خلاصہ قرآن پارہ نمبر 29
انتیسویں پارے کا آغاز سورۃ ملک سے ہوتا ہے جس میں اللہ پاک نے اپنی ذات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ارشاد ہے کہ زندگی اور موت کو اس لیے بنایا گیا تاکہ زبردست بخشنے والا خدا یہ جان لے کہ کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اپنی قوت تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے تلے اوپر سات آسمان بنائے اور اس کاریگری سے بنائے کہ ان کی تخلیق میں کوئی نقص نظر نہیں آتا، اور اے دیکھنے والے تو بار بار اپنی نگاہ کو دوڑا کر دیکھ تب بھی ہر بار تیری نگاہ نقص ڈھونڈنے میں ناکام ہوکر تھک جائے گی۔ ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے مزین کیا اور ان کو شیطانوں کو رجم کرنے کا آلہ بنایا۔ جب جہنمی جہنم میں ڈالے جائیں گے تو ان کا چیخنا چلانا سن کر دروغے پوچھیں گے کہ کیا تمھارے پاس کوئی ہدایت کرنے والا نہیں آیا تھا؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں، مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا تھا۔ اگر ہم سنتے اور سمجھتے تو دوزخیوں میں سے نہ ہوتے۔ جو لوگ بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔ تم بات کو پوشیدہ کہو یا ظاہر، اللہ دل کے بھیدوں سے واقف ہے۔ بھلا جس نے پیدا کیا وہ بے خبر ہے؟
ارشاد ہوتا ہے کہ وہی خدا ہے جس نے زمین کو نرم کیا تاکہ تم اس میں چلو پھرو اور اس کا دیا رزق کھاؤ اور قیامت کے دن تمھیں اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ جو پرندے تمھارے سروں پر اڑتے پھرتے ہیں انھیں اللہ کے سوا کسی نے تھام نہیں رکھا ہوتا۔ بھلا ایسا کون ہے جو تمھاری فوج ہوکر اللہ کے سوا تمھاری مدد کر سکے، یعنی فوج جمع کر لینے کے بعد بھی فتح یا شکست خدا کے ہاتھ ہوتی ہے۔ بھلا اگر وہ اپنا رزق بند کرلے تو کون ہے کہ تمھیں رزق دے؟ بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گر پڑتا ہے وہ سیدھے راستے پر ہے یا وہ جو سیدھے راستے پر برابر چل رہا ہے؟
آخرِ سورت میں قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں اور عذاب کی وعید کے پورا ہونے کے لیے طعنے دینے والے کافروں کے بارے میں ارشاد ہے کہ ان کی خواہش جلد پوری ہو جائے گی اور اس دن ان کے چہرے لٹک کر برے ہو جائیں گے۔ کہہ دیجیے کہ ہم اسی اللہ پر ایمان لائے اور اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں اور تمھیں جلد معلوم ہو جائے گا کہ کھلی گمراہی میں کون پڑا ہوا تھا۔ اگر پانی خشک ہو جائے تو اللہ کے سوا کون ہے جو تمھارے لیے پانی کا چشمہ بہا لائے؟
سورۃ ملک کے بعد سورۃ القلم ہے۔ اس میں ارشاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ مجنون نہیں ہیں اور انھیں اخلاقِ عظیم عطا فرمایا گیا ہے، اور عنقریب تم دیکھ لو گے کہ تم میں سے دیوانہ کون ہے۔ تم جھٹلانے والوں کا کہا مت ماننا، اور ایسے شخص کے کہے میں مت آنا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہو۔
اس سورت میں ایک سخی اور نیک زمیندار کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے باغات کی آمدنی میں سے خدا کے حق کو احسن طریقے سے ادا کیا کرتا تھا۔ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹوں نے فیصلہ کیا کہ وہ فصلوں کی کٹائی میں سے کسی غریب کو کچھ بھی ادا نہ کریں گے۔ جب فصل کی کٹائی کا وقت آیا تو وہ صبح سویرے نکلے تاکہ راستے میں ان کو کوئی مسکین نہ مل جائے۔ جب وہ باغ میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پر کھیت یا باغ نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ ان کو شک ہوا کہ وہ راستہ بھول گئے ہیں لیکن اچھی طرح غور کرنے کے بعد وہ سمجھ گئے کہ وہ راستہ نہیں بھولے بلکہ ان کا باغ اجڑ چکا ہے۔ اس واقعہ سے یہ سمجھایا گیا کہ جب مال کو راہِ خدا میں خرچ نہ کیا جائے تو اس مال کے ضائع ہونے کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔
