اہل بیت کون؟ از علامہ جعفرشاہ پھلواری

اہلبیت٠٠٠٠٠٠کون؟؟؟

سنیوں کی تحریف ۔

صرف شیعی کتب میں نہیں بلکہ سنی کتابوں میں بھی آپ کو بےشمار روایات ایسی ملیں گی جن سےیہ واضح ہوتاہے کہ قرآن کریم محفوظ نہیں بلکہ نعوذباللہ اس میں خاصی ردبدل ہوگئی۔پہلے حرکات میں ردبدل کیاگیا۔مثلاً ملک یوم الدین میں مٰلِكِ بهی هے۔اور مٓلٌٰكِ بهی هے۔اس كانام "اختلاف قرات”ركهاگیا.پهر لفظوں پر هاتھ ڈالا گیا مثلاً يُرجَعون بهی هے.تُرجَعون بهی هے. خَلُفَك بهی هے.اورخِلٰفَك بهی هے۔ان مثالوں میں تو لفظی کتابت اسی طرح قائم رہتی تھی لیکن آگے لفظوں کی تبدیلی بھی عمل میں آئی۔مثلاً فاقطمعو اید یھما بھی ہے۔اور ایک قرات ایمانھما بھی ہے۔
پھر جملوں پردست درازی کی گئی ۔سنیوں کی روایت ہے۔اور لطف کی بات یہ ہےکہ اس کا انتساب سیدنا عمر فارق اعظمؓ کی طرف کیاگیا کہ "خدا کی قسم کتاب اللہ میں آیت رجم بھی موجود تھی اور اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گےکہ عمر نے کتاب اللہ میں اضافہ کردیاہے،تومیں اس آیت رجم کو ضرور قرآن میں داخل کردیتا”بہت خوب یعنی حسبنااللہ کتاب اللہ کہنے والے امیرالمومنینؓ نےعوام کےڈرسے ایک آیت کو قرآن سے خارج کردیااور یہیں سیے اس اصول کا پتہ چل گیا کہ بعض آیات منسوخ التلاوت توہیں مگرمنسوخ الحکم نہیں اور آئیے ذرا وہ منسوخ التلاوت آیت بھی سن لیجئے۔آیت یوں ہے۔”الشیخ والشیختہ اذا ذانیا فارجموھماالبتتہ”سبحان اللہ،اسے کہتے ہیں معجزانہ کلام ربانی،جوایک تھرڈ کلاس کےعربی دآں کی بھی زبان نہیں ہوسکتی۔عربی ادب اور قرآن کی زبان کا معمولی فہم یا ذوق سلیم رکھنے والا بھی اس مہمل قسم کی عبارت کو کسی عربی ادیب کاجملہ تصور نہیں کرسکتا۔چہ جائیکہ قرآنی آیت قرار دےاوراس سے زیادہ مزے کی بات یہ ہےکہ شیخ اور شیخہ کےمعنی توہیں، بوڑھا مرد اور بوڑھی عور،لیکن اس کاترجمہ کیاجاتا ہے۔شادی شدہ عورت اور شادی شدہ مرد۔ذوق سلیم اور عربی لغت پر اس سے بڑا ظالمانہ حملہ اور کیا ہوسکتاہے؟
اس سے زیادہ عجیب روایت یہ ہےکہ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے مصحف میں نہ سورۃ فاتحہ تھااور نہ سورۃ فلق اور نہ سورۃ ناس۔گویا نعوذباللہ سیدنا ابن مسعودؓ ان تینوں سورتوں کو خارج ازقرآن سمجھتے تھے۔ایسی ایسی روایات ایک دونہیں، بیسیوں ہیں جوسنی کتابوں میں موجود ہیں لیکن یہ سارا کچھ شیعیت کےراستے سےآیاہے۔مگر قرآن کریم کی محفوظیت پر اثرانداز نہ ہوسکا۔خصوصاً سنیوں میں یہ روا یتیں کتابوں میں موجود ہونے کےباوجود مقبول نہ ہوسکیں۔نہ اعتقاد،عملاً اعتقادا یوکہ سنیوں کےہاں یہ مسلم ہےکہ القرآن متواتر ومالیس بمواتر لیس القرآن ۔یعنی قرآن ایک متواتر حقیقت ہے اور جو چیز ایسی متواتر نہیں وہ قرآن نہیں ۔گویا قرآن کےتواترسے جو غیر متواتر روایت ٹکرائے گی ،وہ خود بخود ختم ہوجائےگی۔
اور عملاً یوں کہ ہرسال کروڑوں مسلمان قرآن کاختم کرتےہیں ،ختم سنتے ہیں اور استدلال و استناد میں آیات قرآنی پیش کرتےہیں اور ہرجگہ وہی قرآن ہوتاہے جواس وقت ہے۔اس میں سرمو فرق نہیں ہوتا۔کروڑوں حفاظ ہردور میں موجود رہےہیں۔اور موجودہ قرآن کےعین مطابق ہوتےرہےہیں۔اور کروڑوں مسلمان ہرروز نمازوں میں اسی طرح قرآن پڑھتےہیں۔ایک زیر و زبر فرق ہو تو فوراً لقمہ دےدیاجاتاہے۔یقین نہ آئےتو کسی دن کوئی امام صاحب مَلٌٰك يوم الدين پڑھ کردیکھ لیں اور اس پر اسرار کرکے تجربہ کرلیں کہ وہ مصلائےامامت پر قائم رہتےہیں یانہیں۔اس وقت "اِنٌَا لَهْ لَحَافِظُون”کا مطلب بھی سمجھ میں آجائےگا۔

