الفاظ کا جادو تحریر:عبد الماجد دریابادیؒ
الفاظ کا جادو
تحریر:عبد الماجد دریابادیؒ
اگر آپ کا تعلق اونچے طبقے سے ہو تو کسی ”سرائے“ میں ٹھہرنا آپ کے لیے باعث توہین، لیکن کسی ”ہوٹل“ میں قیام کرنا ذرا بھی باعث شرم نہیں، حالاں کہ دونوں میں اس کے سوا کیا فرق ہے کہ ”سرائے“ مشرقی اور دیسی ہے اور ”ہوٹل“ مغربی او رانگریزی ہے؟ کوئی اگر یہ کہہ دے کہ ”سرائے“ کے فلاں ”بھٹیارے“ سے آپ کا یارانہ ہے تو آپ اس کا منھ نوچ لینے کو تیار ہو جائیں، لیکن فلاں ہوٹل کے منیجر کے درمیان بجز ایک کے دیسی اور دوسرے کے ولایتی ہونے کے او رکوئی فرق ہے؟ کسی مدرسے میں اگر آپ ”مدرس“ ہیں تو بات کچھ معمولی ہی ہے، لیکن کسی ”کالج“ میں آپ ”لیکچرار“ یا ”پروفیسر“ ہیں تو معزز اور صاحب وجاہت ہیں۔ حالاں کہ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے ”مدرس“ اور پروفیسر“ ایک ہی چیز ہیں۔
ندوہ کے ”دارالاقامہ“ میں اگر آپ قیام پذیر ہیں، تو آپ کا دل کچھ خوش نہیں ہوتا، لیکن اسی ” دارالاقامہ“ کا نام جب آپ ’شبلی ہوسٹل“ سنیں تو آپ کا چہرہ فخر وخوشی سے دمکنے لگتا ہے۔ ”مدرسہ“ میں اگر آپ پڑھتے یا پڑھاتے ہیں تو خود اپنی نظروں میں بے وقعت ہیں، لیکن اگر آپ کا تعلق کسی ”کالج“ سے ہے تو پھر آپ سے زیادہ معزز کون ہے؟ اس وقت ہر مدرسہ طبیہ اسکول اور مدرسہ تکمیل الطب اور مدرسہ منبع الطب، اب تکمیل الطب کالج او رمنبع الطب کالج ہیں۔ مدرسہ وہاجہ طبیہ کا زمانہ گیا، اب اس کا صحیح نام طبیہ وہاجہ”کالج“ ہے۔ طبی درس گاہوں کو چھوڑیے، خود دینی درس گاہوں کا کیا حال ہے؟ وہ دن گئے جب زبانوں پر مدرسہ چشمہ رحمت کا تذکرہ تھا، اب وہ چشمہ رحمت کالج ہے اور وہاں کے صدر مدرس ”پرنسپل“ صاحب ہیں۔ مدرسہ نظامیہ فرنگی محل کے سب سے بڑے استاد کو ذرا”صدرِ مدرس“ کہہ کر تو دیکھیے آپ کی غلطی کی تصحیح کی جائے گی کہ ان کا عہدہ اب صدر مدرسی کا نہیں، ”پرنسپلی“ کا ہے۔
مینڈھے لڑاتے ہوئے یا بٹیر یا مرغ بازی کرتے ہوئے اگر آپ کہیں پکڑ لیے گئے تو خود کو کسی کے سامنے منھ دکھانے کے قابل نہ سمجھیں گے، لیکن جب شہر میں باکسنگ کا مقابلہ ہو گا یا کوئی ہیوی ویٹ چمپئن آجائے گا تو ان کا تماشہ دیکھنا تہذیب وروشن خالی میں داخل ، کہیں چوری چھپے، ”نوٹنکی“ دیکھنے کھڑے ہو جائیے تو خود آپ کی ثقافت اور وضع داری آپ پر لاحول پڑھنے لگے، لیکن تھیڑ میں آدھی آدھی رات بے تکلف بسرکیجیے کہ ” ڈراما“ جیسے فن شریف کی شرافت وعظمت میں کس کو کلام ہو سکتا ہے؟
