علمائے اسلام کے لیے ایک چیلنج۔۔ چند سوالات اور جوابات

برسلیز سے ایک غیر مسلم نے مسلم علماء سے کچھ سوالات کیے ہیں ۔ اور دعویٰ کیا ہے اسے آج تک ان کے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملے ۔ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر ان سوالوں کا جواب کسی پاس نہیں ہے تو مغرب اس کی بنیاد پر اسلام کو دہشت گردی کوپروان چڑھانے والا مذہب کیوں نہ سمجھے؟ ہم نے ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے مناسب خیال کیا ہے کہ اس بلاگ کے ذریعے سے یہ سوالات پاکستانی علمائے دین کے سامنے رکھے جائیں ۔
پہلاسوال: مسلمانوں کو سیکولر ملکوں میں تبلیغ کی پوری اجازت ہے ۔ کیا مسلمان ملکوں میں کسی غیر مسلم سکالر کو اپنے مذہب کی اس پیمانے پر تبلیغ کی اجازت ہے ؟اگر نہیں تو اسلام کورواداری کے خلاف مذہب کیوں نہ سمجھا جائے؟
دوسرا سوال:اگر غیر مسلم اسلام قبول کرے تو شاباش ، اور اگرمسلمان اپنا مذہب چھوڑے تو واجب القتل ۔ کیا یہ انصاف ہے ؟ اس قانون کو شریعت قرار دینے والے گروہِ انسانی کو دور جدید کے آزادی پسندمعا شروں میں رہنے کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟
تیسرا سوال:اگر اسلام سلامتی کا مذہب ہے تو مسلمان غیر مسلم کو ’’السلام علیکم ‘‘ کیوں نہیں کہتے ؟
چوتھا سوال :کیا تمام مکتبہ فکر کے مسلمان علماء نے متفقہ طور پر اپنے اس موقف کو عالمی سطح پر پیش کیا ہے کہ خود کش دھماکے مسلمانوں کے خلاف ہوں یا غیر مسلموں کے خلاف، وہ اسلام میں حرام ہیں ۔
پانچواں سوال :قرآن میں ہے :ان اہل کتاب سے جو نہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نہ اللہ اور اس کے رسول کے حرام ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہراتے اور نہ دین حق کی پیروی کرتے، جنگ کرو تا آنکہ وہ مغلوب ہو کر جزیہ ادا کریں اور ماتحت بن کر زندگی بسر کرنے پر راضی ہوں۔(سورۃ توبہ29 )کیا مسلمان اس قرآنی آیت کو شریعت کا حصہ سمجھتے ہیں ؟ اگر سمجھتے ہیں تو کیا وہ عالمی امن کے لیے خطرہ نہیں؟ چھٹا سوال :’’اے ایمان والو، تمہارے گرد و پیش جو کفار ہیں ان سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تمہارے رویہ میں سختی محسوس کریں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یہ بھی سورۃ توبہ ہی کی آیت ہے، اس پر ایمان رکھنے والی اسلامی ریاست اپنے غیر مسلم ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ امن سے کیسے رہ سکتی ہے ؟
ان سوالوں کے جواب اہل علم پر قرض ہیں ۔ کیا کوئی ہے جو امت کی طرف سے اس قرض کو ادا کرنا چاہے گا؟
نعیم احمد بلوچ.

جوابات: پروفیسر محمد عقیل

وعلیکم السلام امین بھائی
بہت عمدہ سوالات ہیں۔ میں روایت سے ہٹ کر جواب دینے کی کوشش کروں گا عین ممکن ہے بعض لوگوں کو عجیب لگے لیکن اگر کوئی خرابی ہم میں ہے تو اسے دور کرنا چاہیے ناکہ اس کا دفاع کرنا چاہیے:

پہلاسوال: مسلمانوں کو سیکولر ملکوں میں تبلیغ کی پوری اجازت ہے ۔ کیا مسلمان ملکوں میں کسی غیر مسلم سکالر کو اپنے مذہب کی اس پیمانے پر تبلیغ کی اجازت ہے ؟اگر نہیں تو اسلام کورواداری کے خلاف مذہب کیوں نہ سمجھا جائے؟

غیر مسلموں کو بھی تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے۔ 

دوسرا سوال:اگر غیر مسلم اسلام قبول کرے تو شاباش ، اور اگرمسلمان اپنا مذہب چھوڑے تو واجب القتل ۔ کیا یہ انصاف ہے ؟ اس قانون کو شریعت قرار دینے والے گروہِ انسانی کو دور جدید کے آزادی پسندمعا شروں میں رہنے کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟

اس پر غامدی صاحب نے بہت عمدہ تشریح کردی کہ مرتد کی سزا موت کا حکم بنی اسماعیل کے خاص تھا اور یہ آج کے مسلمانوں کے لیے نہیں۔ آج مسلمان آزاد ہیں جو مذہب چاہیں اختیار کریں۔ 

تیسرا سوال:اگر اسلام سلامتی کا مذہب ہے تو مسلمان غیر مسلم کو ’’السلام علیکم ‘‘ کیوں نہیں کہتے ؟

سلام کرنا چاہیے خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ نبی کریم کے زمانے میں چونکہ کافروں کا کفر واضح ہوچکا تھا اس لیے ان پرسلامتی نہیں بھیجی جاتی تھی ۔ 

چوتھا سوال :کیا تمام مکتبہ فکر کے مسلمان علماء نے متفقہ طور پر اپنے اس موقف کو عالمی سطح پر پیش کیا ہے کہ خود کش دھماکے مسلمانوں کے خلاف ہوں یا غیر مسلموں کے خلاف، وہ اسلام میں حرام ہیں ۔

جی اب تو پاکستان میں علما نے متفقہ طور پر یہ کام کیا ہے اور باقی دنیا میں بھی کم و بیش یہی صورت حال معلوم ہوتی ہے۔ استثنا کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ 

پانچواں سوال :قرآن میں ہے :ان اہل کتاب سے جو نہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نہ اللہ اور اس کے رسول کے حرام ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہراتے اور نہ دین حق کی پیروی کرتے، جنگ کرو تا آنکہ وہ مغلوب ہو کر جزیہ ادا کریں اور ماتحت بن کر زندگی بسر کرنے پر راضی ہوں۔(سورۃ توبہ29 )کیا مسلمان اس قرآنی آیت کو شریعت کا حصہ سمجھتے ہیں ؟ اگر سمجھتے ہیں تو کیا وہ عالمی امن کے لیے خطرہ نہیں؟یہ رسول کے مخاطبین کے لیے جن پر قانون دینونت کا اطلاق ہوتا ہے۔ 

 چھٹا سوال :’’اے ایمان والو، تمہارے گرد و پیش جو کفار ہیں ان سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تمہارے رویہ میں سختی محسوس کریں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یہ بھی سورۃ توبہ ہی کی آیت ہے، اس پر ایمان رکھنے والی اسلامی ریاست اپنے غیر مسلم ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ امن سے کیسے رہ سکتی ہے ؟

یہ رسول کے مخاطبین کے لیے جن پر قانون دینونت کا اطلاق ہوتا ہے۔ 

 

جوابات: رانا محمد عاشق

عقیل بھائی نے عمدہ جوابات دیئے ہیں ۔ تاہم میں ان میں کچھ اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ اسلام میں قرآن کے علاوہ کوئی چیز بھی حجت نہیں ہے۔ پس قرآن کی ہی روشنی میں جواب دینے کی کوشش کی  گئی ہے۔

پہلاسوال: مسلمانوں کو سیکولر ملکوں میں تبلیغ کی پوری اجازت ہے ۔ کیا مسلمان ملکوں میں کسی غیر مسلم سکالر کو اپنے مذہب کی اس پیمانے پر تبلیغ کی اجازت ہے ؟اگر نہیں تو اسلام کورواداری کے خلاف مذہب کیوں نہ سمجھا جائے؟

جواب: قرآن پاک میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہے جس  کی رو سے غیر مسلموں کو اسلامی ممالک  میں ان کے اپنے مذاہب کی تبلیغ سے روکا جاسکتا ہو۔(اگر کوئی  ایسا حکم موجود ہے تو مہربانی کرکے پیش کیا جائے)۔  بلکہ اس کے برعکس  وہ تو  ایک ایسا عمومی اصول پیش کرتا ہے جس کے مطابق مذہب  کے معاملہ میں  ہر شخص  کو پوری پوری آزادی حاصل ہے  کہ جو دین چاہے وہ  اختیار کرے  اور جس دین کی چاہے  تبلیغ کرے۔ لا اکرا ہ فی دین "دین کے معاملہ میں زیادتی نہیں ہے” کا مطلب یہی ہے تو ہے۔ اگر کسی  مسلم ملک میں اس کی اجازت نہیں ہے تو اس کا  یہ عمل  اسلام میں حجت نہیں ہے۔ اسلام میں حجت صرف قرآن ہے۔

