مشرک عورت سے شادی؟

میرا سوال ہے کہ سورہ البقرہ کی آیت 221 میں اللہ مشرکین سے شادی کی ممانعت کرتا ہے لیکن سورہ المائدہ کی آیت 5 میں اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کو جایز قرار دیا ہے اور اجازت بھی صرف مردوں کو ہے۔ مسلمان عورت کی کسی غیر مسلم سے شادی پر قران خاموش ہے۔

جب کہ عیسائ بھی شرک کرتے تھے اور ہیں بلکہ قران عیسایوں کو خطاب کر کے سورہ النسا کی آیت 171 میں انہیں شرک سے بعض رہنے کی تلقین کرتا ہے لیکن قران کی ایک آیت سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ قران تمام عیسایئوں کو ایک جیسا نہیں سمجھتا جیسا کہ سورہ آل عمران کی آیت 113 سے 115 تک میں ایسے عیسایوں کا زکر کرتا ہے جويُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَـٰئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ کرتے ہیں اور ان کو صالحین بھی کہتا ہے۔

اس کے علاوہ سورہ توبہ کی آیت 30 میں یہودیوں کے شرک کا زکر ہے۔ تو کیا قران میں تضاد نہیں ؟۔ یہ سوال میں قران میں کیڑے نکالنے کے لئے نہیں بلکے اپنی کم علمی کو دور کرنے کے لئے پوجھ رہا ہوں ۔

اپنے سوال کو ایک مثال سے ایسے بیان کرتا ہوں اگر فرض کریں کہ کوئ شخص شراب پی رہا ہے لیکن وہ یہ بات نہیں جانتا لیکن اپ جانتے ہیں ۔ اب کیا آپ اس مشروب کو اپنے گھر لانا پسند کرہں گے؟۔

بلکل ایسے ہی اگر اہل کتاب شرک کرتے ہیں اگر وہ یہ بات نہیں تسلیم کرنے اور کہتے ہیں کہ وہ بھی ایک توحید کے علمبردار ہیں تو کیا آپ جانتے ہوئے بھی کہ یہ لوگ شرک کرتے ہیں کیا ان کی عورتوں سے شادی کریں گے؟ کیا ایسی عورتوں کہ گھر میں لانا درست عمل ہوگا؟

ایک طرف قران شرک سے اتنی نفرت کرتا ہے کہ جانور ذبح کرتے ہوئے بھی اللہ کا نام لینے کو کہتا ہے اور اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ وہ جیز نہ کھاو جس پر اللہ کا ذکر نہ لیا گیا ہو اور دوسری طرف مشرک عورتوں کو گھر میں لانے کی اجازت؟

زہن میں اور بھی تھا لکھنے کو لیکن سوال کی طوالت کے ڈر سے یہیں پر اکتفا کرتا ہوں

جواب کا منتظر۔

محمد نعیم خان

جوابات احسان خان

دو نبی حضرت نوح اور حضرت لوط علیھما السلام کی بیویاں بھی مشرک تھیں، اگر یہ قانون ہے تو پھر تو ان انبیاء کرام کو بھی اللہ کا حکم ہوتا کہ اپنی بیویوں کو طلاق دو کیونکہ یہ مشرک ہیں ؟
سورہ تحریم کی 10 میں لکھا ہے کہ ان دونوں کی بیویوں نے خیانت کی اور آگ میں چلی گئیں۔ 
یہ خیانت ہی تو شرک تھا کہ انہوں نے اللہ کی بات نہ مانی اور اپنی خواہشات کو ترجیح دی۔

میری ناقص رائے یہ ہے کہ قران مشرکہ سے نکاح نہیں روکتا بلکہ جہاں قران نے نکاح نہ کرنے کی بات کی ہے وہاں لفظ پراپر ناؤن المشرکات ہے۔ یعنی وہ مخصوص مشرک تھے جو خدائی قانون کے سامنے کھڑے ہوگئے تھے۔

وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۔۔۔۔۔

لہذا نکاح کا اطلاق اسم معرفہ پر ہوگا اسم نکرہ والے اس سے آزاد ہونگے۔ 
پس ان مشرک عورتوں اور مردوں سے نکاح حرام کیا گیا تھا جو رسول کے مقابلے میں کھڑےہوگئے تھے اور رسول اللہ کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ انہی مشرکوں سے اللہ نے نہ صرف نکاح کرنے سے منع کیا تھا بلکہ مسجد الحرام میں ان کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی تھی۔

اگر مشرک سے نکاح حرام ہے تو پھر ہم سب مشرک ہیں۔
بریلوی قبر والوں کو جاجت روا مانتے ہیں۔
سلفی بخاری کو قرآن سے اوپر کا درجہ دیتے ہین۔
اہل تشیع اپنے بارہ اماموں کو کلام اللہ پر ترجیح دیتے ہیں۔
اہل قرآن مجھ سمیت اپنے نفس کے پجاری ہیں۔ اور نفس کو الٰہ بنا رکھا ہے 
افرایت من اتخذا الٰہ ھواہ۔

شرک سے پاک کوئی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ہم سب کسی نہ کسی طور پر اللہ کے حکم میں ملاوٹ کر رہے ہوتے ہیں۔

اس آیت سے یہ بات مزید واضح ہوتی ہے ۔

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ [٢٤:٢] 

الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [٢٤:٣] 
یہ بھی وہی زانی ہے جس کو سو کوڑے لگ چکے ہیں، اسی لیے اس پر ال لگا ہوا ہے۔ اور زانیہ بھی وہی ہے جس کو سزا مل چکی ہے۔ 
انہی کے بارے میں قران کہتا ہے کہ اب زانی کا نکاح زانی یا مشرکہ عورت سے کیا جائے اورزانی عورت کا نکاح زانی یا مشرک مرد سے کیا جائے۔

لہذا آج بھی اگر ایسا مشرک ہو تو اللہ کے دین کے خلاف کھڑا ہو یا فساد میں ملوث ہو اس سے نکاح نہیں کیا جائے گا۔ اور نہ ہی اسے مسجد الحرام جانے کی اجازت ہوگی۔
لیکن
جو مشرک نادانی میں شرک کر رہا ہے اور اس کے شرک سے مسلمان متاثر نہیں ہوتے اور نہ وہ فسادی ہے تو ایسے مشرک سے نکاح بھی ہو سکتا ہے اور مسجد الحرام بھی جا سکتا ہے۔

جوابات: محمد حنیف

برادران محترم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلام و رحمت 

حضرت ابراہیم علیہ سلام نے جب اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ سلام کو مکہ مکرمہ کی وادی غیر ذی زراع میں بسایا تو اس کے قریباً دو ہزار سال کے بعد اس مقام پر آخری نبی ﷺ کی بعثت ہوئی ۔ 

جب نبی اکرم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو اس وقت ان کے مخاطبین کی کثرت اُن لوگوں کی تھی جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب آئی ہی نہ تھی۔ 

ان لوگوں کے یہاں اللہ کا تصور تو موجود تھا ، لیکن اُن لوگوں نے اسے اس انداز میں دیگر سینکڑوں خداؤں کے ساتھ مکس کر دیا تھا کہ اللہ کریم کی وحدانیت اور لا شریک لہ ، کی کوئی بھی رمق ان کے تصور میں موجود نہ تھی ۔سینکڑوں بُت کعبۃ اللہ میں رکھے ہوئے تھے ۔ باہر لات ومنات اپنی شان و شوکت کے ساتھ براجمان تھے ۔ 

جب نبی اکرم ﷺ نے ان لوگوں کو مخاطب کیا ، تو اُن میں سے کچھ ایمان لے آئے باقیوں نے آپ ﷺ کی مخالفت کی ۔ 

وہ لوگ جو ایمان لے آئے ، مومن کہلائے جب کہ وہ لوگ جو ایمان نہ لائے انہیں قرآن کریم نے ” مشرکین ” کے لقب سے پُکارا۔

