حضرت ابراہیم اور بیماری کا جھوٹ
کیا حضرت ابراہیم نے جھوٹ بولا تھا ؟ یا انہونے بہانہ بنایا تھا ؟
قرآن کی ایک آیت ہے .
فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ ﴿٨٨﴾ فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ ﴿٨٩ ﴾
پھر اس نے تاروں پر ایک نگاہ ڈالی (٨٨) اور کہا میری طبیعت خراب ہے (٨٩ )
احادیث میں یہ بیان ملتا ہے کہ یہ ان تین جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ تھا جو حضرت ابراہیم نے زندگی میں بولے تھے .
مودودی صاحب اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کی قوم کے لوگ کسی میلے میں جا رہے ہونگے ، ان کے خاندان والوں نے ان کو بھی ساتھ چلنے کو کہا ہوگا تو انہونے یہ بات کہ کر معذرت کردی ہوگی کہ ان کی طبیعت خراب ہے اور وہ چل نہیں سکتے . انہونے نہ چلنے کا بہانہ بنا دیا . دوسرے لفظوں میں ایک طرح کی غلط بیانی کی
اصلاحی صاحب اور غامدی صاحب اس بارے میں فرماتے ہیں .
یہ غالباً معبد میں کسی تقریب کا موقع تھا۔ ایسے موقعوں پر لوگ بالعموم ماندہ اور مضمحل ہو جاتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے پہلے آسمان کی طرف نظر ڈال کر لوگوں کو وقت کا احساس دلایا، پھر اپنے اضمحلال کی طرف توجہ دلائی۔ اِس سے اُنھوں نے معبد کے محافظوں اور ذمہ داروں کو یہ تاثر دیا کہ طبیعت کے اضمحلال اور وقت زیادہ ہو جانے کی وجہ سے وہ اِس وقت گھر نہیں جانا چاہتے، بلکہ یہیں پڑرہنا چاہتے ہیں۔ آگے جس اقدام کا ذکر ہے، اُس کے لیے یہ نہایت پاکیزہ توریہ تھا جس میں ہرگز کسی جھوٹ کی آمیزش نہیں تھی۔
عربی میں لفظ نظر کے معنی آنکھ سے دیکھنا ، کسی چیز میں غور کرنا ، اندازہ کرنا اور دوسری چیزوں کے ساتھ ملا کر اس کی بات قیاس کرنا ہے . اہل عرب نَظْرَةً فِي النُّجُومِ کے الفاظ محاورے کے طور پر اس انداز میں بولتے ہیں کہ اس شخص نے غور کیا یا وہ شخص سوچنے لگا .
اب لفظ سقیم پر غور کریں تو سقیم کے معنی مرض ، بیماری کے ہوتے ہیں ،مرض بدن میں بھی ہوتا ہے اور قلب میں بھی جیسے
فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴿١٠ ﴾
ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لیے درد ناک سزا ہے (١٠ )
قلب سقیم ، نا خوش اور بیزار دل کو کہتے ہیں .
ان دو لفظوں کے معنوں سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم نے آسمان میں موجود ستاروں پر غور کیا اور کہا کہ میں ان تمام باتوں سے بیزار ہوں . یعنی اپنے دل میں ان تمام معبودوں سے جن کی تم لوگ عبادت کرتے ہو ان سب سے بیزار ہوں . جس کا ذکر آگے اپنی قوم سے مکالمے میں مزید واضح ہوتا ہے .
اس لیے ان کی قوم جب کسی میلے میں جانے کے لیے تیار ہوئی تو ان سے بھی چلنے کو کہا جس پر حضرت ابراہیم نے ان کے شرکیہ میلے میں جانے سے انکار کردیا . اس لیے اس وضاحت کے بعد یہ بات بلکل صاف ہے کہ نہ تو حضرت ابراہیم نے جھوٹ بولا تھا اور نہ ہی کوئی بہانہ بنایا تھا