"گھر کیلئے بھی ویسا ہی ایک دستور اور قانون ہو جیسے کسی ریاست یا ملک کیلئے ہوتا ہے۔”

"گھر کیلئے بھی ویسا ہی ایک دستور اور قانون ہو جیسے کسی ریاست یا ملک کیلئے ہوتا ہے۔”

ڈاکٹر عبدالکریم بکار صاحب شامی شہری ہیں اور معاشرے میں ذات و اجتماعی تعلق/تربیت اور اسلامی احیاء پر ریسرچر ہیں۔ دنیا بھر میں اپنے منفرد مقالات کی بناء پر جانے پہچانے جاتے ہیں، اسی موضوع پر چالیس سے زیادہ کتابوں کے مؤلف ہیں، سعودی عرب کی ہر یونیورسٹی میں پڑھا چکے ہیں۔ کئی ٹی وی چینلز پر اپنے اختیار کردہ شعبے کے بانی اور سینکڑوں رسالوں اور اخبارات کی جان ہیں۔ آپ کہتے ہیں:

والدین ہرگز ہرگز اس بات کے انتظار میں نا رہیں کہ تربیت گاہیں اپنے فرائض پورے کر کے ان کی اولاد کو اچھا شہری بنائیں، انہیں خود اس ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا کہ انفرادی طور پر اپنے بچوں کو معاشرے کا ذمہ دار فرد بنائیں۔

کیا ہی اچھا ہو کہ والدین گھروں میں ہی کچھ ایسے ہلکے پھلکے قانون بنا دیں جن پر عمل کر کے بچوں کے کردار میں پختگی آئے اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو۔

ساتھ ہی انہوں نے اس ضمن میں چند لوائح العمل تیار کیئے ہیں، والدین کو ان میں جو مناسب لگیں وہ اختیار کرلیں یا ان میں ترمیم و اضافہ کر لیں۔

01: گھر کا ہر فرد نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے گا۔

02: "برائے مہربانی” اور "جزك الله” کے کلمات بنیادی ضوابط ہونگے جن سے کوئی بھی بری نہیں ہوگا۔

03: کوئی "مار پٹائی”، کوئی "گالم گلوچ” یا کوئی بھی "لعن طعن” والی ایسی بات نہیں ہوگی جس سے بدذوقی کا احساس ہو۔

04: اپنے محسوسات اور خیالات کو ادب و احترام اور وضاحت کے ساتھ بتا دیجیئے۔

05: جو کوئی بھی جس جس چیز کو (دروازہ، کھڑکی، ڈبہ، پلیٹ) کھولے گا اُسے بند بھی کرے گا، کچھ گر جائے تو اُسے اٹھائے گا اور جگہ کو اُس سے زیادہ صاف کر کے رکھے گا جیسے پہلے تھی۔

06: آپ کا کمرہ خالص آپ کی ذمہ داری ہے۔

07: جو کوئی بات کرے گا، اُسے ٹوکے بغیر سنی جائے گی اور بات کو درمیان میں سے کوئی نہیں کاٹے گا۔

08: دو اشخاص دوسروں کے سامنے اتنے دھیمے لہجہ میں ہرگز گفتگو نہیں کریں گے کہ کوئ سن نہ سکے-

09: گھر کے بزرگ/ سربراہان/ والدین کوئ بات/مشورہ یا حکم دیں اسے من و عن ماننا ہو گا خواہ آپ کو غلط لگے یا حقیقتا” غلط ہو-

10: گھر میں داخل اور خارج ہوتے ہوئے سلام کرنا ہوگا۔

11: گھر کا ہر فرد روزانہ قرآن مجید سے ایک سپاره کی تلاوت کرے گا۔

12: جو ہم سے ملنے آئے وہ ہمارے قوانین کا احترام کرے۔

13: گھر کا کوئی بھی فرد اپنے کمروں میں جا کر کچھ نہیں کھائے گا

14: رات 900) کے بعد کوئی بھی نہیں جاگے گا۔

15: صبح فجر سے پہلے ہر شخص بشمول بچے اور بوڑھے جاگ جانا ہو گا-

16: سمارٹ فون اور ڈیوائسز صرف (09:00 بجے) سے لیکر (09:00 بجے) کے درمیان میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اور ہرگز ہرگز 15 منٹ کے مسلسل استعمال کے بعد 1 گھنٹے کا وقفہ ضروری ہو گا-

17: والدین کے لئے احتراما کھڑا ہونا، اُن کے سر پر بوسہ دینا یا اُن کے ہاتھ چومنا ضروری شمار ہوگا۔

18: مل کر بیٹھنے کا وقت طے کیا جائے اور اس میں کسی قسم کی مواصلاتی ڈیوائس (فون/پیڈ) کا استعمال منع ہوگا۔

19: کھانے پینے کے وقت میں سب کی حاضری اور شمولیت ضروری ہوگی۔

20: رات کو ( 10:00بجے) کے بعد کسی قسم کی تعلیمی سرگرمی کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

21: گھر کے سارے افراد گھر اور گھر میں موجود ہر شئے کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔

22: اپنا کام ہر کوئی خود کرے گا، کوئی کسی دوسرے پر حکم نہیں جھاڑے گا، ہاں مگر گھر کے سربراہان اپنا کام کسی کو کہہ سکتے ہیں اور اسکی تعمیل ہو گی-

23: خاندان اور اُس کی ضروریات کسی بھی دوسری ضرورت پر مقدم اور پہلے کی جانے والی شمار ہونگی۔

24: کوئی بھی کسی کے کمرے یا علیحدگی والی جگہ پر دروازہ کھٹکھٹائے یا اس کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوگا۔

25: مہمان کے آنے پر خوش ہوا جائے، خوشی کا اظہار کیا جائے، انہیں ان کے مرتبہ سے بڑھ کر خوش آمدید کہا جائے-اسلام

26: مہمان کی خاطر مدارات اپنی حیثیت سے بڑھ کر کی جائے، حتی کہ اصراف کیا جائے، کیونکہ مہمان کے سامنے پیش کی جانے والی چیزوں کا اللہ کے ہاں حساب نہ ہو گا-

27: مہمان اپنے ساتھ اللہ کی رحمت لاتا اور میزبان کی تمام بلایات، تکالیف، امراض، پریشانیاں، مصیبتیں اور نحوستیں آپنے ساتھ لے جاتا ہے-

ڈاکٹر محمد راتب نابلسی کہتے ہیں کہ میں نے اس مضمون کو بہت ہی مفید پایا ہے۔ والدین کو چاہیئے کہ اسے اہمیت دیں کیونکہ اولاد کی تربیت ایک ایسا مشکل کام ہے جسے ہفتے کے سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے کرنا ہوتا ہے۔

اسکے علاوہ اگر اپنے اولاد کو قرآن کی سورتہ نبا، واقعہ، یس اور کہف حفظ کرادیں تو آپ انکی طرف سے بے فکر ہو سکتے ہیں۔

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.