شیعی روایات۔۔۔

یہ توسنی روایات کا معاملہ تھا،اب شیعی روایات کی ایک جھلک بھی ملاحظہ فرمائیے۔اصول کافی کی کتاب فضل القرآن میں چارصفحے لکھےہیں اور ان کےتحت تیرہ عدد ابواب ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔(۱)حامل قرآن کا فضل۔(۲)جو دشواری کیساتھ قرآن کی تعلیم حاصل کرے۔(۳)جوقرآن یاد کرکے بھلادے۔(۴)قرات قرآن۔(۵)قرات قرآن کاثواب۔(۶)مصحف کو دیکھ کر قرآن پڑھنا۔(۷)قرآن کو عمدہ آواز سے ترتیل کےساتھ پڑھنا۔(۸)قرآن کے ذکر کےوقت بےہوش ہوجانا۔(۹)کتنا قرآن پڑھا اور اب ختم کیاجائے۔(۱۰)قرآن اسی طرح اٹھایا جاتا ہےجس طرح نازل کیاگیا ہے۔(۱۱)فضل قرآن۔(۱۲)تین قسم کےقراء۔(۱۳)قرآن اور فرقان کافرق۔
ان تمام ابواب میں بڑے بڑے بےشمار فضل بیان کیےگئے ہیں۔لیکن آخری صفحے(۶۷۱)کی چند روایات بڑی قابل غور ہیں۔
سالم بن سلمہ کہتاہے کہ ایک شخص جعفر صادق کےسامنے قرآن پڑھنےلگا۔میں بھی سن رہاتھا۔وہ کچھ ایسے حروف(الفاظ)اداکر رہاتھا جو عمومًا عام لوگوں کی قرات کےمطابق نہ تھاتوجعفرصادق نے کہا۔

تم اس قرات سے باز آجاؤ اور اسی طرح پڑھو جس طرح سب لوگ پڑھتے ہیں۔تاآنکہ قائم(بارہویں فرضی امام مہدی)ظاہر نہ ہوجائیں۔جب قائم آجائیں گےتو کتاب اللہ کواصلی قرات سےپڑیں گےاور اس مصحف کو علیؓ نےجبکہ وہ اس کو لکھ کرفارغ ہوئے لوگوں کے سامنے پیش کیاتھا اور فرمایا کہ یہ ہےاللہ کی کتاب جو اس نے محمد ﷺ پر اسی طرح نازل فرمائی تھی اور اسے میں نے دو لوحوں سے لیکر یکجا کیاہے مگر لوگوں نے کہا کہ ہمارے پاس تو جامع مصحف موجود ہے جس میں قرآن لکھا ہواہے۔ہمیں (تمہارے)اس مصحف کی کوئی ضرورت نہیں۔سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ اچھا خداکی قسم اب ابد تک اسے کبھی بھی نہ دیکھوگے۔میرا تویہ فرض تھاکہ جب میں نے اسے جمع کرلیاتو تمہیں بتادوں تاکہ تم اسے پڑھو:-

اس روایت کو پڑھنے کے بعد معمولی عقل والا انسان بھی جن نتائج پر پہنچےگا،وہ یہ ہے:
(۱)موجودہ قرآن اصلی قرآن نہیں۔اصلی قرآن بارہویں امام کےپاس محفوظ ہےجومعلوم نہیں کب نکلےگا۔امام بھی غائب اور قرآن بھی غائب اور بیان یہ کیاجاتا ہےکہ رسول اکرم ﷺنےدو چیزیں چھوڑی ہیں،جس سے تمسک کرنے والے کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔ایک کتاب اللہ اور دوسرے عترت۔جب دونوں ہی غائب ہیں تو معلوم نہیں تمسک کس چیز سے کیاجائے۔

(۲)موجودہ قرآن اگرچہ اصلی قرآن نہیں لیکن جب تک اسی کو پڑھ کر کام چلاؤ،ظاہر ہے کہ اصلی قرآن کی غیرموجودگی میں جو قرآن بھی ہوگاوہ اصلی نہیں بلکہ نقلی ہوگا۔اور ایک نقلی قرآن پر تو ایمان ممکن ہی نہیں۔پس اس کو پڑھے جانااوپر کےدل سےہوگا اور تقیتہً ہی ہوگا۔

(۳)رسول اللہ ﷺکےعہدمیں اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنُكُمْ تو ہوگیا لیکن افسوس کہ قرآن جمع نہ ہوسکا۔(نعوذباللہ) یہ شرف شیعوں کی روایت کےمطابق سیدعلیؓ کو اور سنیوں کی روایت کےمطابق ابو بکرؓ یا عثمانؓ کوحاصل ہوا۔دونوں میں فرق صرف یہ ہےکہ سیدنا عثمان ذوالنورینؓ نےتواپنا "غلط مصحف "رائج کرنےکی ایسی کوشش بلیغ کی کہ چودہ صدیوں سے آج تک وہی رائج ہےاور ہمیشہ یہی رائج رہےگا(ان شاءاللہ )لیکن سیدنا علیؓ نے اپنے”صحیح مصحف”کورائج کرنےکےلئے اتنی کوشش بھی نہ کی جتنا سیدنا معاویہؓ کو ان کے منصب سے ہٹانے کےلئے زندگی بھر کرتےرہے۔بس ایک بار اپنا قرآن پیش کیااور لوگوں کے ایک ہی انکار سے اتنے برہم ہوگئےکہ ہمیشہ کےلئے اس بےچارے”صحیح مصحف "کو غائب کردیا۔اگر غائب ہی کرناتھا تو اپنی خلافت تک کےلئے غائب کرتےاور اپنی خلافت کاموقع آتےہی اسے آسانی سے رائج کردیتے۔یہ سمجھ میں نہیں آتاکہ سیدنا علیؓ ساری عمر نماز میں کونسا قرآن پڑھتے رہے۔اگر”نقلی قرآن”پڑھتے رہےتوظاہرہےکہ ان کی اور تمام مقتدیوں کی ساری نمازیں اکارت گئیں اور اگراپنا”اصلی قرآن”پڑھتے رہے توان لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا جوآپ کاپیش کردہ "اصلی قرآن”پہلے ہی ردکرچکےتھے۔اور جنگ صفین کے دوران جولوگ نیزوں پر قرآن لٹکائےہوئے آرہےتھے،ان سے سیدنا علیؓ نےیہ کیوں نہ فرمایاکہ تم "نقلی قرآن "کا واسطہ کیوں دےرہےہو،واسطہ ہی دیناہے تواصلی قرآن کا واسطہ دوجو میں نےغائب کردیاہے۔

