نیکی اور بدی کی اقسام- پارٹ1، تحریر قاری حنیف ڈار

نیکی اور بدی اپنی ابتدائی شکل میں دو اصناف سے تعلق رکھتی ھیں ،،

1- لازمی !

1- متعدی !

لازمی نیکی وہ ھے جو آپ کی ذات کا حصہ ھے اور آپ کی ذات کے لئے ھی ھے ! اس کا دوسروں کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ،،،،،، لہذا دوسروں کو اس کی پرواہ بھی نہیں !

مثلاً آپ سات وقتہ نمازی ھیں تو اپنی ذات کے لئے ھیں اور اس کا اگر کوئی فائدہ ھو گا تو حشر کے دن بھی آپ کی ذات کو ھی ھو گا ،،

آپ روزہ رکھتے ھیں یہ ایک مستند نیکی اور شرعی فریضہ ھے ،یہ دنیا میں بھی آپ کی ذات تک محدود ھے اور حشر میں بھی آپ کا بھلا کرے گا – نہ تو دوسروں کا اس سے کوئی فائدہ ھونے والا ھے اور نہ دوسروں کو اس سے کوئی سروکار ھے کہ آپ نے روزہ رکھا ھے یا نہیں رکھا ،،

آپ نے حج کیئے کتنے کیئے ،،، اس سے آپ کی ذات کو فائدہ ھو گا ، یہاں ھو یا وھاں ،، دوسروں کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ھے ،،،،،،،،

مگر تعجب کی بات یہ ھے کہ ھم اپنی ذاتی اور لازمی نیکی پر دوسروں سے داد وصول کرنا چاھتے ھیں اور نیک کہلوانا چاھتے ھیں ،،،،، جس میں دوسروں کو رائی برابر دلچسپی نہیں ،،،،،،،،،

اگر شرعی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے تو لازمی اور ذاتی نیکی انسان کو متعدی اور آفاقی نیکی کے لئے تیار کرتی اور مستعد رکھتی ھے ! اگر یہ نہیں ھو رھا تو پھر اپنی اپلیکشنز کو چیک کیجئے کہیں نہ کہیں وہ کرپٹ ھو چکی ھیں ! اللہ پاک نے دو ٹوک انداز میں اس شخص کے ایمان بالآخرت کو رد کیا ھے جو یتیم کو دھکے دیتا ھے ،بھوکے کو کھلانے سے کتراتا ھے اور اس کی نمازوں کو دکھاوا اور ڈھکوسلا قرار دیا ھے جو عام استعمال کی چیز مانگے پر بھی نہیں دیتے کجا یہ کہ ان کو کسی کی ضرورت پر خود آگے بڑھ کر پیش کش کرنی چاھیئے تھی ،،،،،،