اپنے دیس کے کسی بھانڈ، کسی سازندہ، کسی ڈھاڑی سے اگر آپ کی شناسائی ہے، تو اس کا ذکر آپ اپنے دوستوں اور بے تکلف ہم عصروں کے سامنے بھی کچھ جھینپ کر ہی کرتے ہیں ،لیکن غیر ملکی آرٹسٹوں کے کمالات اور آرٹ کی جتنی جی چاہے داد دیجیے… بھری محفلوں، بزرگوں اور استادوں کے مجمع اور اخبارات کے صفحات میں آپ کی نقالی ہی کو داد ملتی جائے گی ۔ ” نٹوں“ کا پیشہ بھی بھلا کوئی عزت کا پیشہ ہے اور خدانخواستہ آپ کی کسی نٹ یا نٹنی سے ملاقات کیوں ہونے لگی، لیکن وہی قلا بازیاں کھانے والے جب سرکس والے اور سرکس والیاں بن کر آپ کے سامنے آتے ہیں تو نہ آپ ان سے ملنے میں شرماتے ہیں ،نہ تعلقات بڑھانے میں ۔ جوئے یا جواریوں سے ظاہر ہے ہماری شرافت کو کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ کوئی ہمیں جواری کہہ کر دیکھے۔ اپنی جان اور اس کی جان ایک کردیں، لیکن گھوڑ دوڑ کے دنوں او رمیلے کی راتوں میں دن دہاڑے اوربجلی کی روشنی میں یہی ذلت ہمارے لیے عین عزت بن جاتی ہے ۔ بڑے بڑے رئیس اور معزز نہ جوئے کی بازی لگاتے ہوئے شرماتے ہیں او رنہ اپنے کوریس باز کہلاتے ہوئے۔ چوک میں کسی حلوائی کی دکان سے پوری مٹھائی اپنے ہاتھ سے خریدے تو نظریں بچا بچا کر، لیکن حضرت گنج میں ویلریو کی دکان کے سامنے اپنی موٹر کھڑی کرکے کیک وپیسٹری کی خریداری بہ نفس نفیس، بلاجھجک فرمائیے، اس لیے کہ ” ویلریو“ حلوائی نہیں، کنفیکشنر ہے۔ کسی چورا ہے پر شربت والے کی دکان سے فالودہ کا گلاس خریدنا آپ کی خود داری کے منافی، لیکن حضرت گنج میں صاحب کی جگمگاتی دکان پر آئس کریم نوش فرمانا آپ کی ”عزت اور شان کے عین مطابق۔ کسی نانبائی کی دکان کا نام اگر ”ریستوران“ پڑجائے تو وہی عارفخر میں تبدیل ہو جائے، ”نائی“ بے چارہ جب تک محض نائی ہے یا حجام، اس کے استرے اور کسوت کے آگے سرجھکانا آپ کیوں کر گوارا فرماسکتے ہیں؟! لیکن وہی جب اپنے کو ہیئرڈریسر کہلانے لگے او راپنی چورا ہے کی دکان پر ” ہیئرکٹنگ سیلون“ کا تختہ لگا دے تو وہی ناگوار کام آپ کے لیے خوش گوار وپسندیدہ بن جائے۔ عدالت کا پیادہ جب تک ”چپراسی“ یا ”مذکوری“ ہے، حقیر وذلیل ہے، لیکن وہی پیادہ اگر ” بیلف“ کہہ کر پکارا جائے تو معزز ہے اور آپ کی زبان پر محض بیلف نہیں، بلکہ”بیلف صاحب“ آنے لگے گا۔ کوئی چمار یا موچی اس قابل کب ہوتا ہے کہ آپ اسے منھ لگائیں، لیکن وہی رذیل اگر کسی ٹینری کا مالک کہلانے لگے، تو معاً اس کی رذالت آپ کی نگاہ میں عزت وشرافت سے بدل جاتی ہے اور دنیا کے سب سے بڑے موچی، باٹا کی قوم سے تعلق رکھنا تو عین دلیل اعزاز ہے۔ بستی کا سا ہو کار یا مہاجن کتنا ہی بڑے سے بڑا ہو،آپ کی نظر میں محض ” بنیا“ ہے، لیکن وہی بنیا اگر کسی بینک کا منیجر ہو جائے یا اپنے کو بینکر کہلانے لگے تو دیکھیے اس کا مرتبہ دم بھر میں کہا ں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ کسی رئیس کا ” مصاحب“ آپ کی نظرمیں ، اخلاقی حیثیت سے بے عملی خوشامدی، چاپلوسی اور خود فروشی کا مجسم ہے، لیکن صاحب کے ” پرائیویٹ سیکریٹری“ اور ”اے ڈی سی“ کا نام ادھر آیا اور اُدھر معاً آپ کی نظروں میں کارکردگی ومستعدی، رعب ودبدبہ کی تصویر پھر گئی ! پنچایت کا نام آیا اور آپ کے ذہن نے نیچ قوموں کا تصور شروع کر دیا، لیکن ادھر پنچایت کے بجائے پارلیمنٹ اور اسمبلی ، کونسل او رکارپوریشن کے الفاظ بولے گئے اور آپ کا ذہن ان فرنگی پنچایتوں کی بلند یوں پر رشک کرنے لگا۔ کوئی مولوی غریب اگر عالمگیری اور شامی کے جزئیات فقہی کا حافظ ہے تو غبی، کودن، کندہٴ ناتراش اور محض ملاٹا ہے، لیکن اگر کسی ایڈووکیٹ یا بیرسٹر صاحب کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے نظائر ازبر ہیں تو ان کی قابلیت ، خوش دماغی اور ذہانت کے اعتراف میں سب سے آگے آپ ہی ہیں۔
فسانہ عجائب اور طلسم ہو شربا کے نام آج مجال ہے کہ کوئی زبان پر لاسکے، لیکن لندن او ربرلن، پیرس اور نیویارک سے کتنے ہی نئے نئے عجائب، افسانے او رکتنے ہی ہوشربا طلسمات ، رومانی وجاسوسی افسانے اور ناول خدا معلوم کن کن ناموں سے ہر سال، ہر ہفتہ اور ہر روز شائع ہوتے ہیں او ران سے باخبر رہنا، پوری دلچسپی وانہماک کے ساتھ ان کی نشرواشاعت میں ، ان کے پڑھنے پڑھانے میں لگے رہنا علم وروشن خیالی کی دلیل اور مہذب وتعلیم یافتہ ہونے کی سند ہے۔ کوئی آپ کو صلاح دے کہ ”لوہار“ کا پیشہ اختیار کیجیے تو آپ اسے گالی سے کچھ ہی کم سمجھیں گے، لیکن میکنیکل انجینئر کے عہدے کی طرف آپ خود لپک لپک کر بڑھ رہے ہیں، ”جراح“ کے لفظ سے جو تخیل آپ کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے ، وہ کسی درجہ پست ہے، لیکن ”سرجن“ کا نام لینے سے اس پستی میں بلندی آجاتی ہے ۔ محلہ او رپڑوس کے ”جولا ہے“ آپ کے خیال میں پست وادنیٰ، لیکن کپڑا بننے والے اگر لنکاشائر کے ہیں، تو ان کی بابت بھی آپ کا یہی خیال ہے؟ ”بزاز“ گز ہاتھ میں لیے اور سر پر گٹھڑی اٹھائے شہر میں پھیری کرتے پھرتے ہیں۔ ان کی کوئی عزت ووقعت نگاہ میں نہیں، لیکن وہی کپڑا بیچنے والے اگر مانچسٹر کے باشندے ہیں تو معزز اور بلند ہیں۔ بزرگوں کی سالانہ فاتحہ دلانا دلیل حمق اور علامت توہم پرستی، لیکن فلاں کالج کے احاطے میں ’فاؤنڈرس ڈے“ یا ” یوم تاسیس“ دھوم دھام سے منانا، دلیل دانش وبرہان اور روشن خیالی! لکھنؤ کے چوک یا دہلی کی چاؤڑی کے پیشہ ورکانام آپ بے تکلف اور آزادی کے ساتھ ہر گز اپنے کسی بزرگ کے سامنے نہ لیں گے، نہ کسی کا نوچ دیکھنے کھلم کھلا تشریف لے جائیں گے، لیکن ڈرائنگ روم میں گھر کے سب مردوں اور عورتوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے سامنے ٹی وی پر بے تکلف فلاں بائی جی اور فلاں ” جان“ کے نغموں اور ٹھمریوں سے لطف اٹھائیں گے اور جو فلمی آرٹسٹ آپ کے دل میں جگہ کر لے، پوری بیبا کی سے آپ اس کے چرچے ہر چھوٹے بڑے کے سامنے کریں گے۔
