نفرت کا تیزاب از مولانا وحیدالدین خان "راز حیات” صفحہ 247
مغرب کے ایک ماہر نفسیات کا قول ہے کہ نفرت کی مثال ایک قسم کے تیزاب کی سی ہے۔ ایک عام برتن میں اس کو رکھا جائے تو وہ اپنے برتن کو اس سے زیادہ نقصان پہنچائے گا جتنا اس کو جس پر وہ تیزاب ڈالا جانے والا ہے۔
اگر آپ کو کسی کے خلاف بغض اور نفرت ہوجائے اور آپ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوجائیں تو جہاں تک آپ کا تعلق ہے، آپ کے سینے میں تو رات دن ہر وقت نفرت کی آگ بھڑکتی رہے گی۔ مگر دوسرے شخص پر اس کا اثر صرف اسوقت پہنچتا ہے جب آپ عملاً اس کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوگئے ہوں۔ مگر ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ آدمی کسی کو وہ نقصان پہنچاسکے جو اس کو وہ پہنچانا چاہتا ہے ۔ نفرت کے تحت عمل کرنے والے کا منصوبہ بیشتر حالات میں ناکام رہتا ہے۔
مگر جہاں تک نفرت کرنےوالے کا تعلق ہے، اس کے لئے دو میں سے ایک عذاب ہر حال میں مقدر ہے۔ جب تک وہ اپنے انتقامی منصوبہ میں کامیاب نہیں ہوا ہے انتقام کی آگ میں جلتے رہنا،اور اگر بالفرض کامیاب ہوجائے تو اسکے بعد اس کا ضمیر اس کا پیچھا کرتا ہے۔انتقام کے جنون میں اس کا انسانی احساس دبا رہتا ہے، مگر جب حریف پر کامیابی کے نتیجہ میں اس کا انتقامی جوش ٹھنڈا پڑتا ہے تو اس کے بعد اس کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور ساری عمر اس کو ملامت کرتا رہتا ہے کہ تم نے بہت برا کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ منفی کاروائی سب سے پہلے اپنے خلاف کاروائی ہے۔ منفی کاروائی کا نقصان آدمی کی اپنی ذات کو پہنچ کر رہتا ہے، خواہ وہ دوسروں کو پہنچے یا نہ پہنچے۔