یہود نے کب عزیر کو خدا کا بیٹا کہا ؟؟؟ تحریر مبین قریشی

یہود نے کب عزیر کو خدا کا بیٹا کہا ؟؟؟

یہ وہ اعتراض ہے جو یہودی اہل علم قرآن پر ہماری تفاسیر کی روشنی میں کرتے ہیں ۔ اسکا جواب ہمارے اہل علم دو طرح سے دیتے ہیں :

۱:) عزیر کو یقیناً عرب کا کوئی یہودی قبیلہ خدا کا بیٹا مانتا ہوگا وگرنہ تو یثرب و خیبر کے یہود ضرور بضرور رسول اللہﷺ  پر اعتراض کرتے کہ یہ آیت ہم پر بہتان ہے۔ انکا یہ اعتراض نہ اٹھانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کسی ایسے فرقے سے واقف تھے جو عزیر کو خدا کا بیٹا مانتا تھا مگر بعد ازاں وہ فرقہ مرور زمانہ کیساتھ ختم ہوگیا اسلئے اسکا ذکر نہیں ملتا۔
اسکے جواب میں یہود کہتے ہیں کہ قرآن نے یہ الزام ( نعوذ باللہ ) ہم پر کسی شروع دور کی مدنی سورت میں نہیں لگایا بلکہ نزول کے لحاظ سے آخری سورہ توبہ میں لگایا ہے جس وقت تک یثرب میں کوئی یہودی اعتراض کے لئے بچا ہی نہیں تھا۔ اور پھر یہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تاریخ کے اس موڑ پر لگایا گیا جب محمد رسول اللہ اتنے غالب آچُکے تھے کہ پورے جزیرہ عرب ( آج کے جی سی سی کے چھ ممالک بشمول یمن ) کو بیک وقت چار ماہ کی مہلت کے بعد قتال کے چیلنج کی طاقت حاصل کرچکے تھے اور خیبر اس سے کہیں پہلے ہی مغلوب ہوچکا تھا۔ اور بالفرض اگر ایسا کچھ بھی نہ ہوتا تب بھی قدیم مفسرین نے اس فرقے کا ذکر تو ضرور ہی کیا ہوتا ۔

۲:):ایک اور جواب جو اس ضمن میں ہمارے کچھ جدید اہل علم نے دیا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن میں مذکور عزیر درحقیقت بائبل والے عزرا فقیہہ نہیں ( اور نہ ہی بعض مفسرین کی رائے کے مطابق کوئی نبی ہیں ) بلکہ موسی علیہ سلام کی بعثت سے پہلے جب بنی اسرائیل مصر میں غلامی کی زندگی گزار رہی تھی اس دور کے مصر کے ایک دیوتا کا معرب نام عزیر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مصریوں کی دیکھا دیکھی بنی اسرائیل بھی اسے کوئی الوھیاتی مقام دینے لگے ہوں ۔ اسکے جواب میں کہا جاتا ہے کہ اس دور جاہلیت کی کسی اور برائی کا بھلا قرآن نے ذکر کیا ہے جو یہاں نصاری کیساتھ ملا کر اس مبنی بر قیاس جرم کا ذکر کردیا ہے۔ فراعنہ کے ہاتھوں مغلوب قوم کی تصویر تو قرآن اور تورات دونوں نے ایک مظلوم قوم کی کھینچی ہے۔ چار سو سال کے اس پسے ہوے دور میں پیدا ہونے والے بچے نہ جانے قبطی کلچر میں کیا کیا کرتے ہونگے۔ مگر قرآن نے جب انکے جرائم کو گنوایا تو موسی علیہ سلام کی مصر میں چالیس سال کی دعوت اور کئی طرح کی نشانیاں دکھا چکنے کے بعد اور پھر فرعونیوں سے آذادی کی نعمت کے بعد کے جرائم گنوایا ہے۔ مزید یہ کہ قرآن نے یہ جرم بنی اسرائیل کا نہیں گنوایا بلکہ بنی اسرائیل میں سے یہود کی تخصیص کیساتھ گنوایا ہے ۔ ظاہر ہے یہود سے مراد بنی اسرائیل کی تقسیم کے بعد یہودیہ بستی کے دو قبائل ہیں جو آل داؤد کے پایہ تخت کی وجہ سے شمالی اسرائیلی ریاست کے مقابلے میں یہودی ریاست کہلاتی تھی ، اور آل یہود کی حکمرانی والی ریاست کے مکین یہودی کہلاتے تھے۔ اسلئے یقیناً یہاں عزیر سے مراد عزراء فقیہہ ہی ہیں ۔ عربی تورات والے یہود عزراء فقیہہ کے علاوہ کسی دوسرے عزیر سے کبھی واقف ہی نہیں رہے۔

درج بالا دونوں جوابات اور ان پر اٹھائے جانے والے اعتراضات آپکے سامنے رکھ دئے ہیں ۔ میں اس اعتراض اور اسکی جزئیات کو جیسے دیکھتا ہوں وہ آپکے سامنے رکھتا ہوں ۔