دوسرا سوال:اگر غیر مسلم اسلام قبول کرے تو شاباش ، اور اگرمسلمان اپنا مذہب چھوڑے تو واجب القتل ۔ کیا یہ انصاف ہے ؟ اس قانون کو شریعت قرار دینے والے گروہِ انسانی کو دور جدید کے آزادی پسندمعا شروں میں رہنے کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟

جواب: قرآن کی رو سے جومسلمان اپنا دین چھوڑے وہ ہرگز  ہرگز واجب القتل نہیں ہے۔ اگر قرآن  میں ایسا کوئی حکم موجود ہے  تو پیش کیا جائے۔

تیسرا سوال:اگر اسلام سلامتی کا مذہب ہے تو مسلمان غیر مسلم کو ’’السلام علیکم ‘‘ کیوں نہیں کہتے ؟

جواب: عام حالات میں غیر مسلموں  کو "السلام و علیکم ” کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم اگر مسلمان غیر مسلموں   کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں  تو سلامتی  بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ نہ مسلمانوں کی طرف سے اور نہ غیر مسلموں کی طرف سے۔

چوتھا سوال :کیا تمام مکتبہ فکر کے مسلمان علماء نے متفقہ طور پر اپنے اس موقف کو عالمی سطح پر پیش کیا ہے کہ خود کش دھماکے مسلمانوں کے خلاف ہوں یا غیر مسلموں کے خلاف، وہ اسلام میں حرام ہیں ۔

جواب:  خود کش دھماکے مسلمانوں کے خلاف ہوں یا غیر مسلموں کے خلاف، وہ اسلام میں حرام ہیں ۔ اگر مسلمان علماء متفقہ طور پر اپنے اس موقف کو عالمی سطح پر پیش نہیں کرسکے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اسلام کی نمائندگی یہ علماء نہیں کرتے بلکہ اس کی نمائندگی صرف اور صرف قرآن کرتا ہے۔ اور قرآن کہتا ہے ” مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ” جس نے قتل کیا  کسی انسان کو بغیر اس کے  کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا فساد مچایا ہو زمین میں  تو گویا اس نے قتل کر ڈالا  سب انسانوں کو  اور جس نے زندگی بخشی ایک انسان کو  تو گویا زندگی بخشی اس نے  سب انسانوں کو (المائدہ:32)۔

پانچواں سوال :قرآن میں ہے :ان اہل کتاب سے جو نہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نہ اللہ اور اس کے رسول کے حرام ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہراتے اور نہ دین حق کی پیروی کرتے، جنگ کرو تا آنکہ وہ مغلوب ہو کر جزیہ ادا کریں اور ماتحت بن کر زندگی بسر کرنے پر راضی ہوں۔(سورۃ توبہ29 )کیا مسلمان اس قرآنی آیت کو شریعت کا حصہ سمجھتے ہیں ؟ اگر سمجھتے ہیں تو کیا وہ عالمی امن کے لیے خطرہ نہیں؟

جواب: جس آیت کا حوالا دیا گیا ہے وہ یہ ہے:”(قَا  تِلُوا لَّذِیْنَ) وَلَا یُدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ  مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْ االْکِتٰبَ حَتّٰی  یُعْطُواا لْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ  وَ ھُمْ  صٰغِرُوْنَ” اور( لڑو ان لوگوں سے)  جو نہیں قبول کرتے  دین حق کو   ان لوگوں میں سے جنہیں دی گئی  کتاب ، حتیٰ کہ وہ دیں جذیہ اپنے ہاتھ سے   اور بن کر رہیں چھوٹے (التوبہ:29)۔کسی بھی جدید ریاست کی مثال لے لیجئیے۔  اگر کوئی شخص  اس ریاست میں رہتے ہوئے اس ریاست کے  آئین اور قانون کو نہیں مانے گا، اس ریاست کے قانون کے مطابق  ٹیکس ادا نہیں کرے گا اور اگر وہ کسی اور ملک  کا شہری ہے تو چھوٹا بن کر نہیں رہے گا  تو کیا وہ ریاست اس شخص کے وجود کو برداشت کرے گی؟ اگر جواب ہاں میں ہو تو وہ ملک بتایئے جہاں  اس کے وجود کو برداشت کیا جاسکتا ہو اور اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر یہ اعتراض اسلام پر کیوں؟   یاد رہے جذیہ ایک ٹیکس ہے ۔

