انسان کی پہلی تخلیق: تحریر: محمد نعیم خان
انسان کی پہلی تخلیق:
تحریر: محمد نعیم خان
یہ سوال کہ انسان مرنے کے بعد پھر دوبارہ کیسے زندہ ہوگا جبکہ اس کا جسم ہڈیاں اور خاک ہو جائے گا ، بہت قدیم ہے۔ متعدد بار یہ سوال قران کے منکرین نے رسول اللہ سے پوچھا جس کا ذکر ہمیں قران کی متعدد آیات میں ملتا ہے۔ جیسے سورہ اسرا کی آیت میں رسول اللہ کے مخالفین ان سے سوال کرتے ہیں :
وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا ﴿٤٩﴾
وہ کہتے ہیں "جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے؟” (49)
ترجمہ مودودی صاحب
جس کا جواب اللہ نے اس کی اگلی ہی آیات میں کچھ یوں دیا ہے:
قُلْ كُونُوا حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا ﴿٥٠﴾ أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ۚ فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚفَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ ۖ قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَرِيبًا ﴿٥١﴾
ان سے کہو "تم پتھر یا لوہا بھی ہو جاؤ (50) یا اس سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز جو تمہارے ذہن میں قبول حیات سے بعید تر ہو” (پھر بھی تم اٹھ کر رہو گے) وہ ضرور پوچھیں گے "کون ہے وہ جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا کر لائے گا؟” جواب میں کہو "وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا” وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں گے "اچھا، تو یہ ہوگا کب؟” تم کہو "کیا عجب، وہ وقت قریب ہی آ لگا ہو(51)
ترجمہ مودودی صاحب
سورہ الانبیا کی آیت 104 میں اللہ نے قیامت کا نقشہ کھینجا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ایک مرتبہ پھر تخلیق کی ابتدا ویسے ہی کرے گا جیسے کہ پہلے کی تھی ۔ اللہ کا ارشاد ہے:
يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ ﴿١٠٤﴾
وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے(104)
ترجمہ مودودی صاحب
اب یہاں سوال یہ پید ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان کی تخلیق پہلے کیسے کی جس کے اعادے کا زکر اس نے سورہ اسرا میں کیا ہے۔
اس کا جواب ہمیں قران کے مطالعہ سے اس میں موجود متعدد آیات میں ملتا ہے۔ یہاں میں چند آیات کا حوالہ دوں گا. جیسے سورہ الحجر میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ﴿٢٨﴾ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ ﴿٢٩﴾
اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوں، (28) پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکرِ (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گر پڑنا، (29)
ترجمہ طاہر القادری
پھر اس ہی بات کو سورہ ص کی آیات 71 اور 72 میں دہرایا ہے اور اس کی تفصیل سورہ السجدہ کی آیات 7،8 اور 9 میں بیان فرمای ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے
الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ﴿٧﴾ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ﴿٨﴾ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ﴿٩﴾
جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی اُ س نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی (7) پھر اُس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے (8) پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی، اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دِل دیے تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو (9)
ترجمہ مولانا مودودی
اوپر پیش کی گئ آیات اور ان جیسی دوسری آیات سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ انسان کی تحلیق کا عمل دو مراحل میں طے پایا ہے۔ پہلے پہل یہی زمین ہی ماں کا پیٹ تھا۔ جہاں انسان اور روئے ارض پر پائے جانے والے جانداروں کی تخلیق کا آغاز ہوا۔ یہ آغاز ان کیجڑ نما تالابوں میں ہوا جسے سائنس کی زبان میں primodial soup کہتے ہیں جو کہ ایک پیجیدہ نامیاتی مرکبات پر مشتمل تھا جو خط ساحل پر زمین کی مختلف حصوں میں وجود میں آیا۔ ابتدا میں اس سوپ کا ماحول بہت ہی سادہ خلیوں پر مشتمل تھا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ سادہ مالیکیول پانی ، کاربن ڈائ آکسایڈ ، امونیا اور میطھین پر مشتمل تھا۔ جو آہستہ آہستہ ارتقا کے عمل سے گزرتے ہوئے پیچیدہ خلیوں میں تبدیل ہوتئ گئ. پھر مختلف انواع و اقسام کی مخلوقات اس primodial soup سے آہستہ آہستہ باہر زمین کی خشک سطح پر پرورش پا کر ارتقائ عمل سے گزرتی ہوئ آج اس حالت میں ہے جس میں ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اس ہی بات کو قران نے سورہ الانبیا کی آیت 30 میں بیان کیا ہے کہ اس نے ہرجاندار کی تخلیق پانی سے کی ہے۔
یہی وہ کیچڑ کے تالاب تھے جنہوں نے ابتدا میں رحم مادر کا فریضہ انجام دیا۔ جس کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ اس نے انسان کی تخلیق مٹی سے کی۔ ان ہی کیجڑ کے تالابوں میں ہر وہ مختلف جاندار جو روے ارض پر پائے جاتے ہیں ان کا ڈی این اے تخلیق پایا اور پھر ان ہی تالابوں میں ان کی پرورش ہوئ ۔ پھر جب ان کی نشووتما اتنی ہوگئ کہ وہ اس تالاب سے باہر آسکیں تو وہ ان تالابوں سے باہر نکل آئے ۔ یہیں پر ہی انسان کے حیوانی وجود کی تحلیق ہوئ جسے قرآن بشر کہتا ہے۔ یہ بشر زمین پر مختلف حصوں پر وجود میں آئے۔
یہ اللہ کی شان ربوبیت تھی جس کی وجہ سے ان کی پرورش پہلے مرحلہ میں زمین ہی کے رحم مادر میں انجام پای۔ پھر یہی عمل مادہ کے رحم میں منتقل ہوگیا۔ اس ہی بات کو سورہ النجم کی آیت 32 میں یوں بیان کیا ہے:
لَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ ﴿٣٢﴾
جو بڑے بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں، الا یہ کہ کچھ قصور اُن سے سرزد ہو جائے بلاشبہ تیرے رب کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے وہ تمھیں اُس وقت سے خوب جانتا ہے جب اُس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ابھی جنین ہی تھے پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے (32)
ترجمہ مودودی صاحب
اوپر کی پیش کی گئ آیت میں یہ بات بلکل واضع ہے کہ انسان کی تخلیق کو دو مراحل میں مکمل کیا گیا۔ جس کا مزید ثبوت سورہ غافر کی آیت 67 میں ملتا ہے۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚوَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٦٧﴾
وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر وہ تمہیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے، پھر تمہیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ، پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقرر وقت تک پہنچ جاؤ، اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو (67)
ترجمہ مودودٰی صاحب
قرآن اپنے بیان میں اتنا واضع ہے کہ اس نے تخلیق کی ابتدا مختلف مدارج میں کی ۔ اس کو ایک اور جگہ قران نے سورہ نوح کی آیت 14 میں یوں بیان کیا ہے
وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا ﴿١٤﴾
اللہ نے تمہیں مختلف ارتقائ منازل سے گذار کر انسانی منزل تک پہنچایا ہے۔ تمہاری تخلیق مختلف احوال و مدارج سے گذر کر ہوئ ہے۔
پرویز صاحب مفہوم القرآن۔
سورہ السجدہ کی آیات 7 سے 9 تک نے تو بلکل واضع انداز میں انسان کی تخلیق کو دو مراحل میں اتنے صاف انداز میں بیان کردیا کہ کسی اور بات کی گنجایش ہی نہیں چھوڑی۔
الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ﴿٧﴾ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ﴿٨﴾ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ﴿٩﴾
جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی اُ س نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی (7) پھر اُس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے (8) پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی، اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دِل دیے تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو (9)
ترجمہ مودودی صاحب
وہ پہلے خلیے جن سے مختلف جانداروں کی تخلیق کا آغاز ہوا اس کی ابتدا پانی میں ہوئ۔ جو انتدا میں نر اور مادہ دونوں کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس ہی بات کو اللہ نے سورہ النور کی آیت 45 میں یوں بیان کیا ہے:
وَاللَّـهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِّن مَّاءٍ ۖ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ بَطْنِهِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ أَرْبَعٍ ۚ يَخْلُقُ اللَّـهُ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٤٥﴾
