پاکستان کا یوم آزادی کیا ہے؟ 14 اگست 1947 یا 15 اگست 1947
پاکستان کو آزادہوئے نصف صدی سے زیاد عرصہ گزچکا ہے ۔ اس طویل عرصے میں ہم اپنی تاریخ کے کتنے ہی گوشوں سے ناواقف رہے۔ ہم اپنی یوم آزادی تقریبات ہر سال 14 اگست کو اور ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہمسایہ ملک بھارت اپنی یہی تقریبات15 اگست کو مناتا ہے۔ ہر سال یہ سوال اٹھتا ہے کہ دو ملک جو ایک ساتھ آزاد ہوئے ہوں ان کے یوم آزادی میں ایک دن کا فرق کیسے آگیا؟،اپنے اس فیچر میں ہم نے اسی معمے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہمارے بزرگ ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان رمضان کی 27 ویں شپ کو آزاد ہوا اور یہ کہ جس دن پاکستان آزاد ہوا اس دن جمعتہ الوداع کا مبارک دن تھا۔ پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس دن 14 اگست 1947ءکی تاریخ تھی اور ہم اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ملک سے ایک ”دن بڑے“ ہیں۔ جب ہم 14 اگست 1947ءکی تقویم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن تو جمعرات تھی اور ہجری تاریخ بھی 27 نہیں 26 رمضان تھی۔ پھر ہم پاکستان کے پہلے ڈاک ٹکٹ دیکھتے ہیں جو پاکستان کی آزادی کے 11 ماہ بعد 9 جولائی 1948ءکو جاری ہوئے تھے۔ ان ڈاک ٹکٹوں پر واضح طور پر پاکستان کا یوم آزادی 15 اگست 1947ءطبع ہوا ہے۔ ہم پھر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پاکستان کا یوم آزادی بھی 14 نہیں بلکہ 15 اگست 1947ءہے مگر پھر یوم آزادی کی پہلی سالگرہ 14 اگست 1948ءکو کیوں منائی گئی۔یوں ذہن ایک مرتبہ پھر الجھ جاتا ہے کہ پاکستان آزاد کب ہوا تھا۔14 اگست 1947ءکو یا 15 اگست 1947ءکو….
اگر ہم 14 اگست 1947ءکو آزاد ہوئے تو آزادی کے گیارہ ماہ بعد شائع ہونے والے ڈاک ٹکٹوں پر یوم آزادی کی تاریخ 15 اگست 1947ءکیوں طبع ہوئی اور اگر پاکستان 15 اگست 1947ءکو آزاد ہوا تو ہم نے آزادی کی پہلی سالگرہ 15اگست کی بجائے 14 اگست 1948ءکو کیوں منائی؟، اور آج تک یہ سالگرہ 15 کی بجائے 14 اگست کو کیوں مناتے چلے آرہے ہیں؟
آج ہم اپنے اس فیچر میں اسی ”معمے“ کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان اصلاً آزاد کب ہوا۔
اس سلسلے میں سب سے اہم دستاویز Indian Independence Act 1947 ہے جسے برطانوی پارلیمان نے منظور کیا اور جس کی توثیق شہنشاہ برطانیہ جارج ششم نے 18 جولائی 1947ءکو کی۔ اس قانون کی ایک نقل پاکستان کے سیکریٹری جنرل چودھری محمد علی نے (جو بعدازاں پاکستان کے وزیراعظم بھی بنے) 24 جولائی 1947ءکو قائداعظم کو ارسال کی۔
یہ قانون 1983ءمیں حکومت برطانیہ کی شائع کردہ دستاویز The Transfer of Power کی جلد 12 کے صفحہ 234 پر اور اس کا ترجمہ قائداعظم پیپرز پروجیکٹ، کیبنٹ ڈویژن حکومت پاکستان اسلام آباد کے شائع کردہ جناح پیپرز (کے اردو ترجمے) کی جلد سوم کے صفحہ 45 سے صفحہ 72 تک ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اس قانون میں واضح طور پر درج ہے۔
-1 (1) 15 اگست 1947ءسے برطانوی ہندوستان میں دو آزاد فرماں روا مملکتیں قائم کی جائیں گی جو بالترتیب انڈیا اور پاکستان کے نام سے موسوم ہوں گی۔
(2) بعدازاں اس قانون میں ”ان مملکتوں“ سے مطلب نئی مملکتیں اور ”مقررہ دن“ سے مراد 15 اگست کی تاریخ ہوگی۔
ٹرانسفر آف پاور جلد 12 کے صفحہ نمبر 234 پر اصل تحریر کچھ یوں ہے:
Indian Independence Act,1947
1-(1)As from the fifteench day of August, nineteen hundred and forty seven, two independent Dominions shell be set up in India, to be known respectively as India and Pakistan.