چھٹا سوال :’’اے ایمان والو، تمہارے گرد و پیش جو کفار ہیں ان سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تمہارے رویہ میں سختی محسوس کریں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یہ بھی سورۃ توبہ ہی کی آیت ہے، اس پر ایمان رکھنے والی اسلامی ریاست اپنے غیر مسلم ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ امن سے کیسے رہ سکتی ہے ؟

جواب: سورہ توبہ کے ایسے احکامات  جن کا حوالہ دیا گیا ہے  وہ عمومی نہیں خصوصی نوعیت کے تھے۔ کفار مکہ نے تیرہ سال مسلمانوں   کو مکہ میں تکالیف پہنچائیں اور ہر قسم کا ظلم ان پر روا رکھا۔مسلمانوں نے اپنی مدافعت میں ایک دن بھی تلوار نہیں اٹھائی۔ ہجرت کے بعد کفار مکہ نے ان مسلمانوں پر جو مکہ میں ہی رہ گئے تھے اور ہجرت نہیں کرسکے تھے ظلم کی انتہا کردی، مسلمان پھر بھی صبر ہی کرتے رہے۔مسلمانوں نے مدینہ میں رہتے ہوئے اپنی مدافعت میں تلوار اٹھائی اور جنگ بدر، جنگ احد  اور جنگ خندق میں اپنا دفاع کیا۔ کیا ان کو اس کا بھی حق حاصل نہیں تھا؟۔  پھر کفار مکہ نے معاہدے توڑے کیا مسلمانوں کو ان معاہدات کی پاسداری کے لئے اٹھنا نہیں چاہیئے تھا ؟پھر بھی معاہدوں کی پاسداری کے لئے جو جنگ کی گئی وہ بھی دنیا کی انوکھی جنگ تھی۔ جس میں ایک بھی خون نہیں بہا۔ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگیا اسے بھی پناہ۔ جو اپنے گھر میں داخل ہوگیا اور دروازہ بند کرلیا اسے بھی پناہ۔ جس نے لڑائی سے ہاتھ کھینچ لیا  اسے بھی پناہ۔ جو کعبے میں داخل ہوگیا اسے بھی پناہ۔ غرضیکہ  پناہ ہی پناہ عافیت ہی عافیت ۔ ہاں جس نے ہتھیار نہیں ڈالے  اس سے لڑنے کے لئے کہا گیا اور ان سے سختی کے ساتھ نپٹنے کے لئے کہا گیا تو اس میں کونسی ایسی ان ہونی ہوگئی۔ کیا آج کی مہذب ریاستیں ایسے باغیوں کو معاف کر دیتی ہیں ؟ اگر نہیں تو کیا ان کے ہمسایے میں رہنے والی دوسری ریاستیں غیر محفوظ  اور غیر مامون ہوجاتی ہیں؟

جواب محمد فاروق علوی

نعیم احمد بلوچ کے نام سے کسی نے کچھ سوالات فیس بُک پر شئیر کیے ہیں جو دوسال پُرانے ہیں لیکن ہماری نظر سے ابھی گذرے ہیں، پتا نہیں یہ سوال بلوچ صاحب کے اپنے ہیں یا انہوں نے بھی کسی سے نقل کیے ہیں تاہم ذیل میں جواب حاضر ہے، سائل کے انداز سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی طرف سے یہ اسلام پر کاری ضرب ہے اور یہ وہ سوال ہیں گویا ان کا جواب اسلام کے پاس ہے ہی نہیں، الحمد للّٰہ مُلحدین کے ہر سوال کا جواب موجود ہے، قاری حنیف ڈار صاحب اس محاذ پر چونکہ کام کررہے ہیں اس لیے ہم اس طرح کی بحثوں میں اکثر حصہ نہیں لیتے تاہم پہلے تین سوال ہماری نظر میں زیادہ اہم تھے ان کا جواب حاضر ہے۔

