کیا خدا ہمیں مشکل میں دیکھ کر خوش ہوتا ہے؟ جواب از ڈاکٹر محمد عقیل
سوال :” اللہ کی محبت آزمائش، مصائب و آلام سے مشروط کیوں ہوتی ہے؟
جواب :یہ ایک غلط فہمی ہے۔ دنیا کی زندگی فرض کریں کہ سو دن کی ہے تو اس میں مصیبت و آلام کے بمشکل دس دن ہی ہونگے۔ باقی نوے دن یا تو خوشی ہوگی اور یا پھر نیوٹرل ۔
سوال :مذہب انسان کو روتا، تڑپتا اور سسکتا کیوں پسند کرتا ہے؟
جواب :مذہب انسان کو سسکتا دیکھنا نہیں چاہتا بلکہ سسکیوں اور آہوں کے لیے ایک کندھا فراہم کرتا ہے۔ وہ ممالک جہاں مذہب نہیں، سسکیاں ، آہیں اور مصائب و آلام تو وہاں بھی ہیں۔ تو مذہب رونا تڑپنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا علاج دیتا ہے۔
سوال :جو پیدا ہی غریب، پسماندہ، معذور اور مفلس ہوا اس کا کیا قصور؟ اس کی کیا مزید آزمائش؟
جواب: امتحانی پرچہ میں سوالات مختلف ہوتے ہیں۔ کسی کے پرچے میں غربت تو کسی کے پرچے میں امارت۔ دیکھنے میں امارت بہتر لگتی ہے لیکن ایک مالدار شخص کی آزمائش بہت کڑی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ عیسی علیہ السلام نے فرما دیا کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں تو جاسکتا ہے لیکن ایک متکبر مالدار جنت میں نہیں جاسکتا۔ باقی جو مفلس اور نادار اور معذور ہیں ان کا امتحانی پرچہ میں پہلے ہی ان کو گریس مارکس دے دیے گئے ہیں یعنی اگر وہ اس محرومی پر صبر کرلیں تو اسی پر جنت کے اعلی درجات کی بشارت ہے۔ دراصل ا س سارے معاملے کو ہم خدا کی جانب سے دیکھتے ہیں تو یہ سارے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ماں باپ بن کر دیکھیں تو بڑی عجیب بات ہے کہ یہ سارے کام کسی حد تک ہم اپنے بچوں کے ساتھ بھی کررہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب بچے کو چلنا سکھاتے ہیں تو اسے کھڑا کردیتے ہیں وہ گرتا ہے، لڑھکتا ہے ، اسے چوٹ بھی لگتی ہے لیکن ہم اسے گرنے دیتے ہیں البتہ بڑی چوٹ سےبچالیتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو وہ کبھی چلنا نہیں سیکھ سکتا۔ ایسے ہی ہم اپنے بچوں کو خود امتحان سے گذارتے ہیں اور اس امتحان کا مقصد تنگ کرنا نہیں بلکہ اگلی کلاس میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ خدا کی جانب سے بھی جو آزمائشیں اور مشکلات آتی ہیں وہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ انسان کو ایک اعلی سوسائٹی یعنی جنت میں رہنے کے لیے قابل بنانا اس ٹریننگ کا بنیادی مقصد ہے۔ جس طرح آرمی کی ٹریننگ ، مشقت، مشکلات اور کورسز کیے بنا کوئی فوج میں شامل نہیں ہوسکتا ، اسی طرح خدا کے ٹریننگ پروگرامز میں سے کامیابی سے گذرے بنا کوئی جنت کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی سویلین بنا ٹریننگ کے فوج میں شامل کردیا جائے تو وہ اس سیٹ اپ میں رہ ہی نہیں سکتا اور ایک وقت آئے گا کہ اسے نکال دیا جائے گا۔ چنانچہ جنت میں کوئی ایسا شخص نہیں داخل ہوسکتا جو آلائشوں سے آراستہ ہو۔ اسی لیے جو مومن دنیا میں یہ تزکیہ کا عمل مکمل نہیں کرپاتے ان کے لیے عارضی جہنم ہے۔ یہاں اس کے بعض گناہوں کو سزا دے کر دور کردیا جاتا اور پھر اس کے جنت میں دخول کے امکانات ہوتے ہیں۔یعنی دنیا کی ٹریننگ کے بعد تین آپشنز ہیں۔ اگر اس میں کامیاب ہوکر نفس کو پاک کرلیا تو جنت، پاک کیا لیکن کچھ آلائشیں لگی رہ گئیں جو نیکیوں کے مقابلے میں پچاس فی صد سے زائد تھیں تو جہنم میں عارضی قیام اور پھر جنت۔ اور اگربرائیوں نے احاطہ اس طرح کرلیا تھا کہ پوری شخصیت ہی غلاظت کا ڈھیر تھی تو جنت میں لے جانے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں اور ابدی جہنم۔