لال میری پٹ جھولے لال

کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ جھولے لال حضرت شہباز قلندر کو کیوں کہا جاتا ہے۔ ہم شہباز قلندر کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ہیں کہ سوائے اس کے کہ وہ مخددوم بہاء الدین ذکریا کے مرید تھے، ان کا نام عثمان تھا اور غزنی کے محلہ سنجرانی میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ اچھے شاعر تھے اور ان کا کلام بھی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے متعلق جو کچھ ملتا ہے وہ مستند نہیں ہے۔ اس میں عقیدت کا رنگ ہے۔ جس میں مانوق الفطرت کہانیاں ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے جھولے لال سندھی ہندوؤں کے دیوتا کا نام ہے اور آج بھی سندھ اور بھارت میں لاکھوں افراد اسے پوجتے ہیں۔ جب آپ لال میری پٹ جھولے لال سنیں تو یہ نہیں سمجھیں کہ یہ مصرعہ شہباز قلندر کی شان میں گیت گایا جارہا ہے۔ یہ مصرعہ سندھی ہندوؤں کے دیوتا جھولے لال کے لیے کہا گیا ایک بھجن کا مصرعہ ہے۔ جسے بعد میں حضرت شہباز قلندر پر لکھے گیت میں شامل کیا گیا۔ جو اس قدر مقبول ہوا کہ شہباز قلندر کو لال شہباز قلندر کہا جانے لگا اور خاص کر نچلے طبقہ اور جہلا میں جھولے لال سے مراد شہباز قلندر سے لیے جاتے ہیں۔ آپ کو بہت سے چائے خانوں اور دوکانوں کے نام جھولے لال ملیں گیں۔ 
یہاں آباد ہونے والے ہندوؤں میں بشتر تاجر تھے جو تجارت کے لیے دور دراز کے سفر طہ کرتے تھے۔ انہیں اکثر ان سفروں میں سمندر اور دریاؤں کا سفر طہ کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے وہ جھولے لال کی پوجا کرتے تھے۔ یہ پانی کا دیوتا بھی تھا اور اڈیرو یا اندو لال بھی کہلاتا تھا اور اسے زندہ پیر کا نام بھی دیتے تھے۔ جس کا مندر ٹنڈو آدم کے قریب اڈیرو لال میں واقع ہے۔ دلچسپ بات یہ مسلمان حضرت خٖضر کو پانی کا مربی مانتے ہیں اور اس درگا کا خضر پیر یا زندہ پیر کی درگا بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت خضر زندہ ہیں اور وہ بھٹکے اور پانیوں رہنے والوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس درگا کے ایک حصہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہے اور دوسرے پر ہندوؤں کا۔ مسلمانوں کے حصہ کو خصر پیر کی درگا کہلاتی اور ہندوؤں کے حصہ پر یہ اڈیرو لال یعنی دریا کے دیوتا جھولے لال کی پوجا ہوتی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہیں لال شہباز قلندر کو لال اور جھولے لال کیوں کہا گیا۔ اس کے لیے ایک طویل بحث کی ضرورت ہے۔ 
ہم پہلے کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کہ مقامی باشندوں کے دلوں سے قدیم دیوتاؤں، مقامات اور خاندان جن کا قدیم مذہبی تقدس اور کہانیاں محو نہیں ہوئیں اور وہ مقامات جو ان کے نذدیک مقدس تھے انہیں مزارات میں تبدیل کردیا گیا۔ شہباز قلندر کے مزار کے بارے میں جیمز ٹاڈ تاریخ راجستان میں لکھتا ہے کہ شہباز قلندر کو ایک مندر کے وسط میں دفنایا گیا ہے اور مسلمان اور ہندو دونوں یہاں آتے ہیں۔ 
جمیز ٹاڈ سندھ نہیں آیا تھا بلکہ اس نے سندھ کا جائزہ لینے کے اس نے اپنے آدمیوں کو بھیجوایا تھا اور انہوں نے جو کچھ بتایا اس کی روشنی میں اس نے اخذ کیا ہے۔ اس کے کارندے مداری لال نے جیمز ٹاڈ کو بتایا کہ شہباز قلندر کو ایک مندر جو بھرتری کا مندر کہلاتا تھا دفنایا ہے۔ مسلمان اور ہندو دونوں اس کی پرستش کے بعد سالگرام (وشنو) کی پوجا کرتے ہیں جس کی قبر ایک غار میں ہے۔ جیمز ٹاڈ کو یہ تفصیل اس کے کارندے مداری لال نے بتائیں تھیں، جس اس نے سوہن کو بھیجا تھا۔ 
مداری لال نے جیمز ٹاد کو جو کچھ بتایا وہ اپنی جگہ درست ہے۔ کیوں کہ برصغیر میں ہندو اور مسلمانوں کی بہت سی رسومات مشترک ہیں، مثلاً مزار کو چومنا، سجدہ کرنا اور وہی احترام جو مندروں میں ہوتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سوہن دریا کے قریب ہی ہے۔ اس لیے قدرتی طور پر ہندو اور مسلمان قدرتی طور پر لال شہباز قلندر کو دریا کا نگہبان سمجھتے ہوں گے اور ہندو انہیں جھولے لال کا روپ سمجھ کر انہیں جھولے لال پکارتے ہوں گے۔ مزار کے باہر صحن میں ایک عمارت ہے۔ جو کہ پتھر کے ستونوں پر ایک گنبد بنا ہوا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ شہباز قلندر کی کشتی تھی۔ جس پر آپ سوہن آئے تھے۔ یہ روایات بھی لال شہباز قلندر کے دریا سے تعلق کو بتاتی ہے۔ آج بھی ہندو شہباز قلندر کا احترام کرتے ہیں اور اس مزار کی زیارت کو بھی جاتے ہیں۔ اس جھولے لال کو مسلمانوں نے بھی اختیار کرلیا اور انہیں لال شہباز قلندر کہا جانے لگا۔ 
تحقیق و ترتیب
(عبدالمعین انصاری)