(2)The said Dominions are hereafter in the Act referred to as "the new Dominions”, and the said fifteench day of August is hereafter in this Act referred to as "the appointed day”.
اس قانون کے تسلسل میں جاری ہونے والے چند اور احکامات ملاحظہ ہوںجن کے اقتباسات اور ترجمہ ضیاءالدین لاہوری نے اپنے مضمون ”یوم آزادی: جمعتہ المبارک 27 رمضان یا 15 اگست“ مشمولہ جریدہ 36۔ شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ جامعہ کراچی میں شامل کیا ہے۔
٭7 اگست 1947ئ: اقوام متحدہ میں برطانیہ کے مستقل نمائندے کے نام دفتر خارجہ کا تار:
”اب وائسرائے نے تار بھیجا ہے کہ مسلمان قائدین اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے درخواست دینے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ برطانیہ فوری طور پر پاکستان کی طرف سے درخواست دائر کرے اور جب پاکستان 15اگست کو ایک آزاد مملکت بن جائے گا تو وہ اس کی توثیق براہِ راست خود کرے گا“۔(صفحہ :570)
٭12 اگست 1947ء(ہندوستان اور پاکستان کی رکنیت کے استحقاق پر سیکریٹریٹ اقوامِ متحدہ کے میمورنڈم کی پریس ریلیز سے ایک اقتباس)
”قانون آزادی ہند قرار دیتا ہے کہ اگست 1947ءکی 15 تاریخ کو ہندوستان میں دو آزاد مملکتیں بالترتیب ہندوستان اور پاکستان کے نام سے قائم ہوں گی“۔صفحہ:685
حکومت برطانیہ نے یہ اعلان تو کردیا کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ایک ہی وقت یعنی 15 اگست 1947ءکو صفر ساعت پر آزاد ہوں گے مگر مسئلہ یہ ہوا کہ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کو 14 اور 15 اگست 1947ءکی درمیانی شب نئی دہلی میں ہندوستان کی آزادی کا اعلان کرنا تھا۔ منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کرنا تھا اور خود آزاد ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنا تھا۔
مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن 13 اگست 1947ءکو کراچی تشریف لائیں اور 14 اگست 1947ءکی صبح پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انتقال اقتدار کی کارروائی مکمل کریں اور یہ اعلان کریں کہ اس رات یعنی 14 اور 15 اگست 1947ءکی درمیانی شب پاکستان ایک آزاد مملکت بن جائے گا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا 13 اگست 1947ءکو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کراچی تشریف لے آئے
اور اسی رات کراچی کے گورنر جنرل ہاﺅس میں ان کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا:
”میں ملک معظم کی صحت کا جام تجویز کرتے ہوئے بے حد مسرت محسوس کرتا ہوں۔ یہ ایک نہایت اہم اور منفرد موقع ہے۔ آج ہندوستان کے لوگوں کو مکمل اقتدار منتقل ہونے والا ہے اور 15 اگست 1947ءکے مقررہ دن دو آزاد اور خود مختار مملکتیں پاکستان اور ہندوستان معرض وجود میں آجائیں گی۔ ملک معظم کی حکومت کے اس فیصلے سے وہ اعلیٰ و ارفع نصب العین حاصل ہوجائے گا جو دولت مشترکہ کے قیام کا واحد مقصد قرار دیا گیاتھا“۔
اگلے روزجمعرات 14 اگست 1947ءمطابق 26 رمضان المبارک 1366ھ کی صبح 9 بجے موجودہ سندھ اسمبلی بلڈنگ میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا خصوصی اجلاس شروع ہوا۔
