نیکی اور بدی کی اقسام اور اثرات، تحریر قاری حنیف ڈار

جس طرح انسان کے مادی وجود اور زندگی کے لئے آکسیجن ضروری ھے اسی طرح اس کے اخلاقی وجود اور روحانی زندگی کے لئے اس کی مجبوری ھے کہ نیکی کا کوئی نہ کوئی تصور وہ پالے ، اور اپنے آپ کو نفسیاتی ڈوز دیتا رھے کہ بہرحال اس سے جتنا بن پڑتا ھے وہ نیکی کر رھا ھے،،کم از کم فلاں سے تو زیادہ کر رھا ھے،، برا ھے تو کم از کم فلاں جتنا برا تو نہیں ھے،،ھر شخص اپنے سے کم نیک اور اپنے سے زیادہ برے شخص کا ایک فوٹو اپنے آرکائیو یا ریکارڈ میں رکھتا ھے کہ جس سے وہ اپنے ملامت کرنے والے نفس کو مطمئن کرتا ھے کہ بھائی اگر اللہ فلاں کو معاف کر دے گا تو مجھے بھی معاف کر دے گا!

وہ ریڈ ایریا جہاں کے بارے میں ھم یہ سمجھتے ھیں کہ وھاں نیکی کا کوئی گزر نہیں ھو گا وھاں بھی نیکی اپنی کسی نہ کسی صورت میں موجود ھے ! وہ محرم کے ابتدائی دس دن کوٹھے بند رکھتی ھیں – سبیلیں لگاتی ھیں، دس دن کالے کپڑے پہنتی ھیں،زنجیریں پہنتی ھیں،، مزاروں پہ دھمال فی سبیل اللہ ڈالتی ھیں اور کئی یتیموں کی کفالت کرتی ھیں،، کئی نادار بچوں کی فیس بھرتی ھیں! برائی کے بارے میں وہ سمجھتی ھیں کہ ھم بدکار ھیں مگر قاتل نہیں ھیں،، ھم نے کسی کی بچی کو ریپ ھونے سے بچا لیا ورنہ یہ درندہ کسی بچی کو خراب کر دیتا ،، پھر یہ کہ ھم کونسا ڈاکا ڈالتی ھیں،، لوگوں کا حق کھاتی ھیں،، وہ بھی ھیں جو میزابِ رحمت اور حطیم کے اندر جیب کاٹ لیتے ھیں، اللہ ان کو بخشے گا تو ھمیں بھی بخش دے گا ! ھم کونسا شوق سے آئی ھیں،، حالات لے آئے ھیں ،، اللہ چاھتا تو ھمیں ان حالات سے بچا لیتا – کوئی جانے نہ جانے حساب لینے والا ھمارے حالات و اضطرار سے بخوبی واقف ھے !

اس لئے انسانی زندگی کا کوئی کونا اس نیکی کے تصور سے خالی نہیں !

بقــدرِ پیمــانہءِ تخــیل ذوق ھــــر آدمـی میں ھے خـودی کا !
گر نہ ھو یہ فریبِ ھســـــــــــتی تو دم نکل جائے آدمی کا !

نیکی کی اقسام !

نیکی کی اجمالی طور پر دو قسمیں ھیں باقی ساری ذیلی قسمیں ان دو میں سے کسی ایک کی تابع ھیں !

،،،،،،،،،،،،،،،، لازمی نیکی اور متعدی نیکی ! ،،،،،،،،،،،،،،،،،

لازمی نیکی وہ ھے جس کا تعلق فرد کی ذات کے ساتھ لازم ھے ! دوسروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،، اور یہ صرف نماز ، روزے ، حج اور چند اذکار تک محدود ھے ! اگر کوئی نماز پڑھتا ھے تو اپنے بھلے کو پڑھتا ھے اس کا کسی پر احسان نہیں ھے ! اگر روزہ رکھتا ھے تو اپنے نفعے کو رکھتا ھے ،،کسی کا اس کے روزے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ کسی کا اس کے نماز اور روزے سے کوئی نفع ھے اور نہ ھی نماز روزہ ترک کرنے سے کسی دوسرے کا کوئی نقصان ھے ! اس میں ان کے نتائج اگر وہ نکلیں جو اس لازمی نیکی کو متعدی نیکی میں تبدیل کریں ،، لازمی نیکی متعدی نیکی کے لئے جینریٹر کا کام کرے تب تو دوسرے افراد اس کی تعریف کریں گے ! لیکن اگر نماز روزہ فرد سے شروع ھو کر فرد پر ھی ختم ھو جائے اور سماج تک اس کے مثبت اثرات نہ پہنچیں تو معاشرے کے نزدیک اس نیک آدمی کی کوئی ویلیو نہیں ھوتی البتہ وہ اپنے آپ کو حاجی صاحب یا صوفی صاحب کہلوا کر خوش ھوتا ھے تو ھوتا رھے !