اور الله نے ہر جاندار کو پانی سے بنایا ہے سو بعض ان میں سے اپنےپیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ان میں سے دو پاؤں پر چلتے ہیں اور اور بعض ان میں سے چار پاؤں پر چلتے ہیں الله جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے (45)
ترجمہ احمد علی
یہ بشر جو زمین میں پرورش پا کر باہر آئے ابھی اس قابل نہیں تھے کہ ان میں روح پھونکی جاتی ۔ ان ہی پیکروں کے نک سک کو اللہ نے ٹھیک کیا۔ یہ بشر پھر سے ارتقائ عمل سے گزرتے ہوئے بلاخر اس مقام تک پہنچے کہ اس قابل ہو سکیں کہ روح ربانی ان میں پھونکی جائے۔
یہاں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ روح ربانی پھونکنے سے پہلے یہ بشر جیتے جاگتے زندہ مخلوق تھے۔ جنہیں اللہ ارتقائ مراحل سے گزار کر اس مرحلے تک لا رہا تھا جہاں یہ اس قابل ہوجایں کہ ان میں روح پھونکی جا سکے۔ اس لئے یہ خیال کہ روح زندگی کی علامت ہوتا ہے درست نہیں ۔ قران بھی روح کو ان معنوں میں استعمال نہیں کرتا۔
یہ روح ہی تھی جس نے اس بشر کو دوسرے حیوانوں سے ممتاز کیا۔ اگر آپ غور کریں تو کچھ باتیں ایسی ہیں جو انسان کو ان حیوانوں سے الگ کرتی ہیں ۔ جیسے انسان بول سکتا ہے۔ اپنی بات بیان کر سکتا ہے ۔ اس ہی کو سور الرحمن کی آیات میں یوں بیان کیا ہے:
الرَّحْمَـٰنُ ﴿١﴾ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ﴿٢﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ ﴿٣﴾ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ
رحمٰن نے (1) اِس قرآن کی تعلیم دی ہے (2) اُسی نے انسان کو پیدا کیا (3) اور اسے بولنا سکھایا (4)
ترجمہ مودودی صاحب
یہی وجہ ہے کہ انسان کی تخلیق کراہ ارض کے مختلف حصوں میں بیک وقت شروع ہوئ اور ایک بشر نہیں بلکہ مختلف بشر وجود میں آئے۔ جو بعد میں ارتقائ منازل طے کر کے ایک مکمل انسان میں تبدیل ہوئے جن میں اللہ نے اپنی روح پھونکی جو اپنے اپنے آب و ہوا کے مطابق مختلف رنگوں اور مختلف زبان بولتے تھے۔ اس ہی بولنے اور اپنی بات بیان کرنے کی صلاحیت نے مختلف زبانوں کو وجود بخشا۔ اس ہی کو سورہ روم میں اللہ نے اپنی آیت قرار دیا ہے۔
وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ ﴿٢٢﴾
اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے (22)
ترجمہ مودودی صاحب
پھر یہی نہیں بلکہ اس روح کے پھونکنے سے اس میں یہ صلاحیت بھی پوشیدہ طور پر رکھ دی گئ کہ وہ اپنے مشاہدہ اور اپنے تجربات سے نئے علوم حاصل کرسکے۔ تسخیر کاتنات کا علم حاصل کر سکے۔ اس ہی کو سورہ البقرہ کی آیت 31 میں یوں بیان کیا ہے:
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٣١﴾
اللہ نے انسان میں اس قسم کی صلاحیت رکھ دی جس کی بنا پر یہ ممکن ہوگیا کہ وہ ان کا علم حاصل کرسکے
مفہوم القران
پھر یہی نہیں بلکہ اس میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ اپنے مشاہدے کو ، اپنے تجربات کو قلم بند کر لیتا ہے۔ جو دوسرے جانداروں میں نہیں ۔ یہ علم بھی اس کو اللہ کی طرف سے ملا ہے۔ یہ ایسی صلاحیت ہے جس سے اس کے بعد کے انسان استفادہ کرتے ہیں اور اس طرح علم آگے بڑھتا ہے۔ یہ بات کہ انسان پڑھ اور لکھ لیتا ہے اس کو دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس کو سورہ العلق میں یوں بیان کیا گیا ہے:
قْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾
پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا (1)جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی (2)پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے (3) جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا (4)
ترجمہ مودودی صاحب
یہ قلم سے سیکھانا یقینن یہی ہے کہ انسان اپنے مشایدات، اپنے تجربات، اپنا علم قلم بند کر لیتا ہے۔ اس میں یہ صلاحیت پوشیدہ طور پر اللہ نے رکھی ہے۔ اگر غور کریں تو جدید علوم کی ترقی کا راز بھی یہی ہے۔
قرآن میں یہ سب کچھ بتانے کے بعد اللہ انسانوں کو اس پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ جب یہ سب کچھ اس بنانے والے نے پہلی مرتبہ تحلیق کیا تو پھر اس کے لئے دوسری مرتبہ تحلیق کرنا کیا مشکل کام ہے۔
جو قرآن سے سمجھا وہ پیش کردیا اس خیال کے ساتھ کے اس میں غلطی کی گنجائش ہے۔