صبح سے ہی عمارت کے سامنے پرجوش عوام جمع تھے۔جب پاکستان کے نامزد گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اورلارڈ ماﺅنٹ بیٹن ایک مخصوص بگھی میں سوار اسمبلی ہال پہنچے تو عوام نے پرجوش نعروں اور تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔ اسمبلی کی تمام نشستیں پر تھیں۔ گیلری میں ممتاز شہریوں‘ سیاست دانوں اور ملکی اور غیر ملکی اخباری نمائندوں کی بھاری تعداد موجود تھی۔ کرسی صدارت پر دستور ساز اسمبلی کے صدر قائد اعظم محمد علی جناح تشریف فرما تھے اور ان کے برابر میں لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی نشست تھی۔ دونوں اکابر نے جب اپنی اپنی نشستیں سنبھالیں تو کارروائی کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔
سب سے پہلے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے شاہ انگلستان کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں قائد اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا :
”برطانوی دولت مشترکہ کی اقوام کی صف میں شامل ہونے والی نئی ریاست کے قیام کے عظیم موقع پر میں آپ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے جس طرح آزادی حاصل کی ہے وہ ساری دنیا کے حریت پسند عوام کے لیے ایک مثال ہے۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ برطانوی دولت مشترکہ کے تمام ارکان جمہوری اصولوں کو سربلند رکھنے میں آپ کا ساتھ دیں گے۔“
اس پیغام کے بعد لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے الوداعی تقریر کی اور پاکستان اور پاکستانی عوام کی سلامتی کے لیے دعا مانگی ۔
اپنی اس تقریر میں لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے واضح الفاظ میں کہا:
”آج میں آپ سے آپ کے وائسرائے کی حیثیت سے خطاب کررہا ہوں، کل نئی ڈومنین پاکستان کی حکومت کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں ہوگی اور میں آپ کی ہمسایہ ڈومنین آف انڈیا کا آئینی سربراہ بنوں گا۔ دونوں حکومتوں کے قائدین نے مجھے جوائنٹ ڈیفنس کونسل کا غیر جانبدار چیئرمین بننے کی دعوت دی ہے یہ میرے لیے ایک اعزاز ہے جس پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا۔
کل دو نئی خود مختار ریاستیں دولت مشترکہ میں شامل ہوں گی، یہ نئی اقوام نہ ہوں گی، بلکہ یہ قدیم قابل فخر تمدن کی وارث اقوام ہیں، ان مکمل طور پر آزاد ریاستوں کے لیڈر بڑے مدبر ہیں، دنیا بھر کی نگاہوں میں احترام سے دیکھے جاتے ہیں، ان کے شاعروں، فلسفہ دانوں، سائنس دانوں اور افواج نے انسانیت کی خدمت کے لیے ناقابل فراموش خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان ریاستوں کی حکومتیں ناتجربہ کار اور کمزور نہیں ہیں بلکہ دنیا بھر میں قیام امن اور ترقی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی پوری صلاحیتیں رکھتی ہیں“۔
لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر کا آغاز کیا انھوں نے سب سے پہلے شاہ انگلستان اور وائسرائے کا شکریہ ادا کیا اور انہیں یقین دلایا کہ:
”ہمارا ہمسایوں سے بہتر اور دوستانہ تعلقات کا جذبہ کبھی کم نہ ہوگا اور ہم ساری دنیا کے دوست رہیں گے۔“