(۱) پہلے سوال کا جواب خود سوال ہی کے اندر موجود ہے، اسلامی ملک کا تقابل سیکولر سٹیٹ کے ساتھ کیا گیا ہے، سیکولر ممالک نے خدا کو اقتدار سے الگ کردیا ہے جبکہ اسلامی ممالک میں چاہے عملا کیسے بھی ہوں مُلکی نظریہ ہے کہ خدا سپریم ہے، اس لیے وہاں پر اسلام کے خلاف تبلیغ کرنا اسٹیٹ کے نظریہ کے خلاف ہے اور سٹیٹ کے نظریہ کے خلاف بات کوئی ملک بھی برداشت نہیں کرتا چاہے وہ سیکولر ہی کیوں نہ ہو، تو یہ بنیادی فرق ہے اسلامی ملک اور سیکولر ملک میں، اس لیے سیکولر ملک میں اسلام یا کسی بھی مذھب کی تبلیغ جائز ہے کیونکہ ایسی تبلیغ سٹیٹ کے نظریہ کے مطابق ہے جبکہ اسلامی ملک میں اسلام کے خلاف تبلیغ سٹیٹ کے نظریہ کے خلاف ہے اس لیے اجازت نہیں ۔
(۲) دوسرے سوال کاجواب بھی پہلے کے ساتھ ہی تعلق رکھتا ہے کہ جو اسلام سے نکلتا ہے کسی اسلامی ریاست کے اندر رہتے ہوئے تو گویا وہ یہ کہہ رہاہے کہ سٹیٹ کا جو نظریہ ہے کہ خدا سپریم ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے برحق آخری رسول ہیں ، یہ اسلامی ملک کی بنیاد ہے اور اسلام سے نکلنے والا دراصل سٹیٹ کی اس بنیاد کا منکر ہے اور اسے گرا رہا ہے اس لیے وہ سٹیٹ کا غدار ہے اور پوری دنیا میں سٹیٹ کے غدار کی سزا موت ہی ہے ، پوری دنیا میں غدار کے لیے یہی قانون ہے، اسلام نے کوئی انوکھا قانون نہیں بنایا، مرتد کو یہ سزا صرف اسلامی سٹیٹ میں ہے، اگر کسی سیکولر ملک یا غیراسلامی ملک میں کوئی مسلمان مرتد ہوتا ہے تو اسلام کی رُو سے اس کی یہ سزا قطعا نہیں ۔
(۳) تیسرے سوال کا جواب: غیر مسلم کو سلام کہنے سے اسلام نے قطعا نہیں منع کیا، قرآن اسلام کی بنیاد ہے بلکہ قرآن ہی اسلام ہے، قرآن میں ہے کہ ابراھیم علیہ السلام نے اپنے کافرومشرک اب کو سلام کہا جو صرف بُت پرست ہی نہیں بُت فروش بھی
تھا، اسی طرح قرآن میں یہ بھی ہے کہ جب تمہیں کوئی تحیہ کرے تو تم اس سے بہتر الفاظ میں یا کم ازکم اس کے برابر اسے تحیہ کرو، اس میں مسلم و غیر مسلم کی قرآن نے کوئی قید نہیں لگائی، اگر کسی عالم نے یہاں مسلم کی شرط لگائی ہے تو وہ اس کی اپنی ہے قرآن میں ایسا کچھ نہیں بلکہ قرآن سے غیر مسلم کو سلام کرنے کا ثبوت موجود ہے۔
صحابہ کرام میں سے ابن مسعود وغیرھم کہتے ہیں کہ ہم یہود کو سلام کیا کرتے تھے ۔
مسلم علماء میں یقینا دو آراء موجود ہیں، کچھ قائل ہیں کچھ قائل نہیں، جب دو آراء موجود ہیں تو سوال کرنے والے نے صرف اُن ہی کی رائے کو لیکر کیوں سوال جڑ دیا جن کی رائے قرآن کے خلاف ہے، اُن کی رائے کیوں قبول نہیں کی جو غیر مسلم کو سلام کے قائل ہیں اور ان کی رائے اسلام کی بنیادی کتاب قرآن کے بھی مطابق ہے، لہذا یہ سوال بنتا ہی نہیں اور اسلام پر اس کا کوئی اعتراض سرے سے آتا ہی نہیں کیونکہ اسلام اس کا قائل ہے ۔
پہلے تین سوالوں کا تعلق براہ راست اسلام سے تھا ہم نے جواب دیا ہے اس کے بعد کے سوالات کا تعلق اسلام سے نہیں مسلم علماء یا مختلف فرقوں سے ہے اس لیے جواب کے وہ خود ذمہ دار ہیں گوکہ ہم بھی جواب دے سکتے ہیں اگر کسی نے جواب نہ دیا تو پھر ہم عرض کریں گے ۔

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.