اصحاب الکہف پر جدید ترین تحقیق اسکی اہمیت اور افادیت از راشد اقبال
غار کے لوگ ۔ قرآن کے آٹھارویں سورہ کہف میں ان کی تعداد 5،3 یا 7 بتائی گئی ہے۔ طبری اور دیگر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ لوگ مسیحی ہوگئے تھے اور بت پرستی سے انکار کرتے تھے۔ ایشیائے کوچک کے کسی شہر افسوس یا اسبُوس (پریوز) کے رہنے والے تھے اور بادشاہ دکیوس (249ء تا 251ء ) کے خوف سے شہر کے باہر ایک غار میں جا چھپے تھے۔ ان کا کتا بھی ان کے ساتھ تھا۔ خدا نے ان پر نیند طاری کردی اور 309 برس غار میں سوتے رہے۔اصحاب کہف بیدار ہوئے تو انھوں اپنے ایک ساتھی کو شہر کھانا لانے بھیجا۔ لیکن اس کے پاس پرانے زمانے کے سکے تھے۔ دکانداروں کو بڑی حیرت ہوئی۔ اور رفتہ رفتہ بادشاہ وقت کو جو عیسائی تھا اس واقعے کی خبر ہوئی۔ اس نے ان نصرانیوں کو بڑی عزت سے اپنے پاس بلوایا اور ان کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد یہ لوگ پھر غار میں جا کر سو گئے۔ عباس بن عبدالمطلب کی روایت کے مطابق اس کتے کا نام جو اصحاب کہف کے ساتھ غار میں گیا تھا قطمیر ہے[1]۔
موجودہ دور کے اسلامی اسکالر اور محقق راشد اقبال شعبہ اسلامی تعلیمات، جامعہ گورنمنٹ کالج لاہور،پاکستان، نے اصحاب الکہف کی مروجہ عیسائی روایت کا باریک بینی اور دقیق حوالہ جات کی مدد سے ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر اس روایت کو تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر رد کر دیا ہے۔انکی یہ تحقیق جون 2017 میں یورپ کے ایک بہت بڑے تحقیقی مجلے میں بعنوان "اصحاب الکہف کے اوپر بحر مردار کی دستاویزات کی بنیاد پر کی گئی جدید ترین تحقیق[2]” شائع ہو چکی ہے۔ اس تحقیق کے مقدمہ میں محقق یوں رقم طراز ہیں۔
فہرست
- 1مقدمہ
- 1.1تحقیقی مقالے کی اہمیت، افادیت اور وجہ تصنیف
- 2مقاصد
- 3اهداف
- 4تحقیقی مجّلے کے بورڈ کےممبران[5]
- 5خلاصہ
- 6اہم نقاط
مقدمہ
اصحابؒ الکہف کا قصہ بلاشبہ قرآن کریم کے چند اہم ترین موضوعات میں تصور کیا جاتا ہے۔ اس سورۃ کی شان نزول ہی اسکی اہمیت اور افادیت کی شاہد ہے۔ جسکی بدولت ایک طرف نبی کریمﷺکی شان نبوت کفار مکہ اور یہود مدینہ کے سامنے مزید نکھر کر سامنے آئی اور دوسری طرف انکے سوالات کا عظیم الشان جواب اللہ کریم نے سورہ الکہف کی صورت میں نازل فرمایا۔ اس واقعہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے ایک امر کا ادراک ضروری ہے کہ سورۃ الکہف کی آیات 9 سے 26 تک اللہ تعالی نے یہ واقعہ براہ راست بیان فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور جگہ اس واقعہ کا ذکر آتا ہے اور ناں ہی کسی حدیثﷺ میں اسکی کسی بھی لحاظ سے تصریح ملتی ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺکے وصال کے بعد تفسیری موضوع میں مسلم مفسرین کو کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی بنیادی طور پر دو وجوہات تھیں۔ ۱۔ یہ واقعہ غیر عرب اقوام سے تعلق رکھتا تھا اور خطہ عرب سے باہر واقع ہوا تھا۔ ۲۔ قدیم عرب مؤرخین اور مسلم علماء و مفسرین اس واقعہ سے کلی طور پر ناواقف تھے۔ اسکی روایت کرنے والوں متقدمین مفسرین میں اصحاب رسولﷺ حضرت عباس بن عبدالمطلب، حضرت عبداللہ ابن عباس اورحضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم کا ذکر ملتا ہے۔جبکہ اسکے اصل راوی درحقیقت یہودیت اور نصرانیت سے نومسلم تابعینؒ کرام تھے جو اسرائیلی علوم سے عمومی واقفیت کی بنیاد پر اسرائیلیات کے بنیادی مصادر تھے۔مثلا ان ہی تابعین میں ایک تابعی کعبؒ بن الآحبارکا نام کثرت سے ملتا ہے ۔ تدّبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو متآخرین نے اِنھی مصادر کی روایات کو اِنھی کے طریہد کے ساتھ یا بغیر کسی بیانِ سند کے اپنی اپنی تفسیری کتابوں میں محض نقل کردیا ہے اور پھر یہ واقعہ نقل در نقل ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ اسکو حقّانیت کی سند مل گی۔ اس واقعہ کا موجودہ عیسائیت سے دور دور کا واسطہ نہیں اور نا ہی یہ ایک عیسائی روایت ہے۔ یہی اس سورۃ کی عظمت ہے جو ایک طرف تو اس قصہ کی اصل حقیقت بتاتی ہے اور دوسری طرف یہ فہم و شعور کہ کیوں عیسائیت اس واقعہ کو گلے سے لگا کر بیٹھی ہوئی ہے[3]۔
تحقیقی مقالے کی اہمیت، افادیت اور وجہ تصنیف
بعثت نبوی ﷺکی تصدیق کے لیے نبوت کے درمیانی دور میں کفارمکہ نے یہودِ مدینہ سے رابطہ کیا اور جواباً مشیّت الٰہی کے تحت یہودِ مدینہ نے بھی اصحابؒ الکہف کے متعلق سوال اٹھا دیا۔ چاہے یہودِ مدینہ کی نیت نبی کریمﷺ کے دعویٰ نبوت کی حقّانیت کی تصدیق ہی تھی بحرحال مشیّت الٰہی انکی سوچ سے کہیں اگے تھی۔ اللہ بزرگ و بر تر نے اس واقعہ سے عیسائیت کے پیشروں کی 1600 سو سال پہلے کی جانے والی ریشہ دوانیوں کو اکیسویں صدی میں بحر مردار کی دستاویزات کے شواہد کی روشنی میں کھولنا تھا اور اس عظیم خدمت کے لیے مجھے چننا تھا۔ یہ یقیناً بڑا دعویٰ ہے مگراس مقالے کو عالمی سطح پر مستند تحقیق کا درجہ ملنا اس دعویٰ کی سچائی کا بیّن ثبوت ہے۔ اس تحقیقی مقالے کی رو سے اس واقعہ کی تین جہتیں ہیں۔ اولاً، تاریخی، دوئم، مذہبی، سوئم، علمی۔ان تین جہتوں پر ہی حقائق کی روشنی میں دلائل دیے گئے ہیں۔ اس قصے کی بے مثل افادیت جاننےکے لیےیہ فہم ضروری ہے کہ تقریباً تمام مروّجہ روایت کا بنیادی ماخذ عیسائیت سے مشتق ہے۔چنانچہ اس علمی کاوش کو دو جہتی تناظر میں سمجھنے کی اشّد ضرورت ہے۔ ۱۔ اس من گھڑت اسرائیلی روایت سے عیسائیت نے کیا پایا۔ ۲۔ اور مسلمانوں نے کیا کھویا۔ مقدمہ میں مقالے کی افادیت اور مسلمانوں کو پہنچائے گئے نقصان کی تفصیل بیان کرنا قطاًو مقصود نہیں صرف اجمالی ذکر ایک طرح کا توجہ دلاؤ نوٹس ہے۔ یہ مقالہ اول تا آخر اسی افادیت، اہمیت اور اثرات کو اجاگر کرنے کی کاوش ہے۔اگرچہ عظمت قرآن ایک مسّلم حقیقت ہے اور یہودِمدینہ کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات اسکی عظمت کے دلائل ہیں لیکن یہاں اس جواب کو عظیم الشان کہنا ایک مختلف پیرائے میں ہے۔ یہ پیرایا شاید اسلامی اسکالرشپ کی وسعتِ نظری سے بعید رہا۔ اسلامی علماء کرام کی اکثریت اس واقعہ کو ایک اسرائیلی روایت سمجھ کر نادانستگی میں من و عن تفسیر قرآن میں مزّین کرتے رہے۔ کچھ علماء نے تو پوری شد و مد کے ساتھ اس خود ساختہ عیسائی واقعہ کی باقاعدہ تبلیغ و ترویج کی۔ اسی لیے تقریباً تمام کتب تفاسیر میں اس واقعہ کا ذکر ایک عیسائی روایت کے طور پر ہی درج ہے مثلاً مشہور کتاب قصص الانبیاء میں مصنف سورۃ الکہف کی تفسیر میں یوں رقم طراز ہیں” کیوں کہ عرصہ ہوا یہاں کہ باشندوں نے شرک چھوڑ کر عیسائیت قبول کر لی ہے”۔ یہ مفسرین اس بات کو نظر انداز کر گئے کی تثلیثی عیسائیت اور حضرت عیسیؑ کے حواریوں میں عقیدے کا بنیادی فرق تھا اور عیسائی مبلیغین و مفسرین کے دعویٰ کا محور تثلیثی عیسائیت رہا ہے نا کہ توحیدی عقائد کا پرچار انکا مطلوب تھا۔ چنانچہ اس خود ساختہ اسرائیلی روایت کو اسلامی درجہ قبولیت کا ایک انتہائی غیرپسندیدہ اثر سامنے آیا جس کی حدت مسلم علماء کے سوا کوئی محسوس نہیں کر سکتا تھا۔ اس قبولیت کی بدولت مسیحی علماء اور موّرخین کو نبی کریمﷺ کی ذات اقدس پر کیچڑ اچھالنے کا ایک نادر موقعہ مل گیا۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ پر علمی چوری کے پہ درپہ الزامات عائد کر دیئے۔ مثلاً اٹھارویں صدی عیسوی کے سب سے بڑے عیسائی موّرخ ایڈورڈ گّبن نے یہ کہہ کر دشنام طرازی کی کہ ترجمہ ”اصحاب الکھف کی شہرت نا صرف عیسائی دنیا تک محدود تھی ۔ یہ کہانی مہومیٹ (محمدﷺ) نے اپنے شامی قافلوں کے دوران سیکھی اور بعد میں ایک وحی کے طور پر قرآن میں متعارف کردی”. علٰی ھذاٰ القیاس۔ ان مسیحی مؤرخین اور مستشرقین نے اپنے اپنے ادوار میں اس ناپاک جسارت میں حتی المقدور اپنا اپنا حصہ ڈالا اور دلائل سے یہ باور کرتے رہے کہ بالخصوص اس واقعہ کی رو سے قرآن اور نبی کریمﷺ موردِ الزام ہیں اور یہ کے اس واقعہ پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں تھا۔ یہ واقعہ زبردستی قرآن میں مذموم مقاصد کے لیے ٹھونسا گیا (نعوذباللہ و لعن اللہ علیہم اجمعین)۔بحرحال مسلمانوں پر علمی حملہ تو ہو چکا تھا۔ مستشرقین کا یہ الزام پوری شدومد کے ساتھ پوری اسلامی دنیا کی جامعات میں مسلم اسکالرز کو پی ایچ ڈی کی سطح تک پڑھایا جاتا ہے۔ مسلم علماء پر اسکا جواب ایک فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا تھا اور رکھتا ہے۔اس زمن میں سرسری جواب تو یہ دیا گیاکہ یہ محض ایک تعصب زدہ الزام ہے ۔ برسبیل مثال پیر کرم شاہ نے اپنی تفسیر ضیاءالقرآن میں لکھا ہے کہ ”ہاں ایک چیز ضرور قابل غور ہے۔ گبن نے بڑی گستاخی سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے کہ حضور کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ واقعہ اپنے شام کے تجارتی سفروں کے اثناء میں علماء اہل کتاب سے سنا اور اسے وحی الٰہی کہہ کر قرآن میں درج کر دیا۔ کیونکہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات جمیس کے مواعظ میں لکھی ہوئی تفصیلات سے کلی مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس لیے اس گستاخ اور منہ پھٹ مؤرخ نے سپہر علم و حکمت کے نیّراعظم پر بےعملی اور جہالت کا الزام لگایا۔ اس طرح اس نے یہ صرف حقیقت کا منہ چڑایا ہے بلکہ مؤرخ کے بلند مقام کو بھی تعصب کی غلاظت سے آلودہ کر دیا ہے”۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلم علماء محسن انسانیتﷺ پر لگائے گئے الزامات کی تہہ تک پہنچتے اور ان مسیحی مؤرخین کو مناسب علمی و تحقیقی جواب دیتے۔ اس سارے قصے میں یا مسیحی علماء کا دعوی سچا ہےیا قرآن سچا ہے۔ مسلم علماء نے یہ جوابِ دعوی بدقسمتی سے پچھلے کم و بیش ڈھائی سو سال سے داخل نہیں کیا جسکی بدولت سوائے الزام در الزام کے کوئی سود مند مقصد حاصل نہیں ہو سکا[4]۔
مقاصد
راقم الحروف نے دو مقاصد کے تحت اس کا جواب دینے کا بیڑا اٹھایا۔ 1۔ گبن اور مستشرقین کا قرآن اور محمدﷺ پر علمی چوری کا الزام رد کیا جائے۔ 2۔ یہ بتایا جائے کہ الزام لگانے والوں نے دراصل خود اس روایت عیسائیت کے فروغ کے لئے استعمال کیا۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے یہ جواب رائج الوقت دو ہی طریقوں سے دیا جا سکتا تھا۔ اولاً اسکو کتابی شکل میں شائع کر دیا جاتا۔ اس طریقہ کا سب سے بڑا نقصان تھا کہ یہ مصنف کی ذاتی رائے سمجھی جاتی اس جوابِ دعوی کو درجہ سند قطعاً حاصل نہیں ہوتا جو ہرگز مقصود نہیں تھا۔ اسی امر کی طرف میری توجہ میرے مہربان دوست ڈاکٹر عدیل صاحب نے کروائی جس پر میں نےاس موضوع پر کتاب لکھنے کے ارادے سے رجوع کر لیا۔ درجہ سند دینے کے لیے دوسرا طریقہ تھا کہ اس تحقیقی کام کو وقت کے نامور علماء (بشمول مسیحی علماء)کے سامنے کسی تحقیقی مجلے میں پیش کیا جاتاتاکہ علماء اسکو پرکھتے اور اپنی تمام تر علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس مقالے کے دلائل کو جانچتے۔ چنانچہ اس مقالے کو کسی تحقیقی مجّلے میں شائع کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ اس ارادے کو پایہ تکمیل پہنچانے میں بھی دو گانہ سوچ کار فرما تھی۔ ۱۔ کیا صرف کسی بھی سطحی مجّلے میں جوابِ دعوی ٰدائر کرنے پر اکتفا کیا جائے؟ ۲۔ یا انتہائی معیاری تحقیقی مجلے کا انتخاب کرکے ان مستشرقین کی زبان میں، انکے علمی و تحقیقی مراکز تک پہنچایا جائے تاکہ مقصد کماحقہ حاصل ہو سکے۔ کسی بھی علاقائی مجّلے میں یہ تحقیق شائع تو ہو جاتی مگر اس عظیم الشان تحقیقی کام کا معیار گر جاتا دوسرا یہ بھی ممکن تھا کہ یہ داخلِ دفتر ہو جاتا اور مسیحی علماء تک پہنچنے سے رہ جاتا اور اگر پہنچ بھی جاتا تو وہ اسکو یک جنبشِ قلم رد کر دیتے۔ان تمام امکانات سے بچنے کی واحد صورت تھی کہ تحقیقی مجّلے کے چناؤ میں انتہائی احتیاط برتی جائے اور کسی ایسے مجّلے کا انتخاب کیا جائے جس میں درج ذیل خصوصیات پائی جائیں۔ ۱۔وہ مجّلہ بین القوامی تحقیق کا علمبردار ہو۔ ۲۔ کسی اسلامی ادارے سے وابسطہ ہو تاکہ اسلامی جوابِ دعوی سمجھا جائے۔ ۳۔ غیر اسلامی مذاہب کے علماء اسکے ریویو بورڈ کے ممبر ہوں۔ ۴۔یورپ میں شائع ہوتا ہو اور یورپی اسکالرشپ اس سے استفادہ حاصل کرتی ہو۔ ۵۔ بین الاقوامی زبان میں ہو تاکہ محسن انسانیتﷺ پر لگائے گئے الزامات کا بھرپور جواب کھلے چیلنج کے ساتھ پوری دنیا کے علماء پڑھیں اور اسکو غلط ثابت کرنے کی اگر سعی کرنا چاہیں تو میدان میں اتریں۔ یہ صفات کسی بلند پایہ یورپی یونیورسٹی کے مجّلے میں پائی جاتی ہیں مگر چونکہ یہ جامعات پوائنٹ نمبر ۲ پر پورا نہیں اترتیں اس لیے اس عظیم تر سوچ کے ساتھ راقم الحروف نے’یونیورسٹی آف ملایا’ کےکثیرالاشعاعت مجّلے ”Al-Bayan Journal of Quran and Hadith Studies” کا انتخاب کیا۔یہ مجّلہ یورپ سے شائع ہوتا ہے اور بیش قیمت علمی ذخیرہ تصور کیا جاتا ہے۔اس بیش قیمت مجّلے کی قیمت 32 ہزار کے قریب ہے جس میں تقریباً چھے مقالے شامل ہوتے ہیں۔ اور اگر میرے اس ایک مقالے کو آن لائن پڑھنے کے لیے سرچ کیا جائے تو اسکی قیمت 3 ہزار سے کچھ اوپر ہے۔ قیمت لکھنے کا واحد مقصد عوام الناس کو مجّلے اور مقالے کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہےوگرنہ یہ انمول تحقیق ہے جسکا اجر صرف اللہ دے سکتا ہے۔ اسی خدمت لینے کے لئے اللہ نے مجھے اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کیا جہاں مجھ پر یہ ادراک ہوا کہ ان الزامات کا جواب دینا کتنا ضروری ہے۔ یہ تحقیقی کام میری آٹھ سالہ محنت شاقہ کا نچوڑ ہے اور اللہ نے اسکے لئے بالخصوص مدد فرمائی اور مجھے عربی زبان کی عمومی سمجھ سے روشناس کروایا ایسے حالات پیدا کئے کہ میں نے ایک قومی ادارے سے ایک سالہ عربی کا ڈپلومہ حاصل کیا اور اسکی بنیاد پر ایم اے عربی میں داخلہ لیا جو بوجوہ ہنوز نا مکمل ہے۔یہ تحقیق مکمل کرنے کے بعد بھی ایک سال سے زائد عرصہ تک یہ تحقیقی کام دنیا کی بلند پایہ جامعات کے بین المذاہب علماء اور محقیقن کے درمیان زیر بحث رہا ۔اسکا ہر پہلو سے جائزہ لیا جاتا رہا اور تحقیق کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا آخرکار جون 2017کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ جوابِ دعویٰ اب ایک سند کا درجہ رکھتا ہے اور اسکا رد کسی ایسی ہی سطح کے تحقیقی مجّلے سے ہوسکتی ہے جو الحمداللہ فی الوقت ممکن نہیں۔
اهداف