متعدی نیکی !

وہ نیکی ھے جو سماجی نیکی ھے ! وہ آگے پھیلتی اور نہ صرف دوسروں کو مادی فائدہ پہنچاتی ھے بلکہ فرد کی ذات کو بھی لوگوں کے لئے قابلِ قبول بناتی ھے ! یاد رکھیں اگر ھمیں دین کا کام کرنا ھے،، دعوت و تبلیغ کرنی ھے،، لوگوں کو بدعت و شرک سے روکنا ھے تو پھر سب سے پہلے اپنی ذات کو لوگوں کے لئے قابلِ قبول بنانا ھو گا ! لوگ جب تک آپ کی ذات کو قبول نہیں کریں گے وہ آپ کی بات کو ھر گز، ھر گز قبول نہیں کریں گے،،نبی کریم ﷺ نے کوہ صفا پر اپنی بات سے پہلے اپنی ذات کو پیش کیا تھا !! جس طرح ھماری نماز ھم سے شروع ھو کر ھم پر ختم ھو جاتی ھے ،، اسی طرح ھماری بات بھی ھم سے شروع ھو کر ھم پر ختم ھو جاتی ھے !
متعدی نیکی کی ڈھیر ساری قسمیں ھیں جن میں لوگوں کے دکھ درد میں شریک ھونا ، ان کی مالی اور اخلاقی مدد کرنا ،،بیماروں کی نہ صرف تیمارداری کرنا بلکہ اگر وہ غریب ھیں تو ان کو علاج کے پیسے فراھم کرنا ،، کنوئیں اور تالاب بنانا ،، اگر کسی بندے نے حق بات کی ھے اور لوگ اس کے خلاف کھڑے ھو گئے ھیں تو اس وقت اس کے ساتھ کھڑے ھو جانا اگرچہ اس کے مخالف آپ کی برادری کے لوگ ھوں ،، بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کرنا ،، غریبوں کی بچیوں کی شادی کے اخراجات میں ان کا ھاتھ بٹانا ،، کچا رستہ جہاں سے بارش وغیرہ میں لوگ گزرتے ھوئے مشکل کا شکار ھوتے ھیں انہیں پکا بنوا دینا ،، رستوں سے اذیت ناک چیزوں کو ھٹا دینا ،، ناراض لوگوں میں صلح کی کوشش کرنا ،، ھر گزرتے جانے اور انجانے شخص کو سلام کرنا ،، مسکرا کر ملنا ! پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا ،، رشتے داروں کے حقوق کا خیال رکھنا ! کسی جاب لیس آدمی کو اگر آپ کی کوشش اور سفارش سے جاب مل سکتا ھے تو اسے جاب دلانا ! اگر کسی کا بچہ بیمار ھے اور آپ کے پاس گاڑی ھے تو جھٹ پٹ اسے اسپتال پہنچانا ،، اگر اس کے علاج کے پیسے نہیں ھیں اور آپ کے پاس بھی پیسے نہیں ھیں ،مگر آپ کی شخصیت ایسی ھے کہ لوگ آپ کی گڈ وِل پر ادھار دے سکتے ھیں تو اپنی ذات کو بیچ میں لا کر اسے ادھار لے کر دینا ،،یہ آخری مقام تو خاص الخاص ھے،، نہایت ھی مقدر والے کو نصیب ھوتا ھے،، اللہ پاک اپنی ھستی کو درمیان میں لا کر ایسے شخص کے سارے بوجھ قیامت کے دن اپنے خزانے سے ادا کر دے گا ! یہ نبی پاک ﷺ کی خاص الخاص سنت ھے کہ آپ دوسروں کی مدد کے خاطر لئے گئے قرض میں ھمیشہ مقروض رھے ! تا آنکہ آپ ﷺ وصال سے پہلے منبر پر بیٹھ کر آخری قرض ادا فرمایا !

