مروّجہ عیسائیت کی حقیقت تحریر: راشد شاز
اہل علم اس بات سے ناواقف نہیں کہ مروّجہ عیسائیت رسالہء عیسوی کے بجائے سینٹ پال کے تراشیدہ اساطیر و عقائد کی مرہون منت ہے۔ کیرن آرمسٹرانگ تو پال کو پہلے (first)عیسائی کے نام سے ملقب کرتی ہیں۔ ہائم مکوبی نے اپنی کتابPaul: The Myth Maker 1986 میں ناقابل تردید دلائل کی روشنی میں پال کو مروجہ عیسائیت کا بانی مبانی قرار دیا ہے۔ مکوبی اور اس قبیل کے دوسرے محققین کا کہنا ہے کہ پال نے قدیم یونانی مذہبی تصورات کو جس طرح عیسائیت کے سر منڈھ دیا ہے اور جس طرح انہیں بائبل کی تعبیر میں ہی نہیں بلکہ اس کے متن میں بنیادی مقام حاصل ہے، اس کے سبب عیسائیت کو اب پال کے حصار سے باہر لانا ممکن نہیں۔
جو لوگ مذاہب کی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں وہ اس بات سے خوب واقف ہیں کہ مروجہ عیسائیت کی تشکیل میں پال نے دین یہود سے خالق کائنات کا تصور مستعار لیا، اہل فارس سے ثنویت لی، اہل یونان سے تثلیث، قدیم مشرک اقوام سے بپتسمہ لیا، متھرا ازم سے تصور کفّارہ لیا، شمس پرستوں سے صلیب اور ہیلینسٹک تہذیب سے مادے اور روح کا وہ ثنویانہ دائرہ فکر لیا، جس نے بالآخر ایک ایسی عیسائیت تشکیل دی جسے قوم یہود کے علاوہ بھی دوسری اقوام عالم کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ پال کی تعبیرات کے زیراثر نئے عہد نامہ کے مرتبین نے دین کا ایک ایسا قالب تیار کر ڈالا جہاں شریعت موسوی منسوخ سمجھی گئی۔ کہا گیا کہ راست بازی کے لئے شریعت کی کوئی ضرورت نہیں کہ مسیح نے ہمارے لئے جو قربانی دی ہے اس کے بعد اب ان کے نام لیواوں کو ان کی پناہ میں نجات کی ضمانت حاصل ہو گئی ہے، جیسا کہ پال نے گلیتیوں (Galatians) کے نام اپنے مکتوبات باب 3،11تا 13 میں لکھا ہے۔ متھراازم کا سایہ مروجہ عیسائیت پر اتنا گہرا ہے کہ اسے فی الواقع متھراازم کی ہی اصلاح شدہ شکل سمجھنا چاہئے۔ عبادت کے لئے اتوار کے دن کی تخصیص ہو یا 25 دسمبر کو یوم پیدائش کے حوالے سے حرمت کا مستحق سمجھنا یا یوکرسٹ (Eucharist) کے موقع پر مسیح کی بنفس نفیس موجودگی کی باتیں ان سب کا تعلق اسی متھراازم سے ہے۔
پال اور مسیح بنیادی طور پر دو دائرہ فکر کی شخصیتیں ہیں۔ مسیح کی دعوت کا لب لباب خدا کی بادشاہی کا قیام ہے جبکہ پال کی عیسائیت، وفات مسیح اور ان کی حیات ثانیہ کو مرکزی نکتہ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ پال مسیح سے کہیں زیادہ اس روح القدس (Holy Spirit) کا سہارا لیتے ہیں جس کی موجودگی سے ان کے اپنی شخصیت کو اعتبار ملتا ہے اور جو انہیں عہد نامہ قدیم کی طرف ایک منفی رویہ اپنانے اور غیر یہودی اقوام میں اس دین کی تبلیغ پر مامور کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ کہہ لیجئے کہ پال کا مسیح وہ تاریخی شخصیت نہیں جسے خدا نے اہل یہود کی طرف بھیجا بلکہ ان کے اپنے تخیل اور مکاشفہ کا پیداکردہ وہ مسیح ہے جس نے انہیں شاہراہ دمشق پر آ لیا اور جس روحانی تجربہ کے بعد انہوں نے ایک نئی عیسائیت کے قیام کی ضرورت محسوس کی۔ بائبل میں پال کے اس مکاشفہ کا ذکر کچھ اس طرح بیان ہوا ہے:
"ابھی وہ راستہ میں دمشق سے کچھ دور ہی تھا کہ اچانک آسمان سے بجلی کوندی اور اس کے اردگرد سب کچھ منور کر گئی۔ وہ زمین پر آ گرا اور اسے ایک آواز سنائی دی۔ پال پال آخر تم میری مخالفت پر کمربستہ کیوں ہو۔ اس نے پوچھا آخر بتائیے تو آپ ہیں کون? آواز آئی میں مسیح ہوں، جسے تم ستانے پر کمربستہ ہو۔ اب اٹھو اور شہر میں جاو، تمہیں بتایا جائے گا کہ تمہیں کرنا کیا ہے۔ جو لوگ پال کے ساتھ اس سفر میں شریک تھے وہ اس پورے واقعہ میں حیرت و استعجاب کی تصویر بنے رہے۔ انہوں نے آواز تو سنی تھی لیکن انہیں یہ اندازہ نہ ہوا کہ یہ کہاں سے آئی تھی۔ پال اب زمین سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا لیکن جو اس نے آنکھ کھولی تو کچھ دکھائی نہ دیا۔ وہ لوگ اسے اسی حالت میں دمشق میں لت آئے۔ تین دن تک اس کی بصارت سلب رہی۔ اس نے نہ کچھ کھایا اور نہ پیا۔” (Acts 9:1-31)
باب 26 میں یہ بھی مذکور ہے کہ اس موقع پر مسیح نے باقاعدہ پال کو تفصیلا خطاب کیا اور اسے غیر یہودی اقوام میں دعوت کی توسیع و اشاعت کے کام پر بھی مامور کیا۔ پال کا یہ ذاتی انبساط انگیز تجربہ ایک شخص کا تجربہ نہیں بلکہ عیسائیت کی اجتماعی روحانی میراث ہے، جس کے بغیر ہم فی زمانہ دین مسیح کو متشکل نہیں کر سکتے۔ نئے عہد نامہ کی چاروں بنیادی کتابیں اسی روحانی اور ذہنی پس منظر میں مرتب کی گئیں۔ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ پال سے الگ ہو کر خود بائبل کو متصور کر سکیں۔ ایسا اس لئے کہ بائبل کی چاروں کتابیں 70 عیسوی سے 110 عیسوی کے درمیان مدون ہوئیں جبکہ پال کے خطوط جو بائبل کے متن کا حصہ سمجھی جاتی ہیں، 50 سے 60 عیسوی کے مابین تحریر کردہ ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بائبل کے یہ مرتبین اس کے اولین مئوسس اور مبلغ پال کے ذاتی رجحانات سے الگ ہو کر عیسائیت کو متصور کر پاتے۔ عیسائی فکر میں کسی نئی ابتدا کی بات پال کی تعبیرات کو خیرباد کہے بغیر ممکن نہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ ایسا کرنے سے مروجہ عیسائیت کا پورا ڈھانچہ زمیں بوس ہو جاتا ہے۔