سنی حضرات متوجہ ہوں۔

یہاں سنی حضرات کوبھی غورفرمانا چاہیے کہ عہد نبویؐ میں قرآن جمع ہی نہیں ہواتھا توسینکڑوں حفاظ کہاں سے پیدا ہوگئے جوجنگ یمامہ میں شہید ہوگئے تھے۔اور جن کی شہادت ہی نےسیدنا فاروق اعظمؓ کےدل میں جمع قرآن کی تحریک پیدا کی اور سیدنا صدیق اکبرؓ نےکچھ رد و قدح کےبعد اس رائے کو مان لیا۔(حسبِ روایات اہلِ سنت)

(۴)علیؓ تو فرماتے ہیں کہ تم اب ھمارےاس”اصلی مصحف”کو ابد تک نہ دیکھ سکوگے۔مگرجعفر فرماتے ہیں کہ تم اب ھمارے اس مصحف کو ظہور مہدی کے بعد ضرور دیکھوگے۔اسکا مطلب یہ ہوا کہ صحیح بات تو سیدنا علیؓ نےفرمائی ہوگی اور جعفر نے دراصل آپ کے قول کی تائید فرمائی ہےیعنی نہ کبھی کوئی مہدی آئےگا اور نہ وہ "اصلی قرآن”لائےگا۔اب جو کچھ کام چلانا ہے،اسی نقلی قرآن سے چلاؤمگر اسے مشتبہ ہی سمجھتےرہو۔یہی اصل مقصد تھا روایات گھڑنے والوں کا کہ قرآن کی محفوظپت پر یقین نہ ہونے پائے۔چنانچہ سبائیت نوازں کو آپ دیکھیں گے۔انہیں قرآن سےکوئی شغف نہیں۔شغف ہراس چیز سے ہےجو قرآن سے اور اس کی تعلیمات سے ہٹادینے والی ہو۔اسی وجہ سے اس گروہ میں حفاظ قرآن نظر نہیں آتے مشکل سے ایک کروڑ میں ایک دو حافظ قرآن ہوتوہوں۔
قرآن کو غیر یقینی بنانے کےلئے اسی کتاب اصول کافی کی”کتاب فضل القرآن”کی جو آخری روایت ہے،وہ سننے کے قابل ہےمگر پہلے ایک لطیفہ سن لیجئے۔کسی رئیس نے آپنے نوکر کو سب سے عمدہ گھوڑا دیکھنے کےلئے بھیجا۔اس نے دیکھ داکھ کررئیس کو رپورٹ دی کہ:”صاحب ایک بہترین گھوڑا دیکھ کر آیاہوں۔نہایت ہی تنومند،خوبصورت گھوڑا ہے۔پیشانی پر سفید تارہ،چاروں ٹانگیں سفید،رنگت کمیت،کیا کہنے ہیں اس گھوڑے کے،بس ایک کسر ہے۔”رئیس نےپوچھا”وہ کیا کسر ہے؟خادم نےجواب دیا”ذرامرگیاہے”
کلینی نےبالکل یہی انداز اختیار کیاہے۔قرآن کے فضائل بیان کیے،تلاوت اور حفظ کےفضائل بیان کیے،کئی سورتوں کی برکتیں بیان کیں اور سب کےآخرمیں اپنے لکھے ہوئے انیس صفحات یوں مٹی میں ملادیےکہ۔

عن ابي عبدالٌٰله عليه السلام قال:ان القران الذی جاء به جبرايل عليه السلام انی محمدصلی عليه واله سبعۃ عشر الف ايته۔
ابوعبداللہ(جعفر) فرماتے ہیں کہ جوقرآن جناب جبرائیلؑ رسول اکرﷺ کےپاس لائے تھے،وہ سترہ ھزار آیات تھیں۔
چلئے قصہ ختم ہوا۔تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی گئی ۔موجودہ قرآن میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں۔باقی دس ہزار تین سو چونتیس آیات امام غائب کےپاس محفوظ ہیں اور جو چھ ہزار سے زائد آیتیں اس وقت موجود ہیں،ان کے متعلق بھی یہ دعویٰ نہیں کہ وہ ان سترہ ہزار آیتوں میں ہی سے صحیح صحیح بچ گئی ہیں۔یا نقلی قرآن بنانے والوں نےبنالی ہیں۔فرمائیے -اِنٌَالَهُ لَحَاْفِظُوْن کی”اس سے بہتر تفسیر آپ کو کہاں سے مل سکتی ہے؟
دراصل عجمیوں نے عربوں سےاپنی سیاسی ذلّت کاانتقام لینے کےلئے قرآن کو ختم کرنا چاہامگراللہ تعالیٰ نےاس کی حفاظت کی۔
مذکورہ خرافات کو جانے دیجئے۔بہرحال یہ خوشی کی بات ہےکہ شپعوں کاایک معتدل طبقہ ایسا بھی موجود ہےجو تحریف قرآن کی تمام کوششوں کی ناکامی محسوس کرکےاب(تقیتہً ہی سہی)موجودہ قرآن ہی کو مانتاہے۔لیکن اس کوشش کو شروع ہی سےایک غیر موثر حربہ سمجھنے کی وجہ سے ایک دوسرا دشنہ آستین بھی ساتھ ساتھ تیار کرتا رہاہے۔اور وہ ہے معنوی تحریف۔آپ کی دلچسپی کےلئے اس کی چند نظیریں پیش کرنےکی اجازت چاہتاہوں۔

حقیقی اہل بیت:
سورۃ احزاب کا چھوتا رکوع پڑھ جائیےجو،یایھاالنبی سے شروع ہوتاہے لیکن اصل آیات سے پہلے اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔

(ترجمہ)اےنبیؐ اپنی بیویوں سے کہدو کہ اگر تم حیاتِ دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہوں تو آؤ میں تمہیں مال و متاع دےدوں اور تمہیں عمدگی کیساتھ رخصت کردوں(۲۸)اور اگرتم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت چاہتی ہو تواللہ نےتم میں سے نیکوکاروں کےلئے بڑا اجر مہیاکررکھاہے(۲۹)اے نبیؐ کی بیویوں!تم میں سے جو صریح بےحیائی کرے اس کےلیے سزا میں دوگنا اضافہ کردیا جائےگا اور یہ اللہ کےلئے آسان ہے(۳۰)اور تم میں سےجو اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرما برداری کرے اور نیک عمل کرےاسے ہم اجر بھی دوگنا دیں گےاور اس کےلئے ھم نے باعزت روزی بھی مہیا کررکھی ہے(۳۱) اے نبیؐ کی بیویوں تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو۔اگر تم پرہیزگار ہو تو گفتگو میں وہ لوچ نہ اختیار کرو کہ جس کے دل میں مرض ہےوہ للچانے لگے بلکہ ڈھنگ کی بات کرو(۳۲)اپنے گھروں میں وقار کیساتھ رہو اور پچھلے دور جاہلیت کی طرح بناؤ سنگار نہ کرو۔بلکہ اقامت صلوٰۃ کرو اور زکوٰۃ ادا کرتی رہو اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتی رہو۔دراصل اللہ چاہتا ہی یہ ہےکہ اےگھر والیوں تم سے تمام آلودگیوں کو دور کردیں اور تمہیں بالکل پاک و صاف کردیں(٣٣)اور تمہارے گھروں میں جو آیات الہی اور حکمت کی باتیں تلاوت کی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔اللہ تو بلا شبہ لطیف وخبیرہے(٣٤)

سورۃ احزاب کے چھوتے رکوع کی یہ سات (۲۸تا۳۴)آیات کاترجمہ ہے۔اصل آیات کےالفاظ ھم نےصرف اس لئے موخر کردیے ہیں کہ پہلے کسی عالم یا جاہل بلکہ کسی مسلم یا غیر مسلم کےسامنے یہ ترجمہ رکھ کر دریافت کیجئے کہ ان میں کن عورتوں کاذکر ہے۔اور ازواج اور نساء سےکونسی عورتیں مراد ہیں؟(ہمارا ترجمہ پسند نہ ہوتو کوئی سابھی ترجمہ،جو ترجمہ ہو تفسیر نہ ہو،سامنے رکھ کرہی سوال کیجئے)سب کا جواب ایک ہی ہوگاکہ اس میں صرف نبی کریم ﷺکی بیویوں کاذکر ہے۔تمام آیات ہی ان بیویوں کےذکر سےمتعلق ہیں اور تمام کی تمام آیات میں نبی ﷺکی زبان سے ان ہی ازواجِ النبی کو مخاطب کیاگیاہے۔اس کے بعد پھر اس سے دریافت کیجئے کہ ان آیات میں کسی جگہ بھی اشارتاً "یا کنایتاً”علیؓ،فاطمہؓ،حسن یاحسین کا کوئی ادنٰی سا بھی ذکرہے؟جواب ایک ہی ہوگا اور وہ صرف نفی میں ہوگا۔اس کے بعد وہ سات آیات پڑھ کربتائےکہ جن آیات کا یہ ترجمہ ہےوہ یہ ہیں۔

یٰاَيُهَا النٌَبِیٌُ قُلِ لِاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنْ تُرِدْنَ الْحَيٰوۃَالدُّنْيَاوَ زِيْنَتَهَافَتَعَالَيْنَ اُمَتٌِعْكُنٌَ وَ اُسَرٌِحْكُنٌَ سَرَاحِاً جَمِيْلاً(٢٨) وَاِنْ كُنْتُنٌَ تُرِْنَ اللٌَهَ وَ رَسُوْلَهُ وَلْدٌَارَالْاٰخِرَۃَ فَاِنٌَ ﷲَ اَعَدٌَ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكَنٌَ اَجِراً عَظِيْماً(٢٩)يٰنِسَآءَالْنٌَبِيٌِ مَنْ يٌَاْتِ مِنْكُنٌَ بِفَاحِشَۃٍ مٌُبَيٌِنَۃٍٍ يٌُضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَیﷲِ يَسِيْراً(٣۰)وَمَنْ يٌَقْنُتْ مِنْكُنٌَ لِلٌٰهِ وَ رَسُولِهِ وَتَعمَلْ صَالِحًا تُوءْتِهَآ اَجْرَهَامَرٌَتَيْنِ وَاَعَتَدْنَالَهَا رِزْقاً كَرِيْمًا ً(٣١)يٰنِسَآءَ الْنٌَبِيٌِ كَاَحَدٍمٌِنَ النٌِسَآءِ اِنِ اتٌَقَيْتُنٌَ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الٌَذِیْ فِیْ قَلْبِهِ مَرَضُُ وٌَقُلْنَ قَوْلًا مٌَعْرُوْفَا(٣٢)وَقَرْنَ فِیْ بُيُوْتِكُنٌَ وَلَاتَبَرٌَجْنَ تَبَرٌُجَ الْجَاهِلِيٌَۃِ وَلْاُوْلَی وَ اَقِمْنَ الصٌَلوٰۃَ وَاٰتِيْنَ الزٌَكوٰۃَ وَاَطِعْنَ اللٌٰهَ وَرَسُوْلَهُ "اِنٌَمَايُرِيْدُاللٌٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرٌِجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهٌِرَكُمْ تَطْهِيْرًا”(٣٣)وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰی فِیْ بُيُوْ تِكُنٌَ مِنْ اٰيٰتِ ﷲٌِٰ وَالْ حِكْمَۃِ اِنٌَ اللٌٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا(٣٤)
(سورۃ الاحزاب )