اسمبلی کی کارروائی اور اعلان آزادی کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح‘ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے ہمراہ شاہی بگھی میں گورنر جنرل ہاﺅس واپس ہوئے۔ دوپہر دو بجے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن‘ نئی دہلی روانہ ہوگئے جہاںاسی رات12بجے بھارت کی آزادی کے اعلان کے ساتھ انہیں بھارت کے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنا تھا۔
لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے اعلان آزادی کے مطابق 14 اور 15 اگست 1947ءکی درمیانی شب رات 12 بجے دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار اور دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت کا اضافہ ہوا۔ جس کا نام پاکستان تھا۔
عین اسی وقت لاہور، پشاور اور ڈھاکا سے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس سے پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوا۔ اس سے قبل 14 اور 15 اگست 1947ءکی درمیانی رات لاہور،پشاور اور ڈھاکا اسٹیشنوں سے رات 11 بجے آل انڈیا ریڈیو سروس نے اپنا آخری اعلان نشر کیا۔ 12بجے سے کچھ لمحے پہلے ریڈیو پاکستان کی شناختی دھن بجائی گئی اور ظہور آذر کی آواز میں انگریزی زبان میں فضا میں ایک اعلان گونجا کہ آدھی رات کے وقت پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت معرض وجود میں آجائے گی۔ رات کے ٹھیک 12بجے ہزاروں سامعین کے کانوں میں پہلے انگریزی اور پھر اردو میں یہ الفاظ گونجے ”یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے“۔
انگریزی میں یہ اعلان ظہور آذر نے اور اردو میں مصطفی علی ہمدانی نے کیا۔اس اعلان کے فوراً بعد مولانا زاہر القاسمی نے قرآن مجید کی سورہ فتح کی آیات تلاوت فرمائیں۔جس کے بعد ان کا ترجمہ نشر کیا گیا بعدازاں خواجہ خورشید انور کا مرتب کیا ہوا ایک خصوصی سازینہ بجایا گیاپھرسنتو خاں اور ان کے ہم نواﺅں نے قوالی میں علامہ اقبال کی نظم ساقی نامہ کے چند بندپیش کئے۔ ان نشریات کا اختتام حفیظ ہوشیارپوری کی ایک تقریر پر ہوا۔ آدھی رات کے وقت ہی ریڈیو پاکستان پشاور سے آفتاب احمد بسمل نے اردو میں اور عبداللہ جان مغموم نے پشتو میں پاکستان کے قیام کا اعلان کیا جبکہ قرآن پاک کی تلاوت کا شرف قاری فدا محمد نے حاصل کیا۔ ان نشریات کا اختتام جناب احمد ندیم قاسمی کے لکھے ہوئے ایک نغمے پر ہوا جس کے بول تھے ”پاکستان بنانے والے پاکستان مبارک ہو“۔
اسی وقت اسی نوعیت کا اعلان ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے انگریزی میں کلیم اللہ نے کیا جس کا ترجمہ بنگلہ زبان میں نشر کیا گیا۔
15 اگست 1947ءکی صبح ریڈیو پاکستان لاہور کی ٹرانسمیشن کا آغاز آٹھ بجے سورہ آل عمران کی منتخب آیات سے ہوا۔ آیات قرآنی کی تلاوت کے بعد انگریزی خبروں کا آغاز ہوا جو نیوز ریڈر نوبی نے پڑھیں۔خبروں کے بعد ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے قائداعظم کی آواز میں ایک پیغام سنوایا گیا۔ جو پہلے سے ریکارڈ شدہ تھا۔(قائداعظم کے اس خطاب کی آڈیو کلپ یو ٹیوب پر موجود ہے۔) قائداعظم کی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے ہوا تھا:
"It is with feelings of greatest happiness and emotion that I send you my greetings. August 15 is the birthday of the independent and sovereign State of Pakistan. It marks the fulfilment of the destiny of the Muslim nation which made great sacrifices in the past few years to have its homeland.”