۱: عزیر کون ہیں ؟
قرآن میں مذکور عزیر یقیناً عزراء فقیہہ ہیں جنکی سند اور تعلیم یا کم از کم ان سے منسوب باتوں پر یہودی فقہہ کی بڑی عمارات قائم ہوئی تھیں ۔ انکے شاگردوں اور پھر اس سلسلے کے اہل علم کی آراء کو بھی عزراء فقیہہ کی رائے ہی کہا جاتا تھا۔ فریسی اور صدوقی دو مکتب فکر ہونے کے باوجود بھی عزراء فقیہہ پر متفق تھے۔ سورہ توبہ کی اس آیت (۳۰-۳۱) میں ایک قرینہ ایسا بھی موجود ہے جو ان علماء کی رائے کی تصدیق بھی نہیں کرتا جو کعب احبار کے قول کی وجہ سے عزیر کو پیغمبر گمان کرتے ہیں ۔ آیت ۳۰ میں قرآن نے یہود و نصاری کے قول کو عزیر اور مسیح علیہ سلام کے لئے ذکر کرکے اگلی آیت میں دونوں کا صحیح تعارف کروایا ہے ۔ آیت ۳۰ میں المسیح ابن اللہ کے مقابلے میں آیت ۳۱ میں المسیح ابن مریم کہا ہے ۔ اسی طرح آیت ۳۰ میں عزیر ابن اللہ کے مقابلے میں آیت ۳۱ میں عزیر کے صحیح تعارف کے لئے احبارھم و رھبانھم کے الفاظ ہیں جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ عزراء فقیہہ کوئی پیغمبر نہیں بلکہ فقیہ و پارساء شخصیت تھے۔

۲: ابن اللہ سے کیا مراد ہے ؟
کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے اندر حقیقی و مجازی دونوں معنی رکھتے ہیں ۔ ابن کا لفظ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ولد ( تولد ہوے ) کا معنی بھی دیتا ہے اور مقرب ، ولی ، محبوب ، یا کسی خاص نسبت کی وجہ سے عرفیت بھی بنتا ہے ۔ مثلاً ابن کثیر ، ابن حجر ، ابن المال ، ابن الدنیاء وغیرہ وغیرہ۔ ان مثالوں میں آپ ابن کا مطلب متولد بیٹے کے طور پر نہیں کرسکتے ۔ زبان کا یہ اسلوب عربی اور عبرانی دونوں زبانوں میں موجود ہے ۔ مثلاً ابو کا لفظ بھی دونوں زبانوں میں اسی طرح حقیقت اور مجاز دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ابو ھریرہ ، ابو الفضل ، ابو لہب وغیرہ وغیرہ ۔

۳: یہود و نصاری کن معنوں میں ابن اللہ کا لفظ استعمال کرتے تھے ؟؟

عیسائیوں میں تو کئی فرقے تھے اور وہ اس لفظ کو مسیح علیہ سلام کے لئے حقیقت اور مجاز دونوں معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ رومی سلطنت کے زیر تسلط شمالی اور جنوبی عرب مسیح اسے حقیقی معنوں میں یعنی جنے ہوئے بیٹے کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ لیکن حجاز کے گرد و نکاح کے مسیحی ( جنھیں آجکل کی مسیحیت کی تاریخ میں عرب بدعتی مسیح فرقے کہا جاتا ہے ) اس لفظ کو مجازی معنوں میں استعمال کرتے تھے ۔ یہود یقیناً اس لفظ کو مجازی معنوں میں ہی استعمال کرتے تھے ۔ اس بات کی تفصیل سے قبل یہود و نصاری کا اپنی اپنی قوم ( ناکہ مسیح و عزیر) کے متعلق اس لفظ کے استعمال کو سورہ مائدہ کی آیت ۱۸ میں دیکھیے :

وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ
اور یہود و نصاری کہتے ہیں کہ ہم ابن اللہ یعنی اللہ کے محبوب ہیں ۔

اس آیت میں دیکھے قرآن نے یہود و نصاری دونوں قوموں کا اپنی اپنی پوری قوم کے متعلق اسی لفظ سے دعوی نقل کیا ہے جس لفظ سے عزیر کے لئے یہود کا دعوی نقل کیا ہے۔ کیا کبھی کسی یہودی یا مسیحی نے اپنے متعلق اس لفظ کو حقیقی معنی میں استعمال کیا ہوگا ؟ یقینًا نہیں ۔
تو پھر سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیسے پتہ چلے کہ سورہ توبہ میں کن معنوں میں یہ دعوی اس لفظی ترکیب کے ساتھ نقل ہوا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ آیت ہی میں قرینہ موجود ہے ۔ آیت ۳۰ میں المسیح ابن اللہ کے مقابلے میں آیت ۳۱ میں المسیح ابن مریم یعنی باپ کے مقابلے میں ماں کیساتھ تعارف قرینہ ہے کہ یہ لفظ تولد کے حقیقی معنوں کے لئے استعمال ہوا ہے ، جبکہ آیت ۳۰ میں عزیر ابن اللہ کے مقابلے پر آیت ۳۱ میں اتخذوا اخبارھم و رھبانھم ارباب من دون اللہ کا قرینہ بتا رہا ہے کہ یہ خدا اور پیغمبر کے مقابلے میں ایک شخص کی اندھی تقلید کے لئے مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ محمد رسول اللہﷺ  سے بھی اس آیت کی بابت پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اپنے علماء و صلحاء کے اقوال کو وہی اہمیت نہ دیتے تھے جو اہمیت خدا کے قول کی ہوتی ہے ۔

 
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.