سید اور زکوۃ ! از قاری حنیف ڈار
ہر سال رمضان میں یہ مسئلہ لوگوں کو پریشان کرتا ہے ـ فرماتے ہیں کہ میرے ایک عزیز سید ہیں بہت غریب ہیں چونکہ سیدوں کو زکوۃ نہیں لگتی لہذا چاہتے ہوئے بھی میرے سمیت بہت سارے رشتےدار ان کی مدد نہیں کر پاتے کیونکہ ہم بھی بس زکوۃ ہی نکال سکتے ہیں اور ھماری حیثیت بھی اتنی نہیں کہ ان کی مدد کریں ، لہذا ہم کوئی حیلہ وغیرہ کر لیں کہ کسی دوست سے کہیں کہ وہ ان کی مدد کر دے اور ہم زکوۃ سے اس دوست کو ادائیگی کر دیں تو چلے گا ؟
عرض کیا کہ جو لوگ خدا کو بھی دھوکہ دینے کی سوچ سکتے ہیں ، سی بی آر والوں کا باپ بھی ان سے کچھ نہیں لے سکتا ، جو شریعت لوگوں کو اس طرح دغے، فریب اور ہیرا پھیری پر مجبور کر دے وہ خدائی شریعت نہیں ھو سکتی ، انسانوں کی بنائی گئ مصنوعی شریعت ہی یہ واردات کر سکتی ہے ـ
سیدوں کو زکوۃ گج وج کے لگتی ہے ، کوئی ممانعت نہیں قرآنِ حکیم نے زکوۃ کی جو مدیں بیان کی ہیں ان میں سیدوں کا استثناء کہیں نہیں کیا گیا جو بھی فقیر اور مسکین ہے وہ زکوۃ کا مستحق ہے ، انما الصدقات للفقراء والمساکین ،،
سیدوں کو زکوۃ و صدقات کی ممانعت کی وجہ شرعی نہیں بلکہ انتظامی ہے ـ چونکہ نبئ کریم ﷺ سمیت بنو ھاشم کو خیبر کی جاگیر سے سالانہ خرچہ دیا جاتا تھا ،لہذا ان کو مسلمانوں کے بیت المال سے کسی قسم کی ادائیگی کی ممانعت کر دی گئ تھی تا کہ بنو ھاشم کو ڈبل نہ ملے ، خیبر والی جاگیر سے بھی اور بیت المال سے بھی ،،
اب جبکہ سیدوں کے لئے کوئی سرکاری الاؤنس مقرر نہیں ہے تو سید فقراء و مساکین بھی عام مسلمانوں کی طرح زکوۃ کے حقدار ہیں ، البتہ سید کون کون ہے اس پر فیصلہ چودہ صدیوں میں نہیں ھو سکا ،، کچھ لوگ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس اولاد کو ہی سید سمجھتے ہیں جو حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا سے ہیں ، وہ حضرت علیؓ کی باقی بیویوں سے ھونے والی اولاد کو بھی سید نہیں سمجھتے تو باقی بنو ھاشم کو کیوں تسلیم کریں گے ، یہ شیعہ سیدوں کی قسم ہے ، باقی لوگوں کے نزدیک وہ تمام خاندان جو خیبر کی جاگیر سے سالانہ الاؤنس پاتے تھے وہ سب سید ہیں ،جن میں بنو عباس ، بنو جعفر ،بنو عقیل ،بھی شامل ہیں ـ شیعانِ علیؓ نے حضرت عباس اور ان کی آل کو سیدوں میں شمار نہیں کیا ،یہی وجہ تھی کہ یہ عباسیوں کے خلاف ہمیشہ بغاوت بپا کرتے رہے اور تہہ تیغ ہوتے رھے ، شیعانِ علی کو بنو امیہ نے اتنا نہیں مارا جتنا عباسی خلفاء نے مارا ـ شریعت سب کے لئے ایک ہے ، اس میں کوئی ایلیٹ کلاس نہیں ہے ، رسول اللہ ﷺ کی احتیاطی ممانعت کو مستقل شریعت کا نام نہیں دیا جا سکتا ـ