حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کا آنا تحریر محمد نعیم خان

بعض احباب سورہ یوسف کی آیت 96 پیش کر کے یہ تاثر دیتے ہیں کہ اس سے حضرت یعقوب کی کھوئ ہوئ بینائ واپس آگئ۔ لیکن اگر پورے قرآن کا مطالعہ کریں تو کہیں یہ بیان نہیں ہے کہ حضرت یعقوب علیہ سلام کی بینائ چلی گئ تھی۔ جو آیت اس کے حق میں پیش کی جاتی ہے وہ اس ہی سورہ کی آیت 84 ہے

وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ ﴿٨٤﴾ 
اور یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: ہائے افسوس! یوسف (علیہ السلام کی جدائی) پر اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں سو وہ غم کو ضبط کئے ہوئے تھے، (84) 
ترجمہ طاہرالقادری

ابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ کے معنی ہیں اسکی آنکھیں آنسوں سے بھر گئیں۔ کیوں کہ ابْيَضَّتْ یا بْيَضَّتْ کے معنی ہیں بھر جانا۔ آنکھوں میں آنسو بھر جانا۔ پس اس آیت کا سادہ سا مطلب ہے کہ غم کی وجہ سے ان کی آنکھیں آنسووں سے بھری رہتی تھیں اور کیوں نہ بھری رہیں کیوں کہ وہ حضرت یوسف اور ان کے بھائ سے شدید محبت کرتے تھے جس کا اظہار ان کے بھائیوں نے کیا تھا اس ہی سورہ کی آیت 8 میں :

إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٨﴾ 
یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا "یہ یوسفؑ اور اس کا بھائی، دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان با لکل ہی بہک گئے ہیں (8) 
ترجمہ مولانا مودودی

جب حضرت یوسف نے اپنے آپ کو ان بھائیوں پر ظاہر کیا تو نشانی کے طور پر اپنے بھائیوں کو اپنی قمیض دے کر بھیجا کہ یہ لیجا کر ان کے سامنے پیش کردینا لیکن تمام ہی مفسرین نے آیت 93 کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ یہ قمیض ان کے منہ پر ڈال دینا ۔

اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَـٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٩٣﴾ 
جاؤ، میرا یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، اُن کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ” (93) 
ترجمہ مولانا مودودی

عربی میں "الوجہ” کسی چیز کا وہ حصہ جو سب سے پہلے سامنے آئے کو کہتے ہیں یہی اس کے بنیادی معنیں ہیں ۔ اس جہت سے” الوجہ” انسان کے جسم کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو سب سے پہلے سامنے آتا ہے اور چونکہ انسان کا چہرہ سب سے پہلے نمایاں طور پر سامنے آتا ہے اس لئے اس کو "وَجْهِ” کہتے ہیں ۔ لیکن اس کے بعد یہ لفظ خود نفس یا ذات کے لئے بھی بولا جانے لگا۔ اس کی مثال سورہ البقرہ کی آیت 112 میں ملتی ہے۔

بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿١١٢﴾ 
دراصل نہ تمہاری کچھ خصوصیت ہے، نہ کسی اور کی حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے، اس کے لیے اس کے رب کے پاس اُس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں(112) 
ترجمہ مولانا مودودی

مودودی صاحب نے یہاں أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ کا ترجمہ اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے کیا ہے جو کہ بلکل درست ترجمہ ہے۔ اس لئے سورہ یوسف کی آیت 93 میں فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ کا ترجمہ میرے والد کے منہ پر ڈالنا درست نہیں بلکہ ان کے سامنے پیش کرنا ہے۔

اس ہی جہت سے جب خوشخبری دینے والا پہنچا اور اس نے حضرت یوسف کا قمیض ان کے سامنے پیش کیا تو ان کی بصیرت واپس آگئ ۔ قرآن نے سورہ ہوسف کی آیت 96 میں بصارت کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ بَصِيرًا کا لفظ استعمال کیا ہے۔
"بصارت” کا مطلب ہوتا ہے آنکھوں سے دیکھنا اور لفظ "بصیرت” کا مطلب ہوتا ہے اپنی فہم اور اپنی شعور سے سمجھنا ۔ اگر سورہ یوسف کی آیت 96 پر غور کریں تو وہاں لفظ "بَصِيرًا” استعمال ہوا ہے ان دونوں لفظوں میں بہت فرق ہے۔ حضرت یعقوب کی بینائ نہیں بلکہ فہم و شعور کی بینائ لوٹ آئ۔ آخر میں یہ آیت بھی یہاں منتقل کردیتا ہوں ۔

فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٩٦﴾ 
پھر جب خو ش خبری لانے والا آیا تو اس نے یوسفؑ کا قمیص یعقوبؑ کے منہ پر ڈال دیا اور یکا یک اس کی بینائی عود کر آئی تب اس نے کہا "میں تم سے کہتا نہ تھا؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے” (96)
اس لئے یہاں بینائ سے مراد فہم و شعور کی بینائ ہے۔

یہاں پر دو اعتراضات آٹھتے ہیں کہ :