آخرِ سورت میں ارشاد ہے کہ کافر رسول اللہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے جب وہ قرآن کو سنتے تو آپ کو مجنون کہتے۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ آپ کو اپنی نگاہوں سے گرانا چاہتے ہیں اس لیے آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآنِ مجید جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔
سورۃ القلم کے بعد سورۃ الحاقہ ہے۔ اللہ نے اس سورت میں قیامت کو حقیقت کے نام سے پکارا اور اس حقیقی کھڑکھڑاہٹ کو جھٹلانے والوں کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ اس سورت میں قومِ ثمود اور عاد کے انجام سے آگاہ کیا گیا ہے جنھوں نے قیامت کو جھٹلایا تھا۔ قومِ ثمود کو ایک چیخ کے ذریعے اور قومِ عاد کو تیز ہوا کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ قیامت کے دن جن لوگوں کو اعمال نامے دائیں ہاتھ میں ملیں گے وہ کامیاب سب کو دکھاتے پھریں گے اور میووں والے باغوں اور محلات میں ہوں گے۔ اور جن لوگوں کو اعمال نامے بائیں ہاتھ میں ملیں گے وہ موت مانگتے ہوں گے (جو نہیں ملے گی) اور ان کو آگ میں ستر گز کی زنجیر میں ڈالا جائے گا۔ وہاں ان کا کوئی ہمدرد نہیں ہوگا اور پیپ کے سوا کوئی خوراک نہ ملے گی۔
اس کے بعد نبی کریم کے بارے میں کافروں کے اقوال کو نقل کرکے ان کی تردید کی گئی ہے۔ کافر آپ کو شاعر اور کاہن کہتے تھے جب کہ اللہ فرماتے ہیں جو کچھ بھی آپ پر اترا ہے پروردگارِ عالم نے اتارا ہے اور اس میں جھوٹ والی کوئی بات نہیں۔ یہ پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے اور کافروں کے لیے موجبِ حسرت ہے اور یہ قابلِ یقین حق ہے۔ اللہ اپنی ذات پر جھوٹ باندھنے والے کو کبھی فلاح نہیں دیتا، جب کہ اللہ نے نبیِ کریم کے تذکروں کو رہتی دنیا تک جاری و ساری فرما دیا ہے۔
سورۃ الحاقہ کے بعد سورۃ المعارج ہے۔ اس میں اللہ پاک نے قیامت کے دن کا ذکر کیا ہے کہ اس کی طوالت پچاس ہزار برس کے برابر ہوگی وہ دن ایسا ہوگا کہ مجرم کی خواہش ہوگی کہ اپنا آپ چھڑوانے کے لیے اپنے بیٹے یا اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو پیش کر دے یا زمین میں جو کچھ ہے اس کو بطور فدیہ دے دے۔ اس دن جو لوگ عذاب سے بچیں گے ان کے اوصاف بھی بیان فرما دیے گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنی پاک دامنی کا تحفظ کرنے والے ہوں گے۔ یہ لوگ امانتوں اور وعدوں کی پاس داری کرنے والے ہوں گے۔ یہ لوگ حق کی گواہی پر قائم رہنے ہوں گے اور نماز کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور یہ لوگ جنتوں کے حق دار ٹھہریں گے۔
اس سورت میں مشرقوں اور مغربوں کا خدا قسم کھا کر کہتا ہے کہ بے شک ہم قدرت رکھتے ہیں کہ برے لوگوں کو تبدیل کرکے ان کی جگہ اچھے لوگ لے آئیں اور ہم عاجز نہیں ہیں اور ان کے سامنے وہ دن لے آئیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ اس دن یہ لوگ قبروں سے نکل کر اس طرح دوڑیں گے جیسے شکاری شکار کے جال کی طرف دوڑتے ہیں۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔
سورۃ معارج کے بعد سورۃ نوح ہے۔ اس میں ارشاد ہے کہ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب واقع ہو ان کو ہدایت کر دیجیے۔ انھوں نے قوم سے کہا کہ میں تم کو صاف صاف نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو اور میرا کہا مانو، وہ تم کو بخش دے گا۔ جب اللہ کا مقرر کردہ وقت آ جاتا ہے تو تاخیر نہیں ہوتی۔