اس بین الاقوامی تحقیقی مقالے میں درج زیل اهداف حاصل کئے ہیں(الحمداللہ)۔ • مستشرقین کے قرآن اور محمد ﷺ پر علمی چوری کے الزامات یورپ کے معروف اسکالرز کے ریویوز کے بعد رد کیے جا چکے ہیں • یہ ثابت کیا ہے کہ اس واقعہ کا استحصال کر کے بت پرست یورپ میں عیسائیت کو پھیلانے کے لیےکامیابی سے استعمال کیا گیا • اسرائیلی روایت کی پرکھ اور جانچ کے لئےانتہائی آزمودہ کسوٹی دریافت کی ہے اور اسی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے یہ عیسائی روایت کھنگالی ہے • اصحاب الکہف پر نیا نظریہ دیا ہے جو موجودہ نظریات سے بالکل مختلف ہے. • بحر مردار کی دستاویزات کی تحقیق پر کاری سوالات اٹھا ئےہیں اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ انکی ٹائم لائن غلط اور عیب زدہ ہے • یہ تحقیقی پیپر بائیبل کے علماء کو متاثر کر یگا اور انکو چند انتہائی اہم امور پر جوابدہ بنائے گی۔ • قرآن کی تمام تفاسیر میں اصحاب الکہف کی شرح تبدیل ہو گی کیونکہ اس من گھڑت روایت کو قرآن میں جگہ دے کر مسلمانوں نے مندجہ بالا بہت بھاری قیمت ادا کی ہے.
تحقیقی مجّلے کے بورڈ کےممبران[5]
Al-Bayān – Journal of Qurʾān and Ḥadīth Studies Editor-in-Chief Dr. Monika Munirah Binti Abd Razzak Managing Editor Dr. Sedek Ariffin Editors Dr. Abdollatif Ahmadi Ramchahi & Dr. Faisal Bin Ahmad Shah (English articles) Dr. Sedek Ariffin (Arabic articles) Dr. Khadher Ahmad (Malay articles) Review Editor Dr. Abdollatif Ahmadi Ramchahi Editorial Board Prof. Dr. Zulkifli Bin Mohd Yusoff (University of Malaya, Malaysia)Assoc.
Prof. Dr. Syamsuddin Arif (Centre for Advanced Studies on Islam, Science and Civilization, UTM Malaysia)
Prof. Dr. Andrew Rippin (University of Victoria, Canada) Prof. Dr. Walid Saleh (University of Toronto, Canada) Prof. Dr. Sharaf Qudah (University of Jordan, Jordan) Prof. Dr. Oliver Leaman (University of Kentucky, USA) Prof. Dr. Mawil Izzi Dien (University of Wales Trinity Saint David, UK) Assoc. Prof. Dr. Ishak Bin Hj Suliaman (University of Malaya, Malaysia) Prof. Dr. Muhammad Khazir Saleh Al-Majali (University of Jordan, Jordan) Assoc. Prof. Dr. Gabriel Said Reynolds (University of Notre Dame, USA) Assoc. Prof. Dr. Mustaffa Bin Abdullah (University of Malaya, Malaysia) Dr. Mustafa Shah, SOAS (University of London, UK) Prof. Dr. Ahmad Hasan Farhat (University of Kuwait, Kuwait) Assoc. Prof. Dr. Fauzi Bin Deraman (University of Malaya, Malaysia) Prof. Dr. Abdallah El-Khatib (University of Sharjah, UAE) Dr. Andreas Goerke (University of Edinburgh, UK) Prof. Dr. Abu al-Layth al-Khayr Abadi (International Islamic University Malaysia, Malaysia) Prof. Dr. Thameem Ushama (International Islamic University Malaysia) Prof. Dr. Peter Riddell, SOAS (University of London, UK) Prof. Dr. Abdullah Saeed (University of Melbourne, Australia) Assoc. Prof. Dr. Halil Rahman Acar (Yıldırım Beyazıt University, Turkey) Dr. Emran el-Badawi (University of Houston, USA) [6]Dr. Mun’im Sirry (University of Notre Dame, USA) Dr. A.S.H.G. Boisliveau (University of Groningen, Netherlands)
خلاصہ