اس رکوع میں آیت ۳۳کاایک ٹکڑا ہےجس پر ہم نے دو نشان لگائےہیں۔یہ آیت پوری نہیں ،آیت کا صرف ایک حصہ ہےاور پہلے حصے سے کلیتاً مربوط ہے۔اس جملے یاٹکڑےکو پوری مربوط آیت سے علیحدہ فرض کرکے یہ دعویٰ کیاجاتا ہےکہ اس خاص ٹکڑےکا ازواجِ النبیؐ یا نساء النبیؐ سےکوئی تعلق نہیں۔بلکہ یہ چار تن۔۔۔علیؓ،فاطمہؓ،حسن،حسین ۔کی شان میں نازل ہوا ہےاور اہل بیت سےیہی مراد ہے۔اس کے بعد اگلی آیت ۳۴ پھر ازواجِ النبیؐ کومخاطب کیاگیاہے۔
اس بےربط تفسیر میں جان ڈالنے کےلئے دوکام کیےگئے۔
پہلے تو ایک تفسیری روایت گھڑی گئی جسے حدیث کساءکہاجاتاہے۔اس کا خلاصہ یہ ہےکہ ایک دن رسول اکرم ﷺ نے ام المومنین سیدہ ام سلمہ کےہاں علیؓ،فاطمہؓ،حسن اور حسین کواپنی چادر سےڈھانپ لیااور فرمایاکہ:اللٌٰهُمٌَ هٰولَاءِ اَهْلَ الْبِيْتِي۔یعنی”اےاللہ!یہ ہیں میرے اہلِ بیت۔بس جب رسول اکرمفﷺ نےخود ہی لفظ اہل بیت کی عملی تفسیر فرما دی تو واضح ہوگیا کہ بس یہی چارتن پاک "اہلِ بیت”ہیں اور ازواجِ مطہرات اہل بیت سےخارج ہیں۔
سُبَحَانَ اﷲِ وَبِحَمْدِهِ؟
آیت کےاس ٹکڑے کا نام”آیت تطہیر”رکھاگیاہے۔حالانکہ یہ آیت نہیں پوری آیت کا صرف ایک ٹکڑا ہے۔اسے آیت تطہیر کہناہی صحیح نہیں۔آیت تطہیر پوری آیت ہےجس کی مخاطب صرف امہات المومنین ہیں،دوسرا کوئی نہیں۔رکوع کی ابتدائی آیات کو”آیات تخییر”کہتےہیں جس میں ازواجِ مطہرات کواختیاردیاگیا ہےکہ یا تو تم حیات دنیا اور اس کی زینت کو اختیار کرکے شرفِ زوجیت سےالگ ہوجاؤ یااللہ،رسولؐ اور دارآخرت کو اختیار کرکے اجر عظیم کی حقدار بن جاؤ۔ظاہر ہے کہ ان سب نے دوسری چیز کو اختیار کیا جس سے کافر کو بھی انکار کی جرات نہیں۔اگر پہلی چیز کو اختیار کرتیں تو زوجیت نبویؐ سے یکسر محروم ہوجاتیں۔
اس پورے رکوع میں ازواجِ النبی کےفضائل کا جو اتھاہ سمندر ہے اور تمام دوسری عورتوں پر فضیلت کلی کا جو اعلان ہے،اس کی تشریح کایہ موقع نہیں۔یہاں صرف یہی بتاناہےکہ جن ازواجِ رسولؐ کےلئے آیت تخییرہے،ان ہی کےلئے یہ پوری آیت تطہیر بھی ہےاور اسی لئے ان کو "ازواجِ مطہرات”کہاجاتاہے۔اس میں ان کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔
اب رہی حدیثِ کساء تواس سے استدلال کئی وجوہ سے غلط ہے۔
اول یہ کہ شان نزول کی روایات زیادہ تر وضعی ہیں اور اہل تحقیق کے نزدیک یہ عموماً پایا اعتبار سے ساقط ہیں۔
دوسرے یہ حدیثِ کساء جن جن طرق واسناد سے مروی ہے،ان میں ایک سند بھی ایسی نہیں جس کے کسی نہ کسی راوی پر”غیر صدوق کذاب لا یعبا بہ لیس بشئی متشیع وغیرہ کی زد نہ پڑچکی ہو۔تفصیل میں جانے کایہ موقع نہیں۔
تیسرا اگر یہ روایت صحیح مان بھی لی جائے توزیادہ سےزیادہ اسکا مطلب صرف یہی ہوسکتا ہےکہ رسول اکرم ﷺنےجس طرح "سلمان منا اہلِ بیت”فرماکرجناب سلمانؓ کواہل بیت ہونےکا درجہ دیا،اسی طرح ان چارتن کو بھی اہل بیت میں داخل کرنےکی آرزو کا اظہار فرمایا۔گھر کے خادم کو بھی "گھرکاآدمی”کہا جاتا ہے لیکن اس سے وہ فی الواقع فرد خانہ نہیں بن جاتا اور وہ بھی اس طرح کہ اصل افرادِ خانہ کو خارج کردیا جائے۔
چھوتا یہ ھولاء”حصر”کےلئے نہیں آتا لہٰذا اس کا یہ ترجمہ ہی سرےسے غلط ہےکہ اےاللہ بس یہی ہیں میرے اہل بیت اور دوسرا کوئی نہیں۔
پانچویں بیت کےمعنی ہیں گھر جسے فارسی میں خانہ کہتے ہیں۔اہل بیت کےمعنی ہوئے اہلِ خانہ،گھروالی،نہ کہ داماد،بیٹی اور نواسے ،جن کا گھر ہی الگ ہوتاہے۔اگر جناب فاطمہؓ اہلِ بیت علیؓ تھیں اور یقیناً تھیں تو امہات المؤمنین کےاہل بیت رسولؐ ہونے سے کوئی کور قلب ہی انکار کرسکتاہے۔سیدھی بات یہ ہےکہ اہل خانہ یا اہل بیت کاحقیقی اطلاق بیوی پرہی ہوسکتاہے۔مجازاً گھر کے آدمی کے معنوں میں اس کا اطلاق ان تمام لوگوں پر ہوسکتا ہےجو لحوق و لزوق اور خصوصی قرب رکھتےہو۔بیوی اصالتا”اہلبیت ہےاور اولاد فرعا”اہل بیت ہے۔ان دونوں کا فرق یہ ہےکہ فرع کےبغیر اصل کا وجود ہوسکتا ہےلیکن اصل کے بغیر فرع کا تصور بھی نہیں ہوسکتاہے ۔اولاد کے بغیر بیوی کاوجود ہوسکتاہے، لیکن بیوی کےبغیر اولاد ممکن نہیں۔پس بیوی اصالتا”اہل بیت ہےاور اولاد فرعا”ومجازا”۔
یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہاہوں۔قرآنی فیصلہ یہی ہے۔سورۃ ھودکا ساتواں رکوع آیت ۶۹سے٧٣تک باترجمہ ملاحظہ فرمالیجئے۔سیدنا ابراہیمؑ کےپاس فرشتے قوم لوطؑ پر عذاب لےکر آتےہیں جناب خلیل اللہ بچھڑے کےبھنے ہوئے گوشت سے ان کی تواضع فرماتے ہیں لیکن وہ نہیں کھاتے۔۔۔۔اس وقت