(ترجمہ:بے پایاں مسرت اور احساس کے جذبات کے ساتھ میں آپ کو تہنیت کا پیغام دیتا ہوں۔ 15 اگست آزاد اور خود مختار پاکستان کی پیدائش کا دن ہے۔ یہ مسلم قوم کی منزل مقصود کی علامت ہے جس نے پچھلے چند برسوں میں اپنے وطن کے حصول کے لیے عظیم قربانیاں پیش کیں۔)
اپنے اس خطاب میں قائداعظم نے پاکستان کے تمام شہریوں کو پاکستان کی خود مختار مملکت کے قیام کی مبارک باد پیش کی اور کہاکہ اس نئی مملکت کے وجود میں آجانے سے پاکستان کے باشندوں پر زبردست ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اب انہیں دنیا کو یہ ثابت کر دکھانا چاہیے کہ کس طرح ایک قوم، جس میں مختلف عناصر شامل ہیں آپس میں مل جل کر صلح و آشتی کے ساتھ رہتی ہے۔
اسی دن یعنی 15 اگست 1947ءکی صبح اخبارات نے پاکستان کے یوم آزادی کے حوالے سے خصوصی شمارے شائع کیے اور انگریزی کے مشہور اخبار ”ڈان“ نے کراچی سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس خصوصی اشاعت کی سرخی تھی: "May Pakistan Prosper Always” :Lord Mountbatten اس سرخی کے نیچے جو خبر شائع ہوئی تھی اس میں لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی اس تقریر کا مکمل متن درج کیا گیا تھا جس کا اقتباس اوپر تحریر کیا جاچکا ہے۔ روزنامہ ڈان نے اس موقع پر 32 صفحات پر مشتمل ایک خصوصی ضمیمہ بھی شائع کیا تھا جو ہمارے ذاتی کتب خانے میں بھی محفوظ ہے اور یو ٹیوب پر بھی Dawn15/8/1947 لکھ کر تلاش کیا جاسکتا ہے۔(اس فیچر کے ساتھ ٹائمز آف انڈیا کی 15 اگست 1947ءکے شمارے کے صفحہ اوّل کی تصویر بھی شائع کی جارہی ہے اس میں بھی یہ خبر انہی الفاظ کے ساتھ شامل ہے۔)
ڈان کے اس ضمیمے میں قائداعظم محمد علی جناح کا ایک پیغام بھی شامل تھا جو 10 اورنگ زیب روڈ، نئی دہلی سے جاری کیا گیا تھا۔ اس پیغام پر اس کے اجرا کی تاریخ درج نہیں ہے مگر یہ بات یقینی ہے کہ یہ پیغام 7 اگست 1947ءسے پہلے جاری ہوا تھا۔ اس پیغام میں قائداعظم محمد علی جناح نے کہا:
"The first issue, I am informed will appear from Karachi, the capital of Pakistan on the 15th of August, the appointed day.”
(ترجمہ: مجھے بتایا گیا ہے کہ (روزنامہ ڈان کا) پہلا شمارہ پاکستان کے دارالحکومت کراچی سے 15 اگست کو،جو مقررہ دن ہے ،شائع کیا جائے گا۔)
اسی دن یعنی 15 اگست 1947ءکو پاکستان کا پہلا گزٹ بھی جاری ہوا جس میں قائداعظم محمد علی جناح کی بطور گورنر جنرل پاکستان مقرر کیے جانے اور اسی دن سے ان کا یہ عہدہ سنبھالنے کی اطلاع درج تھی۔ اسی روز لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عبدالرشید نے قائداعظم محمد علی جناح سے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف لیا اور اسی روز نوابزادہ لیاقت علی خان کی قیادت میں پاکستان کی پہلی کابینہ کے ارکان نے بھی اپنے عہدوں کے حلف اٹھالیے۔
ان تمام معروضات اور دستاویزی شہادتوںسے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ پاکستان 14 اگست 1947ءکو نہیں بلکہ 15 اگست 1947ءکو معرض وجود میں آیا تھا۔
