سنجیدگی از ڈاکٹر محمد عقیل

’’ایک ماں نے کہا:کاش میرابیٹانوٹوں سے کھیلے،تووہ کیشئیر(Cashier)بن گیا۔ دوسری ماں نے کہا کہ کاش میرے بیٹے کے اشاروں پردنیاناچے تووہ ٹریفک کانسٹیبل بن گیا۔ کسی اورماں نے کہاکہ کاش میرابیٹاہروقت ہنستارہے ،وہ پاگل ہوگیا۔‘‘ اس لطیفے میں ایک پیغام پوشیدہ ہے وہ یہ کہ ہروقت ہنستے رہناغیرسنجیدگی کی علامت ہے۔ اوراگریہ غیرسنجیدگی دائمی ہوجائے توعقل معطل ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان پاگل قرارپاتاہے۔

اگرہم زندگی کی سرگرمیوں کاجائزہ لیں توانہیں دوحصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ایک وہ جن کے بارے میں ہم سنجیدہ (Sincere)ہیں جبکہ دوسری وہ جن کے لیے ہم غیرسنجیدہ (Casual)ہیں۔ یہ سنجیدگی وغیرسنجیدگی کی تفریق بڑی اہم ہے۔ مثال کے طورپرمادی معاملات میں ہم بہت سنجیدہ ہیں۔ قیام کابندوبست، سترپوشی،معاش کاانتظام وغیرہ وہ امورہیں جن کے لیے ہرشخص کوشاں ہے۔ وہ اپنی زندگی کے بہترین لمحات انہی تقاضوں کی تکمیل میں لگادیتاہے۔ سولہ سالہ تعلیم کا حصول صبح سے شام تک ملازمت ان تقاضوں کی تکمیل میں سنجیدگی کوظاہرکرتی ہے۔

دوسری جانب کچھ امورایسے ہیں جن کے لیے انسان کارویہ لا ابالی(casual)ہوتاہے۔ مثلاًایک عام انسان کبھی نہیں سوچتا کہ ہرشے زمین کی طرف گرتی ہے لیکن درخت زمین کی مخالف سمت اوپر کیوں جاتا ہے؟ یایہ کہ ہردرخت کوپانی اورہواتویکساں ملتی ہے،لیکن ان کے پھل کیوں مختلف ہوتے ہیں؟ انسان کہاں سے آتا اور کہاں جاتا ہے؟ اس کا خالق کیا چاہتا ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ وغیرہ۔

دوسری جانب یہ واقعہ ہے کہ سنجیدہ اور اہم امور میں لا ابالی پن تباہ کن نتائج پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی معاش کے حصول میں غیرسنجیدہ ہوجائے توفاقوں کی نوبت آجائے گی،اگرکوئی شخص ڈرائیونگ کو لا پرواہی سے کرے توحادثہ کاقوی امکان ہے وغیرہ۔ لیکن کیایہ سنجیدگی (Sincerity)صرف مادی اموراوربنیادی ضروریات میں ہی درکارہے؟اس طرح توجانورانسان سے بہترہے، ایک چیونٹی ذخیرہ کرنے میں طاق ہے۔ ایک شیرشکارکرنے میں مشاق ہے،ایک چڑیاگھونسلہ بناتی ہے،لیکن جانور یہ تمام کام اپنی جبلت کے تحت کرتے ہیں۔

اگرانسان سے بھی سنجیدگی انہی امورمیں مطلوب ہے تومانناپڑے گاکہ انسان ارتقاء میں جانورسے بہت پیچھے ہے۔ لیکن ایسانہیں۔ انسان کااصل شرف’’خود شعوری‘‘اور’’میں‘‘کااحساس ہے۔اسے آنے والے کل کاشعور اوربیتے ہوئے کل کااحساس ہے۔اسے روح کی پیاس لگتی ہے۔اسے اپنے خالق کااحساس ستاتا ہے۔اسے’’کیوں‘‘کاجواب چاہیے۔اسے حق وباطل کی تفریق کا شعور ہے، غرض یہ کہ انسان کی زندگی محض مادی وجبلی تقاضوں تک محدودنہیں بلکہ روحانی تقاضوں کی تکمیل بھی اس کا تقاضا ہے۔

اسی وجہ سے مادی سامانِ راحت جمع کرنے والا انسان ضروری نہیں کہ راحت بھی حاصل کر لے۔ راحت و خوشی ایک غیرمادی احساس ہے۔جومحض مادی اشیاء کے حصول سے پورا نہیں ہوسکتا۔چنانچہ سنجیدگی کادائرہ کار غیر مادی امورتک پھیلانابہت ضروری ہے۔جس طرح ناشتہ جسمانی ضرورت ہے،تواسی طرح صبح سویرے خداکے حضورحاضری میں بھی سنجیدگی درکارہے۔ جس طرح ملازمت میں انتہائی محتاط اندازمیں باس کے احکامات کی تعمیل ضروری ہے۔اسی طرح رب کائنات کے احکامات کومانناضروری ہے۔

کوئی شخص اگرچاروں طرف آگ میں گھرجائے تواس کارویہ انتہائی سنجیدہ ہوجاتاہے۔وہ قہقہے نہیں لگاتاکیونکہ اسے علم ہے کہ اس کا لا ابالی رویہ اسے بھسم کردیگا۔بالکل اسی طرح ہرانسان جہنم کے غیرمرئی شعلوں میں گھراہواہے۔ان شعلوں سے نجات کاواحدراستہ خدا پرستی، خداسے محبت،خداکی یاد اوراس کے احکامات کی تعمیل ہے۔لیکن آج انسان ان غیرمرئی شعلوں سے بے نیازپاگلوں کی طرح ہنس رہاہے۔اسے نہ تواس خطرے کاکوئی شعورہے اورنہ اس سے آگاہی کاکوئی شوق۔ اس آگ کا گھیرا تنگ ہورہاہے اورجب یہ شعلے دامن پکڑلینگے تویہ ہنستاہواانسان خاموش ہوجائے گا۔پھریہ سنجیدہ ہو جائے گا۔لیکن ان شعلوں کے قہقہے اس کی سنجیدگی کا مذاق اڑائیں گے اوراسے پاگلوں سے بھی بدتر بنا دینگے۔

 
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.