وَامْرَاَتُه قَآيِمَۃ فَضَحِكَتْ فَبَشَرْنٰهَابِاِسْحٰقَ وَمِنْ وٌَرَآءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ(٧١)قَالَتْ يٰوَيْلَتٰٓیءَاَلِدُوَاَنَاعَجُوْزُٗوَّهٰذابَعْلِیْ شَيْخًااِنَّ لَشَیْٔٗ عَجِيْبُٗ(٧٢)قَالُوْآآتََعْجَبِيْنَ مِن آمْرِاللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٖهِ وَبَرَكٰتُه ٗعَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ اِنٌَهٗ حَمِيْدُٗمٌَجِيْدُٗ(٧٣)
ان (ابراہیم)کی بیوی (سارہ )کھڑی تھیں۔بس وہ ہنس پڑیں توہم(اللہ)نے انہی فرشتوں کے ذریعے انہیں اسحٰق کی اور اسحٰق کےپیچھے یعقوب کی خوشخبری دی۞وہ کہنے لگیں کہ کیا مجھے اولاد ہوگی اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ میں بڑھیا ہوں اور میرا یہ شوہر (ابراہیم)بھی بوڑھا ہوچکا ہے۞فرشتوں نے کہا کہ اللہ کے حکم پر تم تعجّب کررہی ہو۔اے(ابراہیم کی)اہل بیت تم پراللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔وہ بلاشک حمید ومجیدہے۞
آپ نےملاحظہ فرمایا بیوی ابھی صاحب اولاد نہیں ہے اور اسے اہلِ بیت کے لفظ سے مخاطب کیاجارہا ہےکیونکہ کہ اصالتا”صرف بیوی ہی اہلِ بیت ہوتی ہے۔

سبائیت نواز حضرات اس آیت کو دیکھ کربےحدچکرا جاتےہیں۔کیونکہ اس میں بڑی وضاحت کیساتھ صرف بیوی کو(جوایک ہی ہے)اہلِ بیت کہاگیا ہےاور اس سے گریز کرنے کےلئے یہاں انہیں کوئی حدیثِ کساءبھی نہیں ملتی۔یہاں اہلِ بیت کےمعنی بیوی لینے کےسوا کوئی چارہ نہیں۔یہاں یہ مانتے ہیں توسورة الاحزاب کی آیت کی تفسیر میں ازواجِ النبیؐ ہی کو اہلِ بیت ماننا پڑتاہے۔بےچارے کریں توکیا کریں۔

اب ان سبائیت نوازوں نے،جن میں شیعہ اور بعض سنی دونوں ہی ہیں،ایک پینترا بدلا۔ارشاد ہوا کہ دیکھئے سورۃ الاحزاب کےپورے چوتھے رکوع میں،جہاں بھی ازواجِ رسولؐ کےلئے ضمیریں آئی ہے،وہ سب کی سب مونث کی ضمیریں ہیں۔یہ تعداد میں بیس ہیں۔لیکن آیت تطہیر کہ اس ٹکڑے(اِنَّمَايُرِيْدُاللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الِرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيَطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرا)
دوجگہ عَنْكُمْ اوريُطَهِِّرْكْمْ میں جمع مذکر کی ضمیر آئی ہے۔لہٰذا یہ ثابت ہوگیاکہ آیہ تطہیر نہ سہی،لیکن آیہ تطہیر کے اس ٹکڑے سےتو ازواجِ مطہرات کا کوئی تعلق نہیں۔اس کا تعلق انہی چاراشخاص(چارتن) سے ہے جنہیں رسول اکرم ﷺ نےچادر اڑھاکر”اَللهُمَّ هٰوٌَلَاءِاَهْلَ الْبِيْتِی فرماياتها.جمع مذكر كی ضمير انہی کےلئے آسکتی ہے،ازواج کےلئے اگریہ ٹکڑا ہوتاتو عنکم اور یطہرکم کی بجائے عنکن اور یطہرکن ہوتا۔
بظاہر تو یہ ایسی وزنی بات معلوم ہوتی ہےجس کا کوئی جواب ہی ممکن نہیں۔میرے ایک دوست نے ایک مجلس میں یہ نکتہ بیان کیاتو سارا مجمع صلاة اور تحسین کےنعروں سے گونج اٹھا۔مجھ سے ملاقات کےدوران انہی صاحب نے یہ زوردار نکتہ بیان فرماکر مجھے ہمیشہ کےلئے لاجواب کرنےکی سعی لاحاصل فرمائی۔میں نے صرف اتنا عرض کیاکہ کسی پڑھے لکھے آدمی کےسامنے یہ نکتہ ہرگز بیان نہ فرمائیےگا کیونکہ مجھ جیسا کم علم ہیچمناں بھی اس فلسفے(fallacy)اور فریب سے واقف ہے۔ارشاد ہواکہ اس کا تو کوجواب ہی ممکن نہیں۔میں نے عرض کیا اچھا توپھر سنئے۔
دیکھئے عربی زبان کا ایک مسلمہ قاعدہ ہےکہ لفظ اِهد جس کےلئے آتاہے؟اس کےلئے جمع مذکر کی ضمیر آتی ہے۔وہ واحد ہو،تثنیہ ہو،جمع ہو،مذکرہو،مونث ہو،کچھ بھی ہوجب لفظ اِهدسےاسےیاد کریں گےتو لفظ اِهدكی ررعايت سے اس کےلئے ہمیشہ جمع مذکر ہی کی ضمیر آئےگی۔پورے کلام عرب میں اس کے خلاف کوئی مثال نہ ملےگی۔سب سے پہلے قرآن کودیکھئے۔