پاکستان کے قیام کے پہلے برس کسی کو اس معاملے میں ابہام نہیں تھا کہ پاکستان کب آزاد ہوا؟۔ اس بات کو تقویت اس چیزسے بھی ملتی ہے کہ 19 دسمبر 1947ءکو پاکستان کے محکمہ داخلہ نے اپنے مراسلے 17/47 کے ذریعہ 1948ءکی جن سالانہ تعطیلات کا اعلان کیا ان میں 1948ءکے لیے یوم پاکستان کی تعطیل کے آگے 15 اگست 1948ءکی تاریخ درج تھی۔ (یہ مراسلہ نیشنل ڈاکیومینٹیشن سینٹر، اسلام آباد میں محفوظ ہے اور اس کی عکسی نقل اس فیچر کے ساتھ شائع کی جارہی ہے۔)
1948ءکی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کے محکمہ ڈاک نے پاکستان کے ابتدائی ڈاک ٹکٹوں کی ڈیزائننگ اور طباعت کے کام کا آغاز کیا۔ یہ چار ڈاک ٹکٹوں کا سیٹ تھا جن کے ابتدائی تین ڈاک ٹکٹ ایکسٹرنل پبلسٹی ڈپارٹمنٹ کے مصوروں رشید الدین اور محمد لطیف نے مشترکہ طور پر ڈیزائن کیے تھے جبکہ چوتھا ڈاک ٹکٹ اور اس کے ساتھ شائع ہونے والا فولڈر ملک کے عظیم مصور عبدالرحمن چغتائی کی تخلیق تھا۔ یہ ڈاک ٹکٹ برطانیہ کے طباعتی ادارے میسرزٹامس ڈی لارو میں طبع ہوئے تھے۔ یہ ڈاک ٹکٹ 9 جولائی 1948ءکو فروخت کے لیے پیش کیے گئے اور ان پر بھی پاکستان کے یوم آزادی کی تاریخ 15اگست 1947ءشائع کی گئی تھی۔
گویا 9 جولائی 1948ءتک یہ بات طے تھی کہ پاکستان 15 اگست 1947ءکو آزاد ہوا تھا۔ پاکستان کا یوم آزادی 15اگست سے 14 اگست کب ہوا، یہ معمہ حل کرنے کے لیے ہم نے نیشنل ڈاکیومینٹیشن سینٹر، کیبنٹ ڈویژن،اسلام آباد کے دروازے پر دستک دی۔ وہاں ہماری ملاقات اس سینٹر کے ڈائریکٹر جناب قمر الزماں سے ہوئی۔ جن کی مدد سے ہماری رسائی اس سینٹر میں محفوظ ان فائلوں تک ہوئی جو ایک طویل عرصے تک خفیہ رہنے کے بعد اب عوام کے لیے کھول دی گئی ہیں۔
ان فائلوں کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوا کہ منگل 29 جون 1948ءکو کراچی میں وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی زیر صدارت منعقد ہونے والے کابینہ کے ایک اجلاس میں، جس میں وزیر خارجہ، وزیر مواصلات، قانون و محنت، وزیر مہاجرین و آباد کاری، وزیر خوراک ،زراعت و صحت اور وزیر داخلہ ، اطلاعات و نشریات موجود تھے، فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے پہلے یوم آزادی کی تقریبات 15 اگست 1948ءکی بجائے 14 اگست 1948ءکو منائی جائیں۔ وزیراعظم لیاقت علی نے کابینہ کو بتایا کہ یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے، وہ یہ معاملہ قائداعظم محمد علی جناح کے علم میں لائیں گے اور جو بھی حتمی فیصلہ ہوگا قائداعظم کی منظوری کے بعد ہوگا۔
وہ فائل جس میں یہ تفصیل درج ہے اس کا نمبر ہے 196/CF/48 اور کیس کا نمبر ہے 393/54/48۔ اس فائل میں انگریزی میں درج کارروائی میں تحریر ہے :
The Hon’ble the Prime Minister undertook to convey to the Quaid-i-Azam the suggestion that our Independence Day celebrations should be held on the 14th rather than the 15th August.
(ترجمہ: معزز وزیراعظم نے یہ ذمہ داری سنبھالی ہے کہ وہ قائداعظم تک یہ تجویز پہنچائیں کہ ہماری یوم آزادی کی تقریبات15 اگست کی بجائے 14 اگست کو منائی جایا کریں۔)
اس فائل میں یہ تحریر نہیں کہ اس تجویز کا محرک کون تھا اور یوم آزادی کی تقریبات 15 کی بجائے 14 اگست کو منائے جانے کے حق میں کیا دلائل پیش کیے گئے تھے۔ کارروائی کے آخر میں بریکٹ میں تحریر ہے:
Quaid-i-Azam has approved the suggestion.