ہجرت کے بعد جب آپﷺ مدینۃالمکرمہ تشریف لے گئے تو وہاں قابل ذکر تعداد میں اہل کتاب موجود تھے ۔ 
اس طرح اب آپ ﷺ کے مخاطبین تین طرح کے گروہ تھے ۔ 

اول وہ جو مومن تھے ، دوئم مشرکین ، سوئم اہل کتاب ۔

ان اہل کتاب میں بھی دو طرح کے لوگ تھے ۔ 

ایک وہ جو حضرت موسیٰ علیہ سلام اور حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی حقیقی تعلیمات کی پیروی کرتے تھے ۔ لیکن آپ ﷺ کو بحیثیت نبی کے ماننے پر رضامندنہ تھے ۔ 

دوسرے وہ جو اپنا تعارف بحیثیت اہل کتاب ہی کرواتے تھے لیکن حقیقتاً یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے نبی علیہ سلام کی تعلیمات میں من مانی تبدیلیاں کیں ۔ اپنے نبی کی کتابوں میں ردوبدل کیا ۔ 
یہ وہ لوگ تھے جو اپنی کتاب کی اُن آیات کو مانتے تھے جو ان کے مفاد میں ہوتی تھیں ۔جبکہ ایسی آیات کہ جو ان کے مفادات پر قدغن لگاتی تھیں ان کے متن ، معنی و مفہوم ، ہر طرح سے تبدیل کرکے اس سے اپنی مرضی کی سند لیتے تھے ۔ 

ان دو طرح کے اہل کتاب کا ذکر قرآن کریم اس طرح کرتا ہے ۔ 

فرمایا ۔

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ [٣:١١٠]
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں [ابوالاعلی مودودی]

وہ لوگ جنہیں قرآن فاسق قرار دے رہا ہے ۔ اُن کے بارے میں کہا کہ ۔۔۔۔

لَن يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى ۖ وَإِن يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ [٣:١١١]ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ [٣:١١٢]
یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے اِن کو مدد نہ ملے گی، یہ جہاں بھی پائے گئے اِن پر ذلت کی مار ہی پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں، ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے، اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے [ابوالاعلی مودودی] 

دوسری طرف وہ اہل کتاب جنہیں قرآن نے سراہا ہے ان کے متعلق ارشاد فرمایا ۔ 

لَيْسُوا سَوَاءً ۗ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ [٣:١١٣]يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَٰئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ [٣:١١٤]
مگر سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اسکے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں، اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں یہ صالح لوگ ہیں [ابوالاعلی مودودی]

وہ اہل کتاب جنہیں قرآن کریم نے ” فاسق” کہہ کر پُکارا ہے ، اُنہیں ان کے ان جداگانہ ناموں سے مخاطب کیا ہے ۔ 
یہود ۔۔۔۔۔۔ نصاریٰ
قرآن کریم ان دونوں گروہوں کو ” مشرکین” کے زمرے میں بیان کرتا ہے ۔ 

چنانچہ ارشاد فرمایا ۔

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ [٢:١٣٥]

یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہ راست پاؤ گے عیسائی کہتے ہیں: عیسائی ہو، تو ہدایت ملے گی اِن سے کہو: "نہیں، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیمؑ کا طریقہ اور ابراہیمؑ مشر کو ں میں سے نہ تھا” [ابوالاعلی مودودی] 

کُھلے الفاظ میں بیان فرما دیا کہ نہ یہودی، نہ عیسائی ،بلکہ صرف ملت ابراہیی ۔ 

وہ راستہ جو ابراہیم علیہ سلام کا راستہ تھا وہ دین خالص ہے ۔ شرک سے پاک ہیں ۔

تم نے اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کیا ہوا ہے ۔ تم مشرکین میں سے ہو۔