کوئی کہاں تک گنائے اور ناموں اور لفظوں کی کتنی لمبی فہرست تیار کرے۔ نمونے کے لیے یہ کافی بلکہ کافی سے کچھ زائد ہی ہیں۔ اپنی واقفیت کی دنیا میں خود نظر دوڑائیے اور دیکھ لیجیے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں معاشرت ومعاملات کے ہر گوشے میں فرنگیت کا کتنا رعب ہم پر اور آپ پر چھایا ہے۔ حقیقت ایک، معنی ومفہوم متحد، لیکن جو لفظ اور جو نام فرنگیت اور ”صاحب“ کے رشتے سے آپ کے کانوں تک پہنچے ہیں، ان سے کتنی زیادہ عظمت، کتنی زیادہ اہمیت، کتنی زیادہ بلندی ہمارے دلوں اور دماغوں نے غیر محسوس طور پر قبول کر لی ہے! اگلوں نے بہت کیا تو یہی کیا کہ ملک فتح کر لیے، قلعے تعمیر کر لیے، قلعے سر کر ڈالے، فوجوں کو میدانِ جنگ میں شکست دے دی۔ اس سے زیادہ نہ چنگیز سے کچھ بن پڑا ،نہ ہلاکو سے، نہ داراسے، نہ اسکندرسے، یہ شرف مخصوص اسی دور کے لیے ہے کہ جسم کے ساتھ ساتھ دل ودماغ بھی فتح کر لیے جاتے ہیں اور ہاتھوں پیروں کے علاوہ عقلوں، دماغوں اور بصیرتوں سے بھی خط غلامی لکھوالیا جاتا ہے ،یہاں تک کہ غریب محکوموں کے پاس ” خیر وشر“ حسن وقبح، ہنر وعیب کا معیار لے دے کے بس یہی ایک رہ جاتا ہے کہ ”صاحب“ کی چشم التفات کدھر ہے؟ عزت بھی ” صاحب“ کی دی ہوئی اور دولت بھی سرکار کی مرحمت کی ہوئی، دین بھی وہیں کا عطیہ اور دنیا بھی وہیں کی بخشش، اب نہ ہندوہندوہے، نہ مسلمان مسلمان، سب ”رعایائے سرکار“ اب نہ کوئی الله دین ہے نہ رام دین، بلکہ سب کے سب چھٹ چھٹا کر” صاحب دین“۔
عام الفاظ کو چھوڑیے ،ستم یہ ہے کہ اعلام اور اسمائے معرفہ تک یورپ زدگی کی وبا سے محفوظ نہیں۔ میاں ”کلو“کو آپ نے اپنے ہاں جب دیکھا ! دربانی ہی کرتے پایا، لیکن میجر بلیک آپ کے شہر کے سول سرجن ہیں۔ ”کلوا مہتر“ آپ کے محلہ ہی میں رہتا ہے ،لیکن پروفیسر”بلیکی“ یونیورسٹی کے ایک ممتاز پروفیسر ہیں۔ ” لالہ گھاسی رام“ بیچارے”کانجی ہاؤس“ کی محرری سے آگے عمر بھر نہ بڑھ سکے۔ لیکن بریگیڈیئر جنرل”ہے“ (Hay) برطانوی فوج کے ایک مشہور ومعروف افسر ہیں، ” میاں رمضانی“ اور ”میاں شبراتی“ کی ساری عمر خدمت گاری میں گزری، لیکن ” مسٹرمے“(May) اور ڈاکٹر فرائڈے پارلیمان کے ناموررکن ہیں، ” مٹھواکہار“ اور ”طوطاکلوار“ آپ کی بستی ہی میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ،لیکن ”سرجان“ (Partidge) آپ کے صوبے کے گورنر تھے۔ مسٹر”کاک“(Cock) اس وقت آپ کے ضلع کے کلکٹر ہیں اور ”سوان“ (Swan) صاحب ابھی تبدیل ہو کر کمشنری پر گئے ہیں۔ آپ کی ماما کا لڑکا”شیرا“ بیچارہ اب تک چپراسی کی جگہ خدمت کر رہا ہے، لیکن ”بل“(Bull) صاحب ترقی پاکر کمشنر ہو گئے ہیں اور مسٹر لیمب(Lamb) اور مسٹر”کڈ“(Kid) آپ ہی کے ضلع میں حاکم بندوبست اور جوائنٹ مجسٹریٹ ہیں۔ ”دریاؤ سنگھ“ غریب کو لائن جمعداری سے آگے بڑھنا نصیب نہ ہوا، مگر سرجان لیک(Lake) دیکھتے ہی دیکھتے ای آئی آر کے ایجنٹ ہوگئے۔ ”لالہ لوہاری مل“ کے چلائے عرائض نویسی کا کام بھی نہ چلا، لیکن جسٹس اسمتھ (Smith) حکومت ہند کے ہوم ممبر ہیں۔ جنگلی گھسیارہ بیچارہ عمر بھر گھاس ہی چھیلا کیا، مگر سرجان فارسٹر(Forester) سنا ہے کہ امریکا میں برطانیہ کے کونسل جنرل ہو گئے۔