سورہ ہود کی آیت نمر۷۳کودیکھئے۔صرف ایک عورت (زوجہ ابراہیمؑ)سے فرشتے مخاطب کرکےکہتےہیں۔
قَالُوآ اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰهِ(کیاتو اللہ کے حکم میں تعجب کرتی ہے)لیکن اس کےساتھ ہی اسی جملے میں جب لفظ اہلِ بیت کہہ کرانہیں مخاطب کرتےہیں تو اسی آن صیغہ بدل جاتاہے۔رَحمَتُه اللّٰهُ وَ بَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ اَهلَ الْبَيْتِ،کہتے ہیں۔علیک نہیں فرماتے کیونکہ اس کا مرجع لفظ اھل ہے۔اسی طرح سیدنا موسیٰؑ اپنی بیوی کوساتھ لیکر وادی سینامیں پہنچتے ہیں تو دور سے روشن آگ دیکھر اپنی بیوی سےفرماتےہیں اِذْقَالَ لِاَھْلَہ امکثو۔۔۔۔لعلی اتیکم۔۔۔۔۔لعلکم تصطلون اپنی بیوی سے فرمایا۔ٹہرو میں شاید تمہارے پاس آگ لیکرآؤں تاکہ تم آگ سینکو۔یہاں ہرجگہ جمع مذکور کاصیغہ آیاہے۔امکثی نہیں امکثواہے۔ایتک کی بجائے ایتکم ہےاور لعلک تصطلین کی جگہ لعلکم تصطلون ہے۔یہ جمع مذکر کی ضمیریں صرف لفظ اھل کی رعایت سےلائی گئی ہیں۔
ایک شاعر زبیدہ خاتون کی مدح میں(نہر زبیدہ بننےکےبعد)کہتا ہے۔
یااھل بیت خلیفتہ اللہ الغنی 
یا اللہ انتم زبدۃ النسران
(یعنی اےخلیفتہ اللہ کی بیوی!تم تو عورتوں کامکھن(خلاصہ)ہو)
یہاں ایک عورت ہی مخاطب ہے،لیکن لفظ اِھل سے مخاطب ہونےکی وجہ سے اَنْتَ نہیں بلکہ اَنْتُمْ کی جمع مذکرکی ضمیر لائی گئی ہے۔
اس کی مثال اردو زبان میں لفظ "ہم”ہے۔بولنے والا ایک ہویازیادہ،مونث ہویا مذکر،بہرحال یہ مذکر ہی بولا جائےگا۔ایک مرد اور ایک عورت بھی یہی کہےگی کہ ہم آتےہیں۔آتی ہیں کہنا غلط ہےاور زیادہ مرد اور زیادہ عورتیں بھی یہی کہیں گی۔لفظ "لوگ "کی بھی یہی شکل ہے۔صرف عورتیں مخاطب ہوں،جب بھی یہی کہیں گےکہ "تم لوگ کہاں جارہےہوں "۔۔۔”کہاں جارہی ہو” کہنا درست نہیں۔
اچھا ایک بات اور بھی سن لیجئے۔اگر لفظ اہل نہ بھی ہو اور مخاطب صرف عورتیں ہوں،جب بھی بعض مواقع پر ان کی جمع مذکر کے صیغے سے یاد بالکل درست ہوتاہے۔اس کی چند مثالیں احادیثِ نبوی سے لیجئے۔یہ سب مثالیں صحیح بخاری میں موجود ہیں۔

رسول اکرم ﷺجب غارحرا سے لرزاں وترساں گھر تشریف لائےتو گھر کےاندر مردوں کی جماعت موجود تھی۔رسول اکرمؐ صرف سیدہ خدیجہؓ سے مخاطب ہوکر بصیغہ جمع مذکر فرماتےہیں۔زملونی زملونی(مجھے چادر اڑھا دو)حالانکہ زملینی ہوناچاہیے تھا۔
مرضِ وفات میں رسول اکرمﷺ کو جب تیزبخار چڑھا تورسول اکرﷺ نےازواج مطہرات سے مخاطب ہوکر فرمایا۔
ھریقو علی سبع قرب لم تحال او کیتھن۔
مجھ پرسات لبريز مشکیزے انڈیل دو۔

مخاطب عورتوں کی رعایت سےجمع مونث کا صیغہ ھریقن ہوناچاہیے لیکن رسول اکرمؐ نے جمع مذکر کا صیغہ ھریقوا استعمال فرمایا۔