(قائداعظم نے تجویز کو منظور کرلیا)
فائل آگے چلتی ہے اور اگلے صفحات میں کیس نمبر 54/CM/48 مورخہ 12 جولائی 1948ءکے تحت کابینہ کے ڈپٹی سیکریٹری ایس عثمان علی کے دستخطوں کے ساتھ تحریر ہے کہ انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ وزیراعظم کی زیر صدارت 29 جون 1948ءکو منعقد ہونے والی کابینہ میٹنگ کے فیصلے سے تمام وزرا اور ان کی وزارت کے متعلقہ سیکریٹریوں کو آگاہ کردیں تاکہ اس فیصلے پر عملدرآمد ممکن بنایا جاسکے۔
فائل میں اگلے حکم نامے کا نمبر 15/2/48 ہے جو 13 جولائی 1948ءکو جاری ہوا۔ اس حکم نامہ پر حکومت پاکستان کے ڈپٹی سیکریٹری احمد علی کے دستخط ہیں۔ حکم نامہ میں کہا گیا تھا کہ ملک کے پہلے یوم آزادی کی تقریبات 14 اگست 1948ءکو منائی جائیں گی۔ اس دن ملک بھر میں عام تعطیل ہوگی اور تمام سرکاری اور عوامی عمارتوں پر قومی پرچم لہرائے جائیں گے۔ اسی تسلسل میں ایک حکم نامہ اور بھی ہے جس پر حکومت پاکستان کے اسسٹنٹ سیکریٹری محمد مختار کے دستخط ہیں۔ اس حکم نامہ کا نمبر بھی 15/2/48 ہے اور اس میں بھی وہی حکم دہرایا گیا ہے، جو ماسبق حکم نامے میں درج تھا۔ اس حکم نامے میں جو بات اضافی تھی وہ یہ تھی کہ اس فیصلے سے حکومت پاکستان کی تمام وزارتوں، تمام ڈویژنوں، کیبنٹ سیکریٹری، دستور ساز اسمبلی، قائداعظم کے پرائیویٹ اورملٹری سیکریٹری، اکاﺅنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیوز، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اوربھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو مطلع کردیا جائے۔
فائنل میں محفوظ اگلا حکم نامہ 14جولائی 1948ءکو جاری ہوا اور اس کا ڈی او نمبر ہے 390/CB/48۔ اس میں ایس (شجاعت) عثمان علی نے (ڈپٹی سیکریٹری ٹو دی کیبنٹ) نے وزارت داخلہ کے ڈپٹی سیکریٹری خان بہادر سید احمد علی کو مخاطب کیا ہے اور انہیں مطلع کیا ہے۔
(ترجمہ):”آپ نے چند روز قبل کابینہ کے اس فیصلے کے بارے میں کہ پاکستان کی یوم آزادی کی تقریب14 اگست کو منائی جائے گی، دریافت کیا تھا کہ کیا یہ فیصلہ صرف اس سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے۔ میں آپ کو بالصراحت بتانا اور تصدیق کرنا چاہتا ہوں کہ نہ صرف اس سال بلکہ آئندہ ہمیشہ یہ تقریب14 اگست کو منائی جائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ہر متعلقہ شخص کو اس فیصلے سے مطلع فرما دیں گے۔“
کابینہ کے اس فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور ملک بھر میں پاکستان کے پہلے یوم آزادی کی تقریبات 14 اگست 1948ءکو منائی گئیں۔ تاہم روزنامہ ڈان نے یوم آزادی کے حوالے سے اپنا پہلا سالنامہ جو 100 صفحات کے خصوصی ضمیمے کی صورت میں شائع کیا گیا تھا 14 کی بجائے 15 اگست 1948ءہی کو شائع کیا۔
(شاید اس کا ایک سبب یہ ہو کہ اس سال 15 اگست کو اتوار کا دن پڑا تھا اور یہ دن کسی اخباری ضمیمے کی اشاعت کے لیے نہایت موزوں تھا)