اس سورت میں جنابِ نوح علیہ السلام کی دین کے لیے محنت کی کارگزاری کو ان کی زبانی ارشاد فرمایا گیا ہے۔ جنابِ نوح ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ انھوں نے رات دن اور سرِ عام اور ڈھک چھپ کر یعنی ہر حال میں اور ہر طریقے سے پوری تندہی سے اللہ کے دین کی خدمت کی اور اپنی قوم کے لوگوں کو یہ بات سمجھائی کہ وہ پروردگار سے استغفار کیا کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ بارشوں کو ان کی مرضی کے مطابق نازل فرمائے گا اور مال اور نرینہ اولاد دے گا اور ان کے لیے نہروں کو چلا دے گا اور باغات کو آباد کر دے گا۔ نیز ارشاد ہے کہ اللہ نے تمھیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی میں تمھیں لوٹا دے گا اور اسی سے تمھیں نکال کر کھڑا کر دے گا، اور اللہ ہی نے زمین کو فرش بنایا ہے تاکہ تم اس کے کشادہ راستوں پر چلو پھرو۔
پھر جنابِ نوح نے اللہ سے عرض کیا کہ یہ لوگ میرے کہے پر نہیں چلتے اور ایسوں کے تابع ہوئے ہیں جن کو ان کے مال اور اولاد نے سوائے نقصان کے کچھ نہیں دیا۔ انھوں نے بڑی چالیں چلیں اور لوگوں سے کہا کہ سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کی عبادت ترک نہ کریں۔ اِنھوں نے لوگوں کو بہت گمراہ کیا ہے، تو اِنھیں اور گمراہ کر دے۔ پھر اُنھیں ڈبو دیا گیا اور پھر آگ میں ڈال دیا گیا۔ جنابِ نوح نے مزید دعا کی کہ اے میرے رب کافروں میں سے کسی کو زمین پر گھر میں بستا نہ رکھ، اگر تو انھیں رہنے دے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی اولادیں بھی ناشکری اور فاجر ہوں گی۔
جناب نوح نے دعا کی کہ اے رب مجھے اور میرے ماں باپ کو اور جو ایمان لاکر میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان والے مردوں اور عورتوں کو معاف فرما، اور ظالموں کے لیے تباہی کو اور بڑھا۔
سورۃ نوح کے بعد سورۃ جن ہے۔ اس میں اللہ پاک نے جنات کی ایک جماعت کے قبولِ اسلام کا ذکر کیا کہ انھوں نے قرآن کی تلاوت سنی تو کہنے لگے کہ قرآن کیا خوبصورت کلام ہے جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے، پس ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہم اپنے پروردگار کے ساتھ شرک نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ پروردگار کا مقام بہت بلند ہے، نہ اس کی کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی بیٹا۔ انھوں نے قرآنِ مجید کے نزول کے بعد اپنی قوم کے لوگوں کو بھی توحید کی دعوت دی ۔ چنانچہ انسانوں کی طرح جنات کی بھی ایک جماعت اہلِ توحید میں شامل ہوگئی۔
ارشاد ہوا کہ مساجد صرف اللہ کے لیے ہیں۔ اللہ کے ساتھ کسی کو مت بلاؤ یعنی شرک نہ کرو اور حاجت روا صرف اللہ ہے۔ (اے نبی) آپ کہہ دیجیے کہ میں تو اپنے پروردگار ہی کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا، اور یہ بھی کہہ دیجیے کہ میں تمھارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا، اور یہ بھی کہہ دیجیے کہ اللہ کے عذاب سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ نہیں دیکھتا۔ البتہ اللہ کے پیغام کا پہنچا دینا میرے ذمے ہے۔ جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کی نافرمانی کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے۔
ارشاد ہوا کہ غیب کو جاننے والا صرف اللہ ہے اور وہ کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا۔ ہاں جس پیغمبر کو وہ پسند کرے اس کے آگے اور پیچھے وہ نگہبان مقرر کر دیتا ہے تاکہ معلوم فرمائے کہ پیغمبر نے رب کا پیغام پہنچا دیا ہے۔
سورۃ جن کے بعد سورۃ مزمل ہے۔ اس میں اللہ نے حضرت محمد علیہ السلام سے کہا ہے کہ پوری رات عبادت نہ کیا کریں بلکہ نصف رات یا اس سے کچھ زیادہ یا کم عبادت کیا کریں اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں۔ آپ نے دن کو بھی تبلیغِ دین کے بہت سے کام انجام دینا ہوتے ہیں، اور اللہ کا نام وقفے وقفے سے لیتے رہا کریں۔ مشرق و مغرب کا مالک ایک اکیلا اللہ ہے اور آپ صرف اسی کو اپنا کارساز جانیے، اور یہ لوگ جو دلآزار باتیں کرتے ہیں ان کو سہتے رہیے اور اچھے طریقے سے ان سے کنارہ کش رہیے۔
