سورۃ القلم آیت 10۔ ملحدین کا اللہ تعالیٰ پر بدزبانی کا اعتراض۔ تحریر محمد نعیم خان

اگر کسی کلام کو بغیر پڑھے رد کرنا ہو یا اس میں کیڑے نکالنے ہوں تو پھر نہ تو کسی تحقیق کی آپ کو ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی کسی دلیل کی۔ بس اعتراضات اٹھانے ہوتے ہیں جبکہ سائنس کی مالا جبنے والے یہ ملحد، سائنس کی اس رحمت سے فائدہ نہیں اٹھاتے جس نے آج کسی زبان کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے۔ اب گھر بیٹھے انڑنیٹ پر آپ کو ہر زبان کی لغت مل جائے گئ جس میں اس زبان میں استعمال ہونے والے الفاظ کا درست مفہوم سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔ اس کے علاوہ جس کلام پر اعتراض اٹھانہ ہو پہلے اس کو پڑھ کر دیکھ لیا جائے کہ خود یہ کلام ایک لفظ کو کس طرح اور کن معنوں میں استعمال کرتا ہے۔

اللہ نے بار بار قران میں یہ بات تکرار کے ساتھ بیان کی ہے کہ اللہ نے یہ کلام یعنی قرآن عربی میں نازل کیا ہے۔ اب اگر آپ انگریزی کی کتاب پڑھ رہے ہوں اور اس میں بار بار یہ بات لکھی ہو کہ یہ کتاب انگریزی میں ہے تو ایک انسان یہ سوال کر سکتا ہے کہ یہ ایسی کون سی بات ہے جس کا اظہار اتنی شدت سے مصنف اپنے قاری کو کروا رہا ہے۔ یہ بات تو مجھے معلوم ہے تبھی تو اس کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مصنف یہ بات اپنے قاری کو ذہن نشین کروانا چاہتا ہے کہ اس میں استعمال ہونے والے الفاظ کے معنی و مطلب وہی لئے جایں گے جو اس زبان میں معروف ہیں نہ کہ کسی اور زبان میں ۔

بلکل یہی معملہ قرآن کا بھی ہے۔ اللہ کا بار بار یہ بات بیان کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس کلام میں استعمال ہونے والے الفاظ کے معنی و مطلب وہی لئے جایں جو عربی میں معروف ہیں نہ کہ کسی اور زبان میں ۔ 
سورہ القلم کی آیت 10 کے حوالے سے بھی یہی معملہ ہے۔ آیت پیش خدمت ہے :

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ﴿١٠﴾ 
اور آپ(ص) ہرگز ہر اس شخص کا کہنا نہ مانیں جو بہت (جھوٹی) قَسمیں کھانے والا ہے (اور) ذلیل ہے۔ (10) 
ترجمہ محمد حسین نجفی

اب اس میں دو الفاظ حَلَّافٍ اور مَّهِينٍ قابل غور ہیں ۔ ’حَلَّافٌ‘ کے معنی بہت زیادہ قسم کھانے والے کے ہیں ۔ یہ لفظ بالعموم اچھے معنوں میں نہیں آتا۔ یہ لفظ قرآن میں 13 مرتبہ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے بارہ مرتبہ یہ جھوٹی قسمیں کھانے والوں کے لئے قرآن میں آیا ہے۔ اس لئے اس سے مراد جھوٹی قسمیں کھانے والے لوگ ہیں 
اب دوسرا لفظ مَّهِينٍ ہے۔ جس کا مطلب کمزور ، حقیر، ذلیل ، ایسا شخص جس کی رائے کی کوی اہمیت نہ ہو یعنی قلیل الرائے ۔ یہ لفظ قرآن میں چار مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

الفاظوں کی اس تشریح کے بعد یہ بات اب واضع ہوگی کہ یہاں رسول اللہ کو کیا ہدایت دی جاری ہے۔ سادہ سے الفاظ میں یہ بات بیان ہو رہی ہے کہ ایسی جھوٹی قسمیں کھانے والوں کی بات نہ سنیں ۔ ان پر کان نہ دھریں کیوں کہ ایسی قسمیں وہی کھا سکتا ہے جس کو اپنی عزت نفس کا خیال نہ ہو۔ پھر ایسی قسمیں کھانے والوں کی رائے کی کوی حثیت باقی نہیں رہتی اور رہے بھی کیسے کیوں کہ ان کی بات کا اعتبار کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اب نہ تو یہاں اللہ گالیاں نکال رہا ہے اور نہ ہی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ایک عام سا عربی کا لفظ استعمال کرہا ہے جس کا مطلب عربی میں نہ تو گالیاں دینا ہے اور نہ ہی دھمکی۔ عربی کے لفظ کا ترجمہ اردو زبان میں استعمال ہونے والے لفظ سے کردینا اور پھر اس پر اعتراض اٹھانا انتہائ نددیانتی کی بات ہے۔

اب کیوں کہ ترجمہ میں ذلیل کا لفظ استعمال ہوا ہے اس لئے ملحدیں اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اللہ گالیاں دے رہا ہے۔ جبکہ یہ لفظ ذلیل بھی عربی کا لفظ ہے جس کو ہمارے ہاں برے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے جیسے عربی کا لفظ لعنت ہمارے ہاں کسی کی بے عزتی کرنی ہو تو بولا جاتا ہے۔

اب ذلیل کا مطلب عربی میں کسی غیر کے دباو کی وجہ سے کسی کی سختی اور منہ زوری ٹوٹ جائے اور وہ مظیع اور فرمابردار ہوجائے۔ جس میں اس کی دل کی رضا مندی شامل نہ ہو۔ اس ہی طرح لعنت کے معنی اپنے آپ سے دور کردینا ہے اور اللہ کی طرف سے لعنت سے مراد انسان کا زندگی کی خوشگواریوں سے محروم ہونا ہے اور ظاہر ہے یہ محرومی یا دوری اللہ کے قوانین کے خلاف زندگی بسر کرنے کا نتیجہ ہوگی۔

عربی کے ان الفاظوں کے وہ معنی اگر ذہن نشین رہیں جو خود عربی زبان میں معروف ہیں نہ کہ وہ معنی جو سفر کر کے دوسری زبان جیسا کہ اردو میں معروف ہیں ، تو جو اعتراضات یہ ملحدیں اٹھاتے ہیں ان کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ اللہ ہمیں اس کا کلام سمجھنے اور اس پر غور و تدبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.