اس مقام پر لازم ہے کہ ہم اس لفظ ذ”شرک” پر بھی غور کر لیں۔ 

” الشرک” کے بُنیادی معنی ، کسی شئے کا ایک دوسرے میں شریک ہوجانا ہے ۔ گُڈ مُڈ ہوجانا ہے ۔ خلط ملط ہو جانا ہے (محیط)

"شرک ” قرآن کریم کی خاص اصطلاح ہے ۔

اس کے معنی اللہ کریم کی ذات و صفات میں کسی دوسرے جاندار یا غیر جاندار کو شریک کرنا ہے ۔ وہ تمام اختیارات ، قوت اور اختیار جو اللہ کریم کی ذات مقدس کے ساتھ مشروط ہیں ، ان میں غیر از خدا کو بھی شامل کرنا ۔ وہ حدود و قیود ، اُصول و ضابطے جو اللہ کریم نے بذریعہ وحی عطا فرمائے ان میں التباس کر کے ، انسانوں کے خود ساختہ قوانین کو شامل اور نافذ کرنا ہے ۔ 

جب انسان خدا کی عطا کردہ روشنی سے علی الرغم، انسانوں کے بنائے ہوئے ضابطوں کی پیروی کرنا شروع کر دے تو وہ شرف انسانیت سے گر جاتا ہے ۔ 
دین میں کسی دوسرے انسان کو سند مان لے ، اس کی اندھی تقلید کرنا شروع کر دے ۔ اس کی پیروی کرنا شروع کر دے تو اس کا نتیجہ ” فرقہ واریت ” ہے ۔ جسے اللہ کریم نے کُھلا شرک قرار دیا ہے ۔

دور نزول قرآن میں وہ لوگ جو خود کو ” اہل کتاب” کہتے تھے لیکن ان کے عقائد ” شرک ” پر مبنی تھے ۔ 

ایک طرف یہودی تھے جو ” عزیر” کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے اور اس طرح شرک کا ارتکاب کرتے تھے ۔

دوسری طرف ” عیسائی” تھے جو ” تثلیث” کے قائل تھے ۔ 
جب کہ تیسری طرف ” مشرکین” مکہ تھے ۔

قرآن کریم کے نزدیک یہ سارے ایک ہی کیٹگری میں شامل ہیں یعنی ” مشرک” ۔۔۔

چنانچہ ” اہل کتاب” کی عورتوں سے شادی کی اجازت ( اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ یہ اجازت ہے ، حکم نہیں ) سے مراد وہ لوگ تھے جو نبی اکرم ﷺ کے دور میں اپنے اپنے انبیاء علیہ سلام کی حقیقی تعلیم پر عمل پیرا تھے ۔ اللہ کریم کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرتے تھے 

۔سوائے نبی اکرم ﷺ کی نبوت کے ایمان کے ان کے عقائد بلکل مومنین والے عقائد تھے ۔ 

اُن کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی تھی ۔

اس مقام پر اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان اہل کتاب کے ایمان اور مومنین میں صرف ایک نقطہ کا فرق تھا اور وہ تھا ، آپ ﷺ کی رسالت ۔ 

آج جب ہم اس ماڈرن دور میں موجود ہیں ، ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ شادی کے بعد عموماً عورت اپنے شوہر کے خاندان کا حصہ بن جاتی ہے ، آہستہ آہستہ اس خاندان کا جز بن جاتی ہے ۔ ان کے رنگ میں رنگ جاتی ہے ۔ 
چنانچہ دور نبوی میں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت میں یہ ہی حکمت عملی مد نظر تھی کہ جب ان اہل کتاب کی عورتیں نکاح کر کے مومنین کے خاندان کا حصہ بنیں گی تو گمان اغلب یہ تھا کہ وہ حقیقت کو سمجھ لیتیں اور نبی اکرمﷺ کی رسالت پر ایمان لے آتیں ۔ 

