سورہ النمل میں ایک بولتی چیونٹی کا قصہ تحریر:محمد نعیم خان
اس بات سے تو کوئ بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اللہ کی قدرت میں یہ بات بلکل آسان ہے کہ وہ چیونٹی سے کلام کروائے ۔ ایک اللہ پر ایمان لانے والے کے لئے یہ بات قبول کرنا بلکل دشوار نہیں ۔ لیکن اگر آپ ذرا سا اس پر تدبر کریں اور یہ دیکھیں کہ قرآن کیا کہتا ہے تو آپ کو بات بلکل ہی الگ نظر آئے گی۔
کیا کسی چیونٹی کا اپنے بل میں جانا ایسا عمل تھا کہ حضرت سلیمان نے اللہ سے یہ دعا مانگی کہ انہیں قابو میں رکھے کہ وہ اس کی نعمت کا شکر ادا کریں ۔ کیا آج اگر کوی حشرات الارض مجھے آپ کو دیکھ کر اپنے بل میں بھاگ جائے تو میں مسرت سے جھوم اٹھوں گا اور اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ مجھے روکے کہ میں کوئ غرور نہ کروں ؟؟؟؟ یا یہ غرور اس وقت انسان کو آتا ہے جب وہ اپنا لشکر لے کر نکلے اور لوگ اس کی فرمابرداری اختیار کریں ۔
آپ سوچیں اس سفر میں ان کے لشکر کے نیچے نہ جانے کتنی ہی چیونٹیاں اکر ماری جا چکی ہونگی۔ ہم روز نہ جانے کننی چیونٹیوں کو اپنے پاوں تلے روندتے ہونگے۔ اس لئے میرے نزدیک یہ ایسا کوئ عمل نہیں تھا جس پر اتنی مسرت کا اظہار کیا جاتا۔
پھر سوچیں کہ وہ دعا کیا مانگتے ہیں:
قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴿١٩﴾ بولا "اے میرے رب، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر” (19)
ان کے والد اور ان میں ایک ہی بات مشترک تھی کہ ان دونوں کے زمانے میں ان کو فتوحات نصیب ہوییں ۔ ان کا جاہ و جلال دیکھنے کے قابل تھا۔ اس جاہ و جلال کے باجود ان کی یہ دعا ہمیں یہ بات سکھاتی ہے کہ اللہ کے نیک بندے چاہے کتنا ہی اونجا چلے جائیں لیکن ان کے سر اللہ کے آگے جھکے ہی رہتے ہیں ۔ ان کی دعا کے بلکل یہی الفاظ 46.15 میں بھی آئے ہیں ۔ تمام کائنات تو پہلے ہی مسخر ہے انسان کے لئے ، یہ تمام جاندار تو پہلے ہی انسان کو دیکھ کر بلوں میں گھس جاتے ہیں ۔ یہ تو روز کا ہی مشاہدہ ہے۔
یہ امتیاز خالی انہی کو نصیب نہیں تھا بلکہ اللہ نے تو ہر انسان کو بہت سی اپنی مخلوقات پر فضیلیت دی ہے دیکھیں اس آیت میں اللہ کا ارشاد:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ﴿٧٠﴾ یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی (70)
یہ فضیلت تو مجھے آپ ہم سب کو ہے ہی ۔ میرے نزدیک یہ کسی انسان ہی کی وادی تھی اس پر ہمیں تحقیق کرنی چاہیے ۔
پھر اگر کوئ یہ خیال کرتا ہے کہ ان کو پرندوں کی بولی آتی تھی تو میرے علم تک چیونٹی حشرات الارض میں آتی ہے پرندوں میں نہیں ۔
ایک بنیادی بات ہے جو سمجھنے کی ہے میں کوشش کروں گا کہ آسان الفاظوں میں اس کو بیان کر سکوں۔
سورہ النحل کی آیت 18 اور 19 میں سننے کا کوئ لفظ شامل نہیں ہے۔ سب سے پہلے آیت 18 پر غور کریں تو آیت کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ جب حضرت سلیمان نے اپنا سفر شروع کیا تو وہ ایک وادی نمل میں داخل ہوئے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ تحقیق ضروری ہے کہ کیا کوئ نمل کی وادی ہوسکتی ہے؟۔ ہونے کو ہوسکتا ہے کہ ہو۔ اس میں بھی کوئ ایسی عجیب بات نہیں ہے۔ لیکن کیا کسی وادی کے ایسے نام بھی ہوسکتے ہیں ۔ تو یہ بھی کوئ ایسا بعید از قیاس بات نہیں ۔ دیکھیں ہمارے ہی ملک میں میانوالی میں وادی نمل ہے۔ اب ظاہر ہے وہاں انسان ہی بستے ہیں ۔ پھر ایک جھیل کا نام بھی نمل جھیل ہے۔ اس لئے یہ بھی ایسی کوئ بات نہیں کہ کسی قبیلے یا کسی وادی کا نام نمل نہ ہو۔ عرب کے بہت سے قبائل کے نام ایسے ہی رکھے جاتے ہیں ۔ ایسا کوئ قبیلہ بھی حضرت سلیمان کے راستے میں پڑتا ہو اور قرآن کے الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔
اب دوسرے الفاظ پر غور کرتے ہیں اس ہی آیت میں قَالَتْ نَمْلَةٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور پھر ایک پوری عبارت ہے۔ جو لوگ عربی سے واقف ہیں وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ“ قال“ کا لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر نفس میں کسی سوچی ہوئ بات پر جو ابھی بول کر ظاہر نہ کی گئ ہو اس پر بھی بولا جاتا ہے۔ پھر یہی لفظ کسی کے عقیدہ رکھنے کے مفہوم کو ظاہر کرنے پر بھی بولا جاتا ہے۔ پھر سب سے اہم بات جو اس آیت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے وہ یہ کہ یہ لفظ کسی چیز کی حالت کسی بات پر دلالت کرے تو اس وقت بھی قول کا لفظ استعمال کرتے ہیں جیسے امتلا الحوض وقال قطنی یعنی جب حوض پانی سے بھر گیا تو بولا بس ، بس، اب مزید پانی مت ڈالو ۔ اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ حوض کی زبان تھی اور وہ بولا بلکہ حوض اپنے زبان حال سے یہ بات کہہ رہا تھا کہ وہ بھر گیا ہے۔ اس ہی بات کو ایک اور مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں جو ہم اکثر روزمرہ کی زبان میں بولتے ہیں ۔
جیسے ہم کہتے ہیں کہ یہ کائنات جیخ چیخ کر پکار رہی ہے یا کہہ رہی ہے کہ اس کا بنانے والا کوئ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ کائنات بزبان حال اس بات کا اقرار کر رہی ہے نہ کہ بول کر یا کہہ کر۔ پھر ایسی ڈھیروں مثالیں ہماری روزمرہ زندگی میں آپ کو مل جائیں گی۔ عربوں کی شاعری میں بھی آپ کو اس کی مثالیں ملیں گی جیسے کہ :
قالت لةُ الطیر تقدم راشد
انک لا ترجع الا حامد
یعنی پرندے نے اس سے کہا کہ سیدھا راستہ اختیار کرکے آگے بڑھ تو واپس نہیں لوٹے گا مگر تعریف کرتا ہوا۔ اس شعر میں قال کے لفظ کو ایک واقعہ کی دلالت کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں کوئ کلام نہیں ہوریا ۔
میرا مقصد اس ساری تمہید کا بور کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ اس آیت میں بھی یہی بات ہے۔ یہاں بھی کوئ کلام نہیں ہورہا ہے بلکہ ایک واقعہ کے بیان کا یہ اسلوب ہے۔ جو ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ کسی بھی نثر کی کتاب پڑھیں آپ کو ایسا ہی اسلوب ملے گا۔ اس بات کو دیکھ کر حضرت سلیمان مسکرائے اور اللہ سے دعا کی کہ ان کو قابو میں رکھ کہ تیرا شکر ادا کروں
آیت 19 میں لفظ يَحْطِمَنَّكُمْ کا غلط مطلب لینے سے یہ مشکلات ہوئیں . حْطِمَ کے معنی توڑ دینا ہیں . قحط کو بھی الْحُطَمَةُ کہتے ہیں کیوں کہ وہ ملک کی طاقت کو توڑ دیتی ہے . اس لیے اس کے معنی روندھ ڈالنے مجازی معنوں میں جنگ میں شکست دینے کے ہوتے ہیں . یہ جملے ہم عام معنوں میں بولتے ہیں کہ ہماری افواج دشمنوں کو روندھتی ہوئی ان کے علاقے میں داخل ہو گئی . اب اگر اس سے مراد یہ نہیں لی جاسکتی کہ دشمن کوئی کیڑے مکوڑے تھے.
حضرت سلیمان جس وادی میں داخل ہوے ہیں وہ ان کی سلطنت کا حصہ نہیں تھا لیکن پہاڑوں میں گھری ایک وادی میں ایک قوم آباد تھی جو ان کی سلطنت کے قریب ہی تھی اس لیے اتنے بڑے لشکر کو دیکھتے ہی قوم جان گئی کہ یہ شان و شوکت صرف حضرت سلیمان کو ہی نصیب ہے . ان کی شہرت آس پاس کے علاقوں میں تھی . اگر یہ علاقہ سلطنت میں شامل ہوتا تو ان کو حضرت سلیمان سے کیا خطرہ ہوتا ؟ اور وہ انہیں بے خبری میں کیوں کر روندھتے ؟. اس لیے یہ اس ہی صورت میں ممکن ہے کہ جب وہ یہ سمجھیں کہ کہیں حضرت سلیمان ان کو اپنا دشمن خیال نہ کریں . اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ گھروں میں داخل ہو جاؤ .
جب کوئی لشکر کہیں سے گزرتا ہے اور وہاں کے لوگ دروازہ بند کر لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہونے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے بلکل ایسا ہی قول رسول الله نے فتح مکہ کے موقعے پر کہا تھا کہ جو لوگ اپنے گھروں میں رہیں گے ان کو پناہ حاصل ہوگی ورنہ جو باہر ہونگے وہ دشمن شمار ہونگے.
یہ میرا خیال ہے ۔ ضروری نہیں کہ درست بھی ہو اس میں غلطی کی گنجایش بحرحال موجود ہے