نیشنل ڈاکیومینٹیشن سینٹر میں ایک فائل 360/CF/48 بھی محفوظ ہے جس میں 1948ءمیں منائی جانے والی سالانہ تعطیلات کی تفصیل درج ہے۔ اس فائل کے مطابق 1948ءمیں یوم پاکستان کی چھٹی 14 اگست 1948ءکو دیئے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس برس روزنامہ ڈان نے بھی 92 صفحات پر مشتمل اپنا خصوصی ضمیمہ 15 کی بجائے 14اگست 1948ءکو شائع کیا تھا۔
پاکستان کے یوم آزادی کی تقریبات 15 اگست کی بجائے 14 اگست کو منانے کا یہ دستور آج تک جاری ہے، اور یوں آہستہ آہستہ بات راسخ ہوگئی کہ پاکستان 15 اگست 1947ءکو نہیں بلکہ 14 اگست 1947ءکو آزاد ہوا تھا۔ حالانکہ محولہ بالا دستاویزات کے مطالعے سے یہ بات بڑی حد تک طے ہوجاتی ہے کہ پاکستان کی پہلی کابینہ نے پاکستان کی تاریخ آزادی تبدیل نہیں کی تھی بلکہ صرف یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہر سال پاکستان کے یوم آزادی کی تقریبات15 کی بجائے 14 اگست کو منایا جایا کریں گی اور قائداعظم نے بھی اسی فیصلے کی توثیق کی تھی۔
ہمیں یقین ہے کہ ہماری اس تحقیق اور اس فیچر کی اشاعت کے باوجود پاکستان کے یوم آزادی کی تاریخ میں سرکاری طور پر کوئی فرق نہیں آئے گا مگر یہ حقیقت نہ جھٹلائی جاسکتی ہے اور نہ اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا یوم آزادی 15اگست 1947ءہے۔ اس دن جمعتہ الوداع تھا اور اسلامی تاریخ 27 رمضان المبارک 1366ھ تھی۔ اپنا یوم آزادی 15اگست 1947ءکی بجائے 14 اگست 1947ءقرار دینے سے نہ صرف ہم اپنے یوم آزادی کی تاریخ بدلنے کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ جمعتہ الوداع اور 27 رمضان المبارک کے اعزاز سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔
اس مضمون کی تیاری میں حسب ذیل مضامین،کتب اور دستاویزات سے مدد لی گئی ہے۔
(1) دی ٹرانسفر آف پاور، جلد 12۔ ہر میجسٹی اسٹیشنری آفس، لندن۔
(2) جناح پیپرز، مدیر اعلیٰ ڈاکٹر زوار حسین زیدی، تلخیص و ترجمہ سید نصرت اللہ شاہ، قائداعظم پیپرز پروجیکٹ، کیبنٹ ڈویژن حکومت پاکستان ،اسلام آباد، جلد سوم۔
(3) قائداعظم محمد علی جناح، روز و شب کا تاریخ وار اشاریہ، تدوین ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ترجمہ خواجہ رضی حیدر، قائداعظم اکادمی ،کراچی۔
(4)پاکستان کا تاریخی انسائیکلو پیڈیا، زاہد حسین انجم، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور۔
(5) پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ پبلی کیشنز، کراچی۔
(6)روزنامہ پاکستان ٹائمز، لاہور،15جولائی 1947ءتا15 اگست 1947ءکے شمارے۔
(7) روزنامہ ڈان ،کراچی،15 اگست 1947ئ۔
(8) روزنامہ ڈان، کراچی، 15 اگست 1948ئ۔
(9) روزنامہ ڈان، کراچی، 14 اگست 1949ئ۔
(10) مضمون، یوم آزادی: جمعتہ المبارک 27 رمضان یا 15 اگست، ضیاءالدین لاہوری، مشمولہ جریدہ 36،(غیر مطبوعہ کتابیں نمبر) شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ ،جامعہ کراچی۔
(11)خفیہ فائل نمبر 360/CF/48،نیشنل ڈاکیو مینٹیشن سینٹر، کابینہ ڈویژن، حکومت پاکستان، اسلام آباد۔
(12) خفیہ فائل نمبر 196/CF/48،نیشنل ڈاکیو مینٹیشن سینٹر، کابینہ ڈویژن، حکومت پاکستان، اسلام آباد۔
(عقیل عباس جعفری)