عموماً دیکھا یہ گیا ھے کہ لوگ اپنی لازمی نیکی ،یعنی نماز روزے حج اور ریش مبارک پر ھی پھولے نہیں سماتے اور چاھتے ھیں کہ اس کی بنیاد پر لوگ انہیں جھک جھک کر سلام کریں ! اس نیکی کے بعد انہیں باقی نیکیاں حقیر لگتی ھیں جن کو ضرورت وہ محسوس نہیں کرتے !

نیکی کی طرح بدی کی بھی دو قسمیں ھیں !

لازمی بدی !

یہ وہ برائی ھے جس کا نقصان صرف اس بندے کی ذات کو ھوتا ھے ! دوسروں کا اس کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں ،، مثلاً ایک شخص نماز نہیں پڑھتا یا روزہ نہیں رکھتا یا استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا تو یہ اس کا ذاتی گناہ ھے، اس سے پڑوسیوں یا محلے والوں کا کوئی نقصان نہیں اور نہ انہیں اس کی کوئی پرواہ ھوتی ھے کہ کون نماز روزے کا اھتمام کرتا ھے اور کون نہیں ! دوسری جانب ستم ظریفی یہ ھے کہ ان لازمی بدیوں میں مبتلا شخص کو تو بہت برا سمجھا جاتا ھے،جن سے معاشرے کا کوئی نفع نقصان جُڑا ھوا نہیں ھے !

متعدی برائیاں !

مگر وہ برائیاں کہ جن سے معاشرے کے تار و پو بکھر کر رہ جاتے ھیں،، گھر برباد ھو جاتے ھیں ان کے بارے میں لوگوں میں کوئی خاص رد عمل دیکھنے میں نہیں آتا ، مثلاً حاجی صاحب ھیں وہ ھر اس چیز میں ملاوٹ کرتے ھیں جس میں وہ خود کر سکتے ھیں اور تھوک میں بھی کولڈ ڈرنکس سمیت ھر چیز نقلی اور جعلی خرید کر لاتے اور پوری قیمت پر بیچتے ھیں ! مگر معاشرہ ان کے حج کے سامنے سرنگوں نظر آتا ھے،، شادی بیاہ میں گواہ بھی دھڑلے سے بنتے ھیں اور مردہ اتارنے قبر میں بھی جھٹ چھلانگ لگا دیتے ھیں،،ان میں بھی اسی وجہ سے احساس گناہ نہیں ھے کہ لوگ انہیں جتلاتے بھی نہیں !
نشہ آور اشیاء بیچنا ،،ھم نے چرس کی بوریوں کے ٹھیئے پر باڑہ میں ایک ایسے بندے کو چوکڑی مار کر بیٹھے دیکھا ھے جس کے ماتھے پر سجدوں کی وجہ سے انڈے کے برابر گھٹہ پڑا ھوا تھا ! جعلی ادویات و استعمال شدہ سرنجیں بیچنا جن سے آگے جان لیوا امراض پھیلتے ھیں ، لوگ مرتے اور گھر اجڑتے ھیں ! چـوری چکاری اور ڈاکے ،جھوٹی گواھی اور خرد برد ! لوگوں کی زمینیں دبا لینا یا تجاوز کرنا ،، تجاوز تو ایسی قابلِ قبول لعنت بن گئی ھے کہ بیشتر مساجد تجاوز اور غصب کی زمینوں پر بنی ھوئی ھیں یا اس میں تجاوز کر کے کچھ نہ کچھ حصہ ڈالا گیا ھے،،مگر چونکہ یہ تجاوز فی سبیل اللہ ھے اس لئے علماء میں اس کی شناعت بھی نہیں پائی جاتی۔

https://urdu.i360.pk/نیکی-اور-بدی-کی-اقسام-پارٹ1،-تحریر-قاری/

https://urdu.i360.pk/نیکی-اور-بدی-کی-اقسام-پارٹ-2-،تحریر-قاری/

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.