بڑی آزمائش تھی کہ جس مین اللہ پاک نے میری عزت رکھ لی اور ” تا کہ میرا امتحان لے کہ میں اس احسان پر اللہ کا شکر کرتا ھوں ، یا ناشکری کر کے ( اپنی طاقت اور شکتی کی شیخیاں مارتا ھوں ) بے شک جو شکر کرتا ھے اپنے بھلے کے لئے کرتا ھے اور جو ناشکری کرتا ھے تو میرا رب بڑا بے پرواہ بڑا کرم والا ھے ( اکر غنی اور کریم نہ ھوتا تو اے جن تجھے تیری ڈینگ پہ ضرور کوئی سزا دیتا )(”قال الذی عندہ علم من الکتاب انا آتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک فلما رآہ مستقراً عندہ قال ھٰذا من فضل ربی لیبلونی أ اشکر ام اکفر و من شکر فانما یشکر لنفسہ و من کفر فان ربی غنی کریم”
اس پوری گفتگو میں تیسرا کوئی بندہ داخل ھی نہیں ھوا ،، جن کا یہ کہنا کہ میں اس وقت تک لا سکتا ھوں جب تک کہ آپ کا دربار برخواست ھو ،، ساتھ ھی یہ شیخی بھگارنا کہ یہ مت سوچیں کہ میں اتنا بڑا کام کیونکر کر لوں گا جسے انسان کرنے سے عاجز ھیں اور نہ یہ گمان کریں کہ میں عرش لے کر فرار ھو جاؤنگا ،، انی علیہ لقوی امین ،، میں اس کام کے کرنے کے لئے بہت قوت رکھتا ھوں اور امین ھوں ،، علم کتاب والا کہتا ھے کہ جناب جن صاحب آپ شام تک لانے کا صرف وعدہ فرما رھے ھیں اور اس پر اپنی قوت کی شیخی بگھار رھے ھیں جب کہ ھم ابھی کے ابھی کیئے دیتے ھیں اور یہ وعدہ بھی نہیں مجھ سے پلٹ کر تیری نظر ابھی جائے گی نہیں کہ وہ عرش آ جائے گا اور تجھے دوبارہ اس کو دیکھنے کے لئے نظر ڈالنے کی زحمت بھی نہیں ھو گی ،، اس کے ساتھ ھی وہ عرش ان کے پاس پڑا تھا ،، پھر جب اس عرش کو اپنے پاس دیکھا تو وھی بولا جو تخت کو لایا تھا کہ یہ میرے رب کے فضل سے ممکن ھوا ھے میری قوت کا کمال نہیں ھے ،، میرا رب یہی دیکھنا چاھتا تھا کہ میں اس کام کو اس کے فضل کی طرف منسوب کر کے شکر کی روش اختیار کرتا ھوں یا اپنی طرف منسوب کر کے ناشکری اور احسان فراموشی کی روش اختیار کرتا ھوں ،، اسی لئے قال کے بعد قال ھی آتا چلا جا رھا ھے کوئی تیسرا داخل ھوتا تو لازماً و قال آتا کیونکہ کلام کے تسلسل میں ھی پھر آگے قال نکروا لھا عرشھا ،، آیا ھے کہ اس کے تخت میں ذرا تبدیلی کر کے ناقابلِ پہچان بنا دو تا کہ ملکہ کچھ غور کے بعد ھی اس کو پہچان سکے ،جبکہ ھم اسے اس طرف متوجہ کریں نہ کہ آتے ھی پہلی نظر میں پہچان کر ھم پہ چوری کا الزام دھر دے ،، اس لئے قال الذی عندہ علم من الکتاب کے بعد قال ھذا من فضل ربی اور قال نکروا لھا عرشھا ،، ایک تسلسل کے ساتھ چل رھے ھیں ،،
اب رھا یہ سوال کہ اللہ پاک نے سیدھا سلیمان علیہ السلام کا نام ھی کیوں نہیں لے دیا ؟ تو اس کا جواب علامہ شعراوی یوں دیتے ھیں کہ اللہ پاک نے اسے سلیمان علیہ السلام کی بجائے علم الکتاب کی طرف ریفر کیا کیونکہ یہ سلیمان علیہ السلام کا ذاتی کمال نہیں تھا بلکہ کتاب اللہ کا معجزہ تھا ، جو اس کے ذریعے سرزد ھوا اور اسی وجہ سے وہ اس کا اعتراف کر رھے ھیں کہ ” ھذا من فضلِ ربی ” اس جن کی طرح یہ نہیں کہا کہ میں بڑا قوی ھوں ” اس کی گواھی خود قرآن سے بھی ملتی ھے کہ جب اللہ پاک نے فرمایا کہ ، قرآن میں یہ طاقت ھے کہ اس کے ذریعے پہاڑ بھی چلائے جا سکتے تھے ، زمینی فاصلے بھی طے کیئے جا سکتے تھے اور مُردوں سے اس کے ذریعے گفتگو بھی کی جا سکتی تھی ،، مگر اللہ نے یہ سارے کام اپنے ھاتھ میں رکھے ھیں ،، اس کے بعد کسی اور کے کلام میں یہ خاصیت کیسے ھو سکتی ھے کہ اس سے یہ کام سر زد ھوں ،،
ولو أن قرآنا سيرت به الجبال أو قطعت به الأرض أو كلم به الموتى بل لله الأمر جميعا( رعد-31)
یہ سیدھی سادی بات ھے اس کے لئے زیادہ تکلف کر کے آصف بن برخیاہ کو اسم اعظم سونپنے اور ایک نیا طلسم تخلیق کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ،،،،،،،،،،