متعدی نیکی وہ ھے جس کا فائدہ آپ کو تو ضرور ھو گا مگر دوسروں کا بھلا بھی ھو جاتا ھے اور وہ نیکی ایک سے دوسرے کو وبا کی طرح لگتی چلی جاتی ھے لہذا لوگ اسی متعدی نیکی کی بنیاد پر آپ کو نیک قرار دیتے اور سمجھتے ھیں ، اگر کوئی آدمی اس 50 سینٹی گریڈ کی گرمی میں سڑک پر اس لئے کھڑا ھے کہ اس کے پاس گاڑی کا وھیل بدلنے کے لئے جیک نہیں ھے یا وھیل کھولنے والا اوزار نہیں ھے ،، اس حالت میں ایک شخص اپنی گاڑی روکتا ھے ، اس سے پریشانی کی وجہ پوچھتا ھے ،پھر نہ صرف اپنا جیک دیتا ھے بلکہ خود لگا کر بھی دیتا ھے اور وھیل بدلنے میں اس کی مدد کرتا ھے ، اپنی گاڑی میں سے پانی نکال کر لاتا اور اس بندے کو پینے کے لئے دیتا ھے ،، اس پریشان شخص کے لئے وہ بندہ فرشتہ ھے فرشتہ ،، نہ اس نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا اور نہ روزہ رکھتے دیکھا ، نہ حج کا سفر اس کے ساتھ کیا اور نہ اس کو تسبیحات کرتے دیکھا ،،مگر وہ جہاں بھی اس واقعے کا ذکر کرتا ھے ھمیشہ کہتا ھے پھر اللہ کا ایک بندہ آیا ، ایک نیک آدمی آیا ، ایک ولی اللہ آیا ،، ایک بندے کا پتر آیا ، ایک شریف آدمی آیا اور اس نے یہ اور یہ کیا ،،، یہی وہ گواھی ھے جو جنت کو واجب کر دیتی ھے ،، اس بندے نے اس مصبت زدہ کو اپنے عمل سے وہ سبق دیا ھے ، ایسی تبلیغ کر دی ھے کہ وہ بھی آئندہ کسی کو پریشانی میں کھڑا دیکھے گا تو اس شخص کا عملی سبق اسے رک کر اس پریشان کی مدد پر آمادہ کرے گا ،، جیسا کہ اس پیاسے کا قصہ ھے جو اپنی پیاس بجھا کر جب کنوئیں ( صحراء میں وہ تنگ کنواں جس کی دونوں طرف دیواروں میں پاؤں رکھنے کے لئے ھلکے ھلکے کھڈے مارے ھوتے ھیں جن میں پاؤں اڑا کر کوئی نیچے اترتا اور پانی پیتا تھا بغیر کسی لوٹے یا ڈول کے اس کو باولی کہا جاتا ھے ) سے باھر نکلا تو اس نے ایک کتے کو پیاس سے گیلی مٹی چاٹتے دیکھا ،، اس کو اپنی پیاس یاد آگئ اور وہ اپنا چمڑے کا موزہ لے کر نیچے اترا اور اس وقت تک اس موزے میں بار بار پانی بھر کر لاتا رھا جب تک کہ کتے کی پیاس بجھ نہ گئی ،، اللہ پاک نے اس نیکی کے صدقے اس کی ساری خطائیں معاف فرما دیں ،، اسی قسم کا واقعہ ایک بدکار عورت کا بھی ھے ،، لازمی نیکی نماز روزہ آپ کے ساتھ ھی مر جاتے ھیں اور حشر میں آپ کے ساتھ ھیں اٹھیں گے ، جبکہ متعدی نیکی زندہ رھتی ھے بچے دیتی رھتی ھے ،جن کا بھلا آپ کرتے ھیں وہ آگے دوسروں کا بھلا کر کے آپ کے شیئر کو زندہ رکھتے ھیں ،، لازمی نیکی کی قضاء ھوتی ھے جبکہ متعدی نیکی کی قضاء ممکن نہیں ھوتی ،، آپ نے بروقت کسی کی مدد نہ کی تو وہ لمحہ گزر جائے گا اور پھر آپ کے ھاتھ نہیں آئے گا ، فیصل آباد میں طھر کی نماز کے دوران نماز کی صف میں ایک نمازی گر گیا غالباً اس کو ھارٹ اٹیک ھوا تھا ،، سارے نمازی اپنی اپنی نماز میں مگن رھے ، ایک بابے نے ساتھ والے نوجوان کو زور زور سے کہنیاں ماریں جس نے مجبور ھو کر نماز توڑ دی ،، بابے نے بھی نماز توڑ دی اور دونوں نے گھسیٹ کر اس نمازی کو صفوں میں سے نکالا اور نوجوان کی گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے گئے ،، ڈاکٹروں کے بقول اگر دس منٹ کی بھی تاخیر ھو جاتی تو اس بندے کو بچانا ناممکن تھا ،یوں اللہ پاک نے اس بابے کے طفیل ایک جان بچا لی ،، واپسی پہ اس بابے نے کہا کہ بیٹا ھم نماز قضاء بھی پڑھ سکتے ھیں،،، مگر بندے کی قضاء نہیں ھوتی اس نے مر جانا تھا ،، آپ کی ذرا سی تاخیر اگر جان لے لیتی ھے ،، کوئی عورت اگر بھوک کے ھاتھوں مجبور ھو کر بچے بھی مار دیتی ھے اور خود بھی مر جاتی ھے تو اب آپ کے زندگی بھر کے صدقے بھی ان جانوں کو واپس نہیں لا سکتے ،،،،،،،، جبکہ نمازیں روزے دس سال بعد بھی قضاء کیئے جا سکتے ھیں –

 

( جاری ھے )

https://urdu.i360.pk/نیکی-اور-بدی-کی-اقسام-پارٹ-2-،تحریر-قاری/

https://urdu.i360.pk/نیکی-اور-بدی-کی-اقسام-اور-اثرات،-تحریر-ق/

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.