اول یہ کہ حضرت یعقوب کی بصیرت کہیں گئ ہی نہیں تھی جو لوٹ کر آتی ؟

دوئم یہ کہ آہت 94 کے مطابق ان کو یہ خبر کیسے ہوئ کہ یوسف کی کوئ خبر آرہی ہے؟

پہلے سوال کا جواب یہ کہ حضرت یعقوب اپنی بصیرت سے یہ بات جانتے تھے کہ حضرت یوسف زندہ ہیں کیوں کہ ان کے بھائیوں نے جو جھوٹ موٹ کا خون لگا کر لائے تھے کہ ان کو بھیڑیا کھا گیا ہے اس بات پر انہوں نے یقین نہیں کیا تھا کیوں کہ بھیڑیا قمیض اتروا کر نہیں کھاتا۔ اس کے علاوہ ان کے پیش نظر حضرت یوسف کا وہ خواب تھا جس کا زکر انہوں نے حضرت یعقوب سے کیا تھا بلکہ اس کی تعبیر تو خود انہوں نے حضرت یوسف کو بیان کی تھی ۔ اس نہج سے ان کی بصیرت تو کہیں نہیں گئ تھی۔

اب حالات سے جو کچھ بھی جانتے تھے یہ حضرت یعقوب کا ایمان تھا۔ ان کا اندازہ تھا جو کہ بلکل صحیح تھا۔ لیکن یقین کامل نہیں تھا۔ جو خیال بار بار ان کے ذہن میں آتا تھا کہ یہ کون ہے جس نے غلہ کے پیسے بھی واپس کروادئیے اور چھوٹے بھائ کو بھی لانے کی اتنی تاکید کر رہا ہے کہ اگر دوبارہ نہ لائے تو میرے پاس بھی نہ پھٹکنا۔ تو یہ یوسف ہی ہوسکتا ہے۔ جو بات ان کے اس خیال کی راہ میں رکاوٹ تھی وہ یہ کہ یوسف اور عزیز مصر؟ ۔ اس لئے فَارْتَدَّ بَصِيرًا سے مراد اچھی طرح علم اور واقفیت ہوگئ۔ بصیرت کا لوٹ جانا اس نشان پر واپس لوٹ جانا اور اس کا کامل یقین ہوجانا کہ یوسف زندہ ہے اور بھائ بھی اس کے پاس پہنچ گیا ہے۔

دوسرا سوال کہ یہ کیسے پتہ چلا کہ یوسف کی کوئ خبر آنے والی ہے؟ ۔ پورا واقعہ پر غور کریں تو حضرت یعقوب، یوسف کے بھائیوں کو جب دو مرتبہ مصر بھیجتے ہیں ۔ تو پہلی مرتبہ غلہ بھی ملتا ہے اور پیسے بھی اور دوسری مرتبہ بن یامین کو بھی ساتھ بھیجتے ہیں اور یہ بھائ اس پر چوری کا الزام لگوا کر وہیں چھوڑ آتے ہیں ۔ ان دو واقعات سے حضرت یعقوب کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ مصر پہنچنے اور واپس آنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ ان کے تمام اندازے درست تھے۔ پھر جب تیسری مرتبہ مصر کی طرف ببھیجتے ہیں تو آیت 87 میں کہتے ہیں فَتَحَسَّسُوا مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ یعنی یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی خبر لے آؤ ۔ ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ حضرت ہوسف زندہ ہیں اور ان کا بھائ بھی ان کے پاس پہنچ گیا ہے اس لئے وہ کسی خبر کے منتظر تھے کہ اب کی بار یوسف اور اس کا بھائ یا تو خود میرے پاس آئیں گے یا پھر ان کی کوئ خبر آئے گی۔ اس لئے اپنے پہچھلے دو اندازوں (جب اپنے بیٹوں کو دو مرتبہ مصر بھیجا تھا) کی بنیاد پر جب وہ قافلہ وہاں سے چلا ہے تو حضرت یعقوب محاورۂ بولے کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے یعنی ہمارا ملن قریب ہے اور جدائ کے دن دور ہونے والے ہیں ۔ ان کے اندازوں کی اس روکاوٹ کو حضرت یوسف نے اپنی قمیض دے کر دور کیا تاکہ یقین کامل ہوجائے۔ حضرت یوسف بھی اس بات کو جانتے تھے کہ ان کے اباجان یہ بات جان گئے ہیں اس لئے انہوں نے بھی قمیض دیتے وقت بصیرت کا لفظ استعمال کیا نہ کہ بصارت کا۔

اس ہی لئے جب قمیض پہنچ گئ تو حضرت یعقوب نے کہا میں نہ کہتا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ یہ بات انہوں نے آیت 86 میں کی تھی

انہوں نے کہا کہ میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں، مجھے اللہ کی طرف سے وه باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے (86) 
محمد جونا گڑھی

یقینن یہ بات انہوں نے حضرت یوسف کے خواب اور پھر باقی کے حالات کو مد نظر رکھ کر کی۔ یہ میرا فہم 
اور یقنن اس میں غلطی کی گنجایش ہے۔

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.