مومنین کی عورتوں کا ، مشرکین اور اہل کتاب سے نکاح کی اجازت نہ دینے کی بھی یہ ہی وجہ تھی ۔ 
اگر مومن عورت کسی مشرک یا اہل کتاب سے بیاہ دی جاتی ، تو یہ اکیلی عورت اس سارے خاندان کو تو کیا مسلمان بناتی ،بلکہ خود اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ۔ 
اس مومن عورت کے لئے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اس خاندان کا جز بن جاتی ۔ چنانچہ یا تو اسکی شادی ختم ہو جاتی ، یا پھر وہ منافق کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ۔

میرے نقطہ نظر کے مطابق ، ایک مخصوص وقت میں ، مخصوص حالات میں ، اللہ کریم نے ان "اہل کتاب” کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی تھی جن کا ایمان سوائے نبی اکرم ﷺ کی رسالت کے ، بلکل وہ ہی تھا جو دیگر مومنین کا تھا ۔ 

آج ہمارے یہاں جو عیسائی ، یہودی یا دیگر مذاہب کے پیروکار موجود ہیں ، اُن میں سے کسی ایک کے پاس بھی اپنے نبی کی کتاب ، اصل حالت میں موجود نہیں ۔

دوئم یہ کہ ایسے حالات بھی نہیں ہیں جن سے اس طرح کی رشتہ داری کا کوئی ایسا نتیجہ برآمد ہو جو دین کے تمکن کے لئے سود مند ہو ۔

چنانچہ میرے نقطہ نظر کے مطابق ، قرآن کے پیروکاروں کو آج کے دور کے عیسائیوں اور یہودیوں سے عائلی تعلقات کی اجازت نہیں ہے ۔

اس مقام پر ایک نقطہ کی وضاحت لازمی ہے ۔ 

اللہ کریم کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کر کے اسے معبودماننا ، اس کی عبادت کرنا ، اس پر ایمان لانا ۔یہ شرک عظیم ہے ۔

اللہ کریم کے اختیار کلی میں کسی کو شریک ماننا ، اس کے احکامات میں کسی دوسرے انسان کے نظریات کی ملاؤٹ کرنا ، اس کے نازل کردہ قوانین میں دوسرے انسان کے بیان کردہ قوانین کی ملاوٹ کرنا ، کسی دوسرے انسان کی سوائے انبیاء علیہ سلام کے اطاعت کرنا ۔ یہ بھی شرک ہے ۔

لیکن ان دونوں طرح کے شرک میں بہت نمایاں فرق ہے ۔

آج ہمارے معاشرے میں ، مسلمان کتنے ہی فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ اپنے جیسے انسان کو دین میں حجت سمجھ کر اس کی تقلید کی جاتی ہے اس کے کہے ہوئے کو دین میں حرف آخر مانا جاتا ہے ۔یہ بھی شرک ہے مگر ۔۔۔۔۔۔

اس بات کا بہت خیال کرنا لازم ہے کہ ہمارے اس معاشرے میں عمومی طور پر ، کسی انسان کو نہ تو خدا سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی عبادت کی جاتی ہے ۔ 

اللہ کریم کی وحدانیت کے حوالے سے تمام مسلمین متفق ہیں ۔ 

ہم میں سے کوئی بھی کسی کو خدا کا بیٹا نہیں سمجھتا ۔ 

چنانچہ اس شرک میں اور اُس شرک میں جہاں کسی جاندار یا غیر جاندار کو اللہ کا شریک مانا جاتا ہے، اس کی بیوی ، بیٹا مانا جاتا ہے ، بہت واضح فرق ہے ۔ 

چنانچہ ہمارے یہاں کے عام مسلمین کا باہمی نکاح ، از روئے قرآن بلکل درست ہے ۔ 

البتہ ہمیں فرقوں اور گروہوں کے شرک سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات کرنے چاہیے ۔

اللہ کریم سے دست بہ دعا ہوں کہ وہ مجھے آپ کو اور دیگر تمام احباب کو دین خالص کو سمجھنے اور ماننے والا بنا دے ۔ 
سلامت رہیں 

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.