بحرِمردار کی دستاویزات کی ۱۹۴۷ء میں دریافت کی روشنی میں ہیکل ثانی کی یہودیت اور قدیم عیسائیت کے مروّجہ نظریات میں بنیادی تبدیلی لائی ہے۔ ابھی تک اسلامی محققین نے بحرِمردار کی دستاویزات کو در خور اعتناء نہیں سمجھا۔ اسکی وجہ شاید یہ تخّیل ہے کہ ان دستاویزات کا تعلق کلّی طور پر عیسائیت اور یہودیت سے ہے۔تاہم ان دستاویزات کی دریافت نے اس موضوع پر عمومی بحث و مباحثہ کا دروازہ ضرور کھولا ہے جو ایک اسلامی ردِ عمل کا تقاضہ کرتا ہے۔لیکن اس اہم موضوع کے مباعث ، اٹھائے گئے سوالات اور ممکنہ جوابات ابھی تک عدم توجہ کا شکار ہیں۔ چنانچہ اس لغوی خلاصے میں اصحابؒ الکہف کی تاریخ، انکی حقیقت اور فطری ماہیت مدلّل انداز میں بیان کی گئی ہے۔بحر مردار کی ان دستاویزات کو ہیکل ثانی کی یہودیت، قدیم عیسائیت،سلطنت رومہ کی تاریخ اور قرآن پاک میں پائے گئے حیران کن شواہد کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ اس جدید ترین مفّصل اسلوب کو ”پنج جہتی تقابلی موازنے سے استنباط”کہا گیا ہے اور یہ مروّجہ نقطہ ہائے نظر سےکلّی طور پر مختلف ہے [7]"۔ چنانچہ اس موازناتی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تاریخ میں پہلی بار بیک وقت اس دور میں موجود اہم تاریخی کرداروں کے باہم مدغم مفادات کا درست ادراک کرتے ہوئے موجودہ روایت کو مسترد کر دیا ہے۔ اور تاریخی شواہد سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ واقعہ کسی بھی طور سے بادشاہ دقیانوس کےدور250 عیسوی کا نہیں ہو سکتا۔
اہم نقاط
محقق مقالے کے تعارف میں لکھتے ہیں، "اس تحقیق کے دو بنیادی مقاصد ہیں ۔ اولاً گبن کے قرآن اور محمدﷺ کے متعلق قول کا ایک مفصل جواب ِدعویٰ دیا جائے،جب گبن نے دشنام طرازی کی کہ، "اصحاب الکفی کی شہرت صرف عیسائی دنیا تک محدودنہیں تھی ۔ یہ کہانی جو مہومیٹ (محمدﷺ) نے اپنے شامی قافلوں کے دوران سیکھی اور بعد میں ایک وحی کے طور پر قران میں متعارف کرادی "۔ ثانیاً، حالیہ دریافت شدہ بحرمردار کی دستاویزات کی روشنی میں تاریخی شواہد دکھائے جائیں کہ کس طرح اس وقت کے بت پرست یورپ میں عیسائیت کو پھیلانے کے لیےاس کہانی کی مددلے کر فائدہ اٹھایا گیا تھا[8]"۔ تجزئیے میں لکھتے ہیں کہ "”پنج جہتی تقابلی موازنے” کے نظریے کی بنیاد پر یہ ایک یہودی روایت ہے ناں کہ عیسائی روایت اور اگر مزید گہرائی سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ یہ ایک مسلم روایت ہے کیونکہ یہودیوں کا اسین طبقہ اس وقت خالصۃً مسلمان تھا۔ قرائن سے یہ لگتا ہے کہ اصحاب الکہف اسین معاشرے والے لوگ تھے جو فاریسیوں اور صدوقیوں سے جان بچا کر بھاگ رہے تھے ناں کہ مروجہ روایت والے بت پرست رومیوں سے[9]"۔
مزید ” ٹائم لائن کے اوپر قیاسی نظریہ:- تین ایسے ادوار گزرے ہیں جب یہودی قوم (فاریسی اور صدوقی ناشامل) کی حالتِ زار ناگفتہ بہ تھی جن کے متعلق قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اصحابؒ الکہف ان ادوار میں سے کسی ایک سے ہو سکتے ہیں:-
• پہلا دور حضرت عیسیؑ اور سینٹ اسٹیفن کے فوراً بعد کا دور یعنی 34ءسے آگے والا جب یہودی مذہبی افسر شاہی حضرت عیسیؑ کی مبینہ مصلوبیت، اسٹیفن اور جیمز کی سنگساری کے بعد بہت مضبوط تھی۔ • دوسرا دور یہودیوں کی بغاوت ثانیہ (جو مسادا میں انکی فیصلہ کن شکست سن 74ء پر اختتام پذیر ہوئی) سے آگے کا ہو سکتا ہے۔ • تیسرا دور یہودیوں کی بغاوت ثالثہ (وقوع پذیر سن 134ء) کے بعد کا ہو سکتا ہے جو دوبارہ یہود کی المناک شکست پر مرتکز ہوا۔ سنگساری کی واقعاتی شہادتوں، نبی حبقوق کی تشریح اور اسکے موازنے میں قرآن کے بتائے گئے "مکار شخص” اور اسکے "جھوٹ” کو مدِنظر رکھ کر اسکے علاوہ کوئی گنجائش نہیں بچتی کے یہ مانا جائے کہ اصحابؒ الکہف حضرت عیسیؑ کی رفع آسمانی کے فوراً بعد والے دور کے افراد تھے جو سینٹ اسٹیفن کے نقش قدم پر چل رہے تھے (اسٹیفن اس وقت تک عیسائی نہیں تھے)۔ ان لوگوں کی اس قربانی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ لوگ حضرت عیسیؑ کے مسلمان حواری تھے جنھوں نے اُسی بھری عدالت میں قاضیوں کے جرائم کو بے نقاب کیا جس عدالت نے حضرت عیسیؑ کی مبینہ مصلوبیت کی حمایت کی تھی۔یہ ان لوگوں کی حضرت عیسیؑ کے خدا پر ایمان کی اعلیٰ ترین گواہی ہے۔پیغمبر خداﷺسے ایک صحابی نے پوچھا، "سب سے افضل جہاد کونسا ہے؟”، اللہ کے رسولﷺ نے جواب دیا،” ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا "۔ سینٹ اسٹیفن اور جیمز نے ایسا ہی جہاد کیا۔اسی سچے دین پر حضرت عیسیؑ اور حضرت یحییؑ کے دور میں عمل ہو رہا تھا. سلطنت رومہ کے زیر سایہ یہودی سنگساری کے اپنے مذہبی قانون کو جیمز کی سنگساری تک پوری قوت سے استعمال کر رہے تھے۔اس قتل کے بعد یروشلم کا محاصرہ کر لیا گیا اور یہودیوں کو بغاوت میں عبرت ناک شکست ہوئی خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت مبینہ طور پر اس قانون کا ترجیحی اختیار یہودیوں سے لے لیا گیاتھا ۔سینٹ اسٹیفن،جیمز اور اسکے ساتھیوں کی سنگساری اور قرآن کی شہادت اس تخّیل کو رد کرتی ہے۔اس لیے قرآن کی دی گئی گواہی سے ان اصحابؒ کا دور رفع عیسیؑ کے بعد سے لے کر پہلی یہودی بغاوت 66ءکے دورانیہ کا عرصہ ہو سکتا ہے۔ قرآن کے بتائے گئے نیند کے وقت 309 سال کی بنیاد پر گمان قوی ہے کہ جب یہ نوجوان بیدار ہوئے تو 339ءسے 400ءکے درمیان کا عرصہ ہو گا۔یہ بالکل وہ وقت ہے جب تثلیثیت 381ء میں سلطنت رومہ کا سرکاری مذہب بن چکی تھی۔یہ وقت تھا جب پالن کی عیسائی سلطنت کو شدید طورپرحیات بعد از موت کا کوئی ایسا ثبوت چاہیے تھا جواس نئے مذہب کی حقانیت پراپنی بت پرست رعایا کو قائل کرنے کی نظریاتی برتری و بالادستی دے سکتا۔وہ بت پرست رعایا لازماً اس نئے مذہب کو اختیار کرنے میں شدید تذبذب کا شکارتھی۔اس سلطنت کو یہ موقعہ اصحابؒ الکہف کے دوبارہ اٹھنے (339ءتا 4000ء کے درمیانی دور) کا واقعہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر مل گیا۔ عیسائی پادریت ان نوجوانوں کے اٹھنے کی تاریخ سے تو کوئی گڑبڑ نہیں کر سکی لیکن جب انھیں یہ نادر موقعہ ہاتھ آگیا تو صاحب اقتدارہوتے ہوئے ان نوجوان کو دقیانوس کی عیسائیوں کے خلاف ظلم کی تحریک 2500ءکے ساتھ منسلک کر دیا تا کہ اسکو اپنایا جا سکے اور مذہبی بالادستی حاصل کی جا سکے۔یہ ممکن ہے کہ انکے اس عمل کی وجہ سے تذبذب کا شکار بت پرست یورپ آہستہ آہستہ عیسائیت کی طرف راغب ہو گیا۔ یہ "پنج جہتی تقابلی موازنے” سے استنباط ہے جو اس کہانی کے کرداروں کو اس کے اصلی حقداروں تک پہنچا دیتا ہے یعنی اسین معاشرہ۔یہ ہی ممکنہ وجہ ہے کہ عیسائیت اس قصہ کو اپنانے کے لیے بالکل اسی طرح دوڑ کھڑی ہوئی جس طرح انھوں نے سینٹ اسٹیفن کو اپنا پہلا شہید بنا ڈالا اور جیمز کو ایک سینٹ حالانکہ جب انھوں نے اپنی جانیں قربان کیں اس وقت عیسائیت کا (مذہب کے طور پر) کہیں دور دور تک بھی نام نہیں تھا (اور ناں ہی سینٹ پال کا کسی روح سے ٹاکرا ہوا تھا) ۔ یہ بجائے تھیوڈوسیس ثانی کے تھیوڈوسیس اول ( حکومت 347ءسے 395ء )کی من گھڑت دعا کے عین مطابق ہے ۔
مزید ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ” مسلم علماء اور مفسرین نے اصحابؒ الکہف کو بیان کرنے کے لیے من گھڑت عیسائی روایت کو قرآن کی تقریباً تمام تفاسیر میں داخل کیا۔یہ غلطی بنیادی طور پر ناگزیر وجوہات پر کی گئی۔اولاً، قرآن 18، 25 کی غلط تاویل، دوئم، "پنج جہتی تقابلی موازنے” کے اصول سے بالا بالا اسرائیلی روایت کی اندھا دھند تقلید۔ اس امر پر زور دیا جاتا ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے قرآن کی تمام تفاسیر سے "افسس کی روایت” کو فی الفور ہٹایا جائے۔ اصول یہ ہونا چاہیے کہ یہ اقتباس کی جا سکتی ہے(ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ مستشرقین کے نبی کریم ﷺ پر الزامات کے بعد اب اقتباس بھی نہیں کرنی چاہیے) لیکن اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔جس طرح اسرائیلیات سے متعلق عمومی اہتمام پایا جاتا ہے کہ ” اسرائیلیات کو توثیق کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن عقیدے کی بنیاد کے لیے نہیں”۔