صیت نامی ایک مخنث کوبعض ازواج مطہرات کےپاس بیٹھادیکھ کر رسول کریمؐ نےفرمایا۔
لایدخلن ھذا علیکم 
یہ تملوگوں کےپاس نہ آیا کرے۔
یہاں اس پردے کا حکم صرف عورتوں کو دینا مقصود تھا لیکن ان کو علیکن(بہ صیغہ جمع مونث حاضر )نہیں بلکہ جمع مذکر حاضر علیکم فرمایا۔پس جب بغیر لفظ اھل کےصرف ایک یا زیادہ عورتوں کےلئے جمع مذکر کا صیغہ آسکتاہےتولفظ اھل کےساتھ تو واحد مونث یا جمع مونث کا صیغہ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کیونکہ لفظ اھل کےلئے ہمیشہ جمع مذکر ہی کی ضمیر لائی جاتی ہے۔اور ہمیں کوئی آیت قرآنی ،کوئی حدیث نبوی کوئی شعر جاہلیت ،کوئی کلام عرب ایسا نہ مل سکا جس میں لفظ اھل کےلئے جمع مذکر کےسوا کوئی دوسرا صیغہ لگایا گیاہو۔خواہ یہ لفظ واحد کےلئے آیاہو یا تثنیے کےلئے یاجمع کےلئے اور مذکر کےلئے ہویامونث کےلئے،نیز اہل بیت کو جانے دیجئے صرف ایک لفظ اھل بھی بیوی کےمعنی میں اس کثرت سے عربی زبان میں مستعمل ہےکہ قرآن،احادیث اور فقہ اور لغت کی کوئی کتاب بھی اس سے خالی نہیں۔الفرائد الدریہ میں اھل اور تاھل کےمعنی ہیں to marry(شادی کرنا)اور اھل الرجل کےمعنی ہیں wife(بیوی)میں یہ نہیں کہتا کہ تنہا لفظ اھل اور کسی معنی میں نہیں آتا،میں صرف یہ عرض کررہا ہوں کہ یہ لفظ جب بیت کےساتھ مل جائے تو اصالتا” اس کے معنی صرف بیوی کے ہوتے ہیں۔اھل کےمعنی ہیں”والا”بلکہ "والے”اہل العلم "علم والے”اہل حدیث "حدیث والے”اہل قرآن "قرآن والے”اہل فقہ "فقہ والے "اسی طرح اہل بیت”گھر والے "اور کون نہیں جانتا کہ گھروالے سےکون مراد ہیں۔
آیہ تطہیر میں اہل بیت سےنبی کریمﷺ کے گھر کےسوا اور کوئی گھر مراد نہیں ہوسکتا۔نبی ﷺکےگھر وہی تھے جن میں نبیؐ کی بیویاں تھیں۔انہی گھروں کو ازواجِ النبی کاگھرکہاگیاہے،جیساکہ آیت تطہیر کے فوراً بعد فرمایاگیاہے.وَاذْكُرْنَ مَايُتْلٰی فِی بُيُوتِكُنَّ اگر اور زیادہ وضاحت مطلوب ہےتو سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۳ملاحظہ فرمائیے ۔ارشاد ہوتاہے۔
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا لَاتَدْخُلُوا بُيُوتَ الْنَّبِيِّ اِلَّااَنْ يُّوءذَنَ لَكُمْ وَاِذَ اسَاَلْتُمُو هُنَّ مَتَاعًا فَسْٸَلُوهُنَّ مٍنْ وَّرَآءٍحٍجَابٍ۔
(الاحزاب ۵۳)
اپمان والوں نبی کے گھروں میں اس وقت تک نہ داخل ہو جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے۔اور اگر ان بیویوں سے کوئی کام کی چیز مانگوں تو پردے کےباہر سےمانگو۔
اس آیت میں نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت داخل ہونے کی ممانعت ہے اور اسی آیت میں ازواجِ النبی سے پس پردہ سوال کرنے کی ہدایت ہے۔یعنی جو گھر نبی کاہےوہی ازواجِ النبی کاہے۔پس گھر والوں (اہل بیت )سے مراد ازواجِ النبی،امہات المؤمنین کےسوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔

اب یہ خود فیصلہ کرلیجئے کہ آخر اس قسم کی لفظی و معنوی تحریفات کا مقصد کیاہے؟مقصد صرف ایک ہے کہ کسی طرح اسلام کی اصل بنیاد قرآن مجید مشتبہ ہوکر رہ جائے۔جب یہ مشتبہ ہوجائےگا تومہاجرین و انصار کےوہ فضائل و مناقب بھی مشتبہ ہوجائیں گےجن سے قرآن بھرا پڑا ہےاور جب یہ مشتبہ ہوجائیں گےتو پوری تاریخ اسلام مشتبہ جائےگی۔اس کےبعد آسانی سے فرضی روایات کےذریعے ان لوگوں کو،جو نہ مہاجر ہیں نہ انصار (مثلاً )جناب حسین اور ان فرضی اماموں کو،جن کاکوئی ذکرنہ قرآن میں ہے،نہ حدیث میں،ان سب مہاجرین و انصار کی گردن پر سوار کرادیاجائےگا۔اور سب سے افضل ثابت کردیا جائےگا۔نتیجہ یہ نکلےگا کہ سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم آجمعین اور تمام ازواجِ مطہرات رضوان اللہ علیہما غاصب قرار پائیں گے،جنہوں نے سیدنا علیؓ کا حق چھین لیا،ان سے جنگ کی۔یہ ہےسبائی پروگرام کاوہ حصہ جس کی شکل تحریف قرآن کی سعی لاحاصل ہے۔
ہم نے تحریف کی صرف ایک مثال پیش کی ہے۔باقی امثلہ کا ذکرآگےآئےگااور اس دوران یہ بھی سوچتے رہئے کہ سبائیوں کاپروپیگنڈا کیسا زبردست اور منظم ہےکہ "فری میسن "کی تحریک وتنظیم اسکا ایک حصہ نظر آتی ہے۔حدیہ ہےکہ سنی حضرات بھی "اہل بیت”کے معنی عام طور پر وہی سمجھتے ہیں،فرضی اماموں کو بھی امام مانتےہیں،محرم میں کوئی نکاح کرنا نہایت مکروہ سمجھتے ہیں۔کچھ جعفر کاکونڈا کرنا اتنا ضروری اور بابرکت سمجھتے ہیں کہ انہیں یقین ہوتاہے کہ اگر کونڈا نہ کیاتو ہمارا کونڈا ہوجائےگا۔حالانکہ ۲۲رجب جعفر کی وفات کادن ہی نہیں، وہ تاریخ ہے امیرالمؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا۔ان کی وفات کی خوشی وہ سنیوں کے ہاتھوں سے جعفر کاکونڈابتاکرمنواتےہیں۔جس طرح عید غدیر امیرالمؤمنین سپدناعثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خوشی میں منائی جاتی ہے۔سنیوں میں کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو بڑے ذوق و شوق سے تعزیہ نکالنا بڑا کار ثواب اور باعثِ برکت سمجھتے ہیں۔غرض اس قسم کی تمام خرافات سبائیوں کےواسطے سے سنیوں میں گھس آئی ہیں۔دوسرے فرقے اگر کچھ کرتے ہیں تو وہ شوق سے کریں ،ہم تو صرف اپنے سنی بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندر جھانک کرجائزہ لیں کہ سبائیت کا کتنا حصہ ان کے اندر سرایت کیے ہوئے ہے؟

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.