پھر کفار سے خطاب ہے کہ ہم نے جنابِ موسیٰ کو فرعون کی طرف بھیجا لیکن اس نے پیغمبر کا کہا نہ مانا تو ہم نے اسے بڑے وبال میں پکڑ لیا۔ اگر تم بھی پیغمبر کی نہ مانو گے تو اس دن کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور آسمان پھٹ جائے گا؟
آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی کبھی دو تہائی رات اور کبھی آدھی رات اور کبھی تہائی رات قیام کیا کرتے ہیں۔ آپ اتنا نباہ نہیں سکیں گے۔ چنانچہ جتنا آسانی سے ہو سکے اتنا قرآن پڑھ لیا کیجیے کیونکہ بعضے بیمار بھی ہوتے ہیں اور بعضے تلاشِ معاش میں سفر میں رہتے ہیں اور بعضے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف ہوتے ہیں۔ پس نماز پڑھتے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیے اور استغفار کیا کیجیے، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
سورۃ مزمل کے بعد سورۃ مدثر ہے۔ اس میں اللہ پاک نے حضرت محمد علیہ السلام کو حکم دیا ہے کہ اپنے اوپر لپیٹا ہوا کپڑا اتار پھینکیے اور اٹھ کر لوگوں کو ڈرائیے اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے۔ اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے اور ناپاکی سے دور رہیے۔ اس نیت سے احسان نہ کیجیے کہ اس سے زیادہ کے طلب گار ہوں اور اپنے رب کے لیے صبر کیجیے۔
اس سورت میں صور پھونکنے اور قیامت کے بعضے مناظر کے ذکر کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں کو دی گئی ڈھیل اور دنیاوی آسائشوں کے بعد ان کے انجامِ بد کا ذکر کیا گیا ہے اور ارشاد ہے کہ جو لوگ قرآنِ مجید کو غرور کی وجہ سے جھٹلاتے ہیں انھیں جہنم میں ڈالا جائے گا جس کے پہرے دار انیس فرشتے ہیں۔ جہنم میں لے جانے والے بڑے بڑے گناہوں میں نماز میں کوتاہی اور مساکین کو کھانا نہ کھلانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ چاند، رات اور روشن صبح کی قسم کھا کر ارشاد ہوا ہے کہ جہنم کی آگ بہت بڑی آفت ہے۔
آگے ارشاد ہوا کہ ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے۔ البتہ دائیں ہاتھ والے لوگ جنتوں میں ہوں گے اور وہ جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ہو، تو وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور اہلِ باطل کے ساتھ مل کر حق سے انکار کرتے تھے اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔ سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی۔ یہ نصیحت سے منہ پھیر لیتے ہیں گویا گدھے ہیں کہ بدک جاتے ہیں یعنی شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں۔ ان میں کا ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھلی ہوئی کتاب آئے، ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ درحقیقت ان کو آخرت کا خوف ہی نہیں ہے۔
اس کے بعد سورۃ القیامہ ہے جس میں اللہ پاک نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کیا کہ یقینًا قیامت آئے گی اور کافر جو اللہ کے بارے میں یہ گمان کرتا ہے کہ وہ ہڈیوں کو دوبارہ کیسے بنائے گا تو اللہ کے لیے انگلیوں کے پوروں تک کو بھی دوبارہ ٹھیک ٹھیک پیدا کرنا مشکل نہیں ہے۔ جس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند گہنا جائے گا اور سورج اور چاند جمع کر دیے جائیں گے اس دن انسان کہے گا کہ اب میں کہاں بھاگ جاؤں؟ بے شک کہیں پناہ نہیں ہوگی۔
اس سورت میں وحی کے بارے میں تفصیلی بیان ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی، وحی کو پڑھنے کے لیے اپنی زبان نہ چلایا کیجیے تاکہ اسے جلد یاد کر لیں، اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے۔ جب ہم وحی پڑھا کریں تو آپ (اسے سنا کیجیے اور) اسی پھر طرح پڑھا کیجیے۔ اس وحی کے معنی کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔
روح نکلنے کا وقت یعنی عالمِ نزع وہ سخت مرحلہ ہوتا ہے جب انسان اپنے مال و وسائل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہاتھ جھاڑ کر ایک طویل سفر پر روانہ ہوتا ہے اور اپنے ساتھ صرف نیک و بد اعمال کا پشتارہ لے چلتا ہے تو اس مرحلے کی کیفیات کو مرنے والا تو بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جب روح سارے بدن سے کھینچ کر ہنسلی کی ہڈی (Collarbone) میں آکر اٹک جائے گی اور لوگ کہیں گے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا، کوئی دوا دارو کرنے والا؟ حالانکہ مرنے والا تو سمجھ جاتا ہے کہ اب جدائی کا وقت آگیا ہے۔ روح نکلنے کی شدت کے باعث اس کی پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ رہی ہوتی ہے۔ یہی تو اپنے رب سے ملاقات کا وقت ہے۔
آخرِ سورت میں منکرینِ قیامت کے بارے میں ارشاد ہے کہ آخرت کو ترک کرنے والے یعنی عاقبت نااندیش نے نہ تو کلام اللہ کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی اور اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا چل دیا۔ تجھ پر افسوس ہے اور بارِ دگر انتہائی افسوس ہے۔ کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا نطفہ محض ایک قطرہ نہ تھا؟ پھر اللہ نے اس سے اعضا بناکر انھیں درست کیا اور اس کی دو قسمیں مرد و عورت بنائیں۔ کیا وہ اللہ اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ موت کے بعد پھر کھڑا کر دے؟
اس کے بعد سورۃ دہر ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ انسان پر ایک دور ایسا تھا جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا۔اللہ نے پانی کے قطرے سے اسے دیکھنے اور سننے والا بنا دیا۔ انسان کو دو راہیں بھی بتا دی گئیں، چاہے وہ شکر کرے چاہے انکار کرے۔ ارشاد ہوا کہ بے شک ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں، طوق اور لپکتی ہوئی آگ کو تیار کیا ہے جب کہ نیک لوگ جنت میں جائیں گے جہاں ان کو اَن گنت نعمتیں حاصل ہوں گی۔
ارشاد ہے کہ ہم نے آپ پر قرآن کو آہستہ آہستہ نازل کیا ہے۔ آپ صبر کیے رہیے اور صبح شام اپنے رب کا ذکر کرتے رہیے، اور رات کو بڑی دیر تک اس کے آگے سجدے کیجیے اور اس کی پاکی بیان کیا کیجیے۔ آپ کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہ جو اللہ کو منظور ہو، بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور ظالموں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے۔
اس کے بعد سورۃ مرسلات ہے جس میں اللہ پاک نے متعدد مرتبہ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے تباہی کا دن قرار دیا ہے اور کامیابی و کامرانی کو اہلِ تقویٰ کا مقدر قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ قیامت کا دن وہ ہے کہ لوگ ہونٹ نہ ہلا سکیں گے اور نہ ہی ان کو عذر کرنے کی اجازت ہوگی، اس دن کو جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔ وہ دن فیصلے کا دن ہے جس میں ہم نے تم کو اور پچھلے والوں سب کو جمع کیا ہے، اگر تم کوئی چکر چلا کر بچ سکتے ہو تو چکر چلا لو۔ اس دن کو جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔
البتہ اس دن پرہیز گار لوگ سایوں اور چشموں میں ہوں گے اور اپنے اچھے اعمال کے بدلے مزے سے کھا اور پی رہے ہوں گے۔ بے شک ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اس دن کو جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔ ان سے رکوع یعنی جھکنے کے لیے کہا جاتا ہے تو یہ نہیں جھکتے۔ اس دن کو جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔ اس کے بعد اب یہ کون سی بات پر ایمان لائیں گے؟
[…] خلاصہ قرآن پارہ نمبر 29 […]