اختتامی تبصرہ آخر میں بھرپور فخر کے ساتھ یہ امر دوہرایا جاتا ہے کہ اصحابؒ الکہف ایک شاندار اسلامی میراث ہے جب زندگی سے بھرپور نوجوان دنیا کی رنگینیوں کو چھوڑ کر صرف اپنا ایمان بچانے کے لیے غاروں میں چلے گئے۔بدنصیبی سے "پنج جہتی تقابلی موازنے” سے استنباط کی کمی کی بدولت صغرسن اسلام کے مفسرین اور مؤرخین لاشعوری طور پر اس من گھڑت اسرائیلی روایت کے اردگرد اکٹھے ہو گئے جو نوزائیدہ اسلام کے دانشوروں کو ہر طرف سے مل رہی تھیں۔اس طرح یہ خود ساختہ اسرائیلی روایت قرآنی تفاسیر میں داخل ہو نے میں کامیاب ہو گئی اور مسلم علماء نے اسے لاشعوری طور پر قبول کر لیا۔ لیکن جب اس روایت کوعمومی اسلامی قبولیت مل گئی ٹھیک اسی وقت مسیحی علماء و مستشرقین مثلاً گبن، فرانسس آینورتھ وغیرہ کو محسن انسانیت ﷺ پر علمی چوری کے الزام لگانے کا موقعہ مل گیا (نعوذباللہ)۔چنانچہ اس امرپر زور دیا جاتا ہے کہ اس نئی تحقیق کومستقبل کی تمام تفاسیر کا حصہ بنائی جائے تاکہ پہلے سے جعلی اورمن گھڑت اسرائیلی روایت سے چھٹکارا مل سکے۔ اگر مسلم علماء نے اس روایت کی پرکھ کی ہوتی تو مستشرقین کو نبی کریم ﷺ پر الزام لگانے کا موقعہ کبھی ہاتھ نہیں لگتا۔ اس لیے اب یہ مسلم علماء پر فرض اولین ہے کہ وہ اس نئی تحقیق کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر آگے پہنچائیں تاکہ مستشرقین کے محمد ﷺ پر ہجویہ الزامات کا جواب دیا جا سکے۔ [Brill Publisher 1][10]
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
حوالہ جات
- ↑ https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B5%D8%AD%D8%A7%D8%A8_%DA%A9%DB%81%D9%81
- ↑ http://booksandjournals.brillonline.com/content/journals/10.1163/22321969-12340044#
- ↑ http://deadseascrollsandislamicresponse.blogspot.com/2017/05/blog-post.html
- ↑ http://deadseascrollsandislamicresponse.blogspot.com/2017/05/blog-post.html
- ↑ http://booksandjournals.brillonline.com/content/journals/10.1163/22321969-12340044#
- ↑ Empty citation (معاونت)
- ↑ Rashid Iqbal, (2017). “A New Theory on Aṣḥāb al-kahf (The Sleepers of the Cave) Based on Evidence from the Dead Sea Scrolls (DSS)”. Al-Bayān – Journal of Qurʾān and ḤadĪth Studies 15 (2017). DOI 10.1163/22321969-12340044. pp. 20
- ↑ Rashid Iqbal, (2017). “A New Theory on Aṣḥāb al-kahf (The Sleepers of the Cave) Based on Evidence from the Dead Sea Scrolls (DSS)”. Al-Bayān – Journal of Qurʾān and ḤadĪth Studies 15 (2017). DOI 10.1163/22321969-12340044. pp. 21. Retrieved from http://booksandjournals.brillonline.com/content/journals/10.1163/22321969-12340044#
- ↑ Rashid Iqbal, (2017). “A New Theory on Aṣḥāb al-kahf (The Sleepers of the Cave) Based on Evidence from the Dead Sea Scrolls (DSS)”. Al-Bayān – Journal of Qurʾān and ḤadĪth Studies 15 (2017). DOI 10.1163/22321969-12340044. pp. 43
- ↑ Empty citation (معاونت)