چھولے لال
دوسرا حصہ
(کل ہم نے جھولے لال پر ایک مضمون قلمبند کیا تھا۔ اس بہت سے لوگوں نے سراہایا تھا اور کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تھا۔ مگر ان اعتراض کرنے والوں نے مجھ پر سنی سنائی اور غیر مستند باتوں کا الزام لگایا۔ میرا ان سے یہ کہنا ہے کہ میں غلط ہوں تو جھولے لال کی وضاحت کریں کہ شہباز قلندر کو کیوں کہا جاتا ہے۔ مگر اس کا کوئی جواب نہیں دیا جاریا ہے۔ اس سلسلے کی مزید معلومات جو کہ جھولے لال کے بارے میں ہیں پیش کر رہا ہوں)
جھولے لال سندھ کے ہندوؤں محبوب دیوتا یا بھگوان ہے یا اشٹ دیو ہے۔ سکندرنامہ میں ہے لکھا ہے کہ جھولے لال ہندو اور مسلمان دونوں میں قابل احترام ہیں۔ سکندر نامہ میں اس دیوتا کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دیوتا کبھی سبز رنگ میں ملبوس ایک بوڑھے آدمی طور پر نظر آتا ہے اور ایک مچھلی پر سوار ہوتا ہے۔ جس کا خاص دن چیتی چند کو چیتر (بکرمی ماہ) کے دوسرے دن آتا اور اس دن کو سندھی ہندو پوری دنیا میں مناتے ہیں۔ خاص کر بھارت میں یہ بڑے پیمانے پر سندھی ہندو مناتے ہیں۔ اس تہوار سے ایک دن پہلے طرح طرح کے خاص کر ٹھنڈے کھانے پکائے جاتے ہیں جنہیں کھٹری کہتے ہیں۔ جس کے معنی ٹھنڈے کے ہیں ۔ رات کو چولھے پوجا کی جاتی ہے اور پوجا کے بعد چولھا بجھایا جاتا۔ اس دن بیاہی بیٹیوں اور بہنوں کو خاص طور پر بلا کر اس تہوار میں شامل کیا جاتا ہے۔
دوسرے دن صبح اٹھ کر چھوٹے بڑوں سے اشیر باد لیتے ہیں، عمدہ لباس پہن کر اور تحفہ دیئے اور لیے جاتے ہیں۔ پھر جمع ہوکر کسی دریا، سمندر ندی یا باولی پر جمع ہوجاتے ہیں اور ماتا کی پوجا کی جاتی۔ اور پھر جلوس نکالے جاتے ہیں جس میں مختلف سوانگ بناکر اس میں شریک ہوتے ہیں۔ ایک شخص جھولے لال کا سوانگ میں گھوڑے پر سوار ہوتا ہے۔ جلوس میں عورتیں مٹکے جن میں پانی ہوتا ہے اور لال کپڑوں چڑھے ہوتے لیے ہوتی ہے اور عورتیں رقص کر رہی ہوتی ہیں۔ اس دن سمندر یا دریا کی یاترا کی جاتی ہے۔ جھولے لال کی پوجا کی جاتی ہے اور جھولے لال سے پرتھنا کی جاتی ہے کہ ان عزیز جو دور دیسوں میں سمندر پار تجارت لیے گئے ہوئے ہیں بحفاظت لوٹ جائیں۔ اس دن چولھا نہیں جلتا ہے۔ دوسرے دن کھانا نہیں پکایا جاتا اور ٹھنڈا کھانا ایک دن پہلے کا پکا کھایا تھا۔
سندھ جھولے لال کا سب سے بڑا مندر سکھر میں سادھو بیلہ کے جزیرے میں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے مسلمان اسے الخضر یا خواجہ خصر کہتے ہیں اور وہاں ایک جزیرے ان کا مزار بھی ہے اور مسلمانوں کے نذدیک ولی اور بزرگ تھے اور سکھر میں ہی دریا کہ کنارے ایک مزار جھولے لال کا ہے۔ یہ غالباً پہلے جھولے لال کا مندر تھا اور بعد میں اسے مزار میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب اسے صدر الدین شاہ کہا جانے لگا۔ زائرین یہاں کی زیارت کے بعد جزیرے میں کشتی کے ذریعے جاتے ہیں اور خواجہ خصر کی زیارت کے بعد کرتے ہیں۔ صدر الدین شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ محنت ان کی تھی اور نام شہباز قلندر کا ہوا۔ پنجاب اور خیبر پختون اور ناردن ایرا کے زائرین شہباز قلندر کے مزار سے پہلے صدر الدین شاہ کی زیارت کرتے ہیں۔
تہذیب و ترتیب
(